ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوکہ وہ لوگ جو کبھی اسکول نہیں گئے، بالکل ناخواندہ اور حد تو یہ کہ ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے تھے ایسے اداکاروں کو حبیب تنویر اسٹیج پر لائے۔
حبیب تنویر نیا تھیٹر، فوٹو بہ شکریہ، نگینہ تنویر
میں نے آج سے تقریباً ستائیس اٹھائیس برس قبل 1990 میں حبیب تنویر صاحب کو دیکھا تھا۔اسی زمانے میں، میں دہلی آیا تھا اور تھوڑا بہت تھیٹر کا شوق رکھتا تھا، اس لیے، نئے نئے پِلے دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر گھومتا رہتا تھا۔ آئی ٹی او پر ایک پیارے لال بھون ہال ہے جہاں ایک زمانے میں ناٹک ہوا کرتے تھے وہاں روسی ناول نگار میکسم گورکی کی کتاب کی بنیاد پر ایم کے رینا صاحب کا ناٹک مدرہورہا تھا۔نوٹس بورڈ کو دیکھتے ہوئے مجھے دور سے حبیب تنویر صاحب نظر آئے۔ ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔
وہ سر پر فرنچ کٹ کیپ پہنے ہوئے تھے، ایک شال ان کے جسم پر لپٹی ہوئی تھی اور ایک پائپ ان کے منہ میں تھا۔ اپنے آپ میں وہ منظر اور وہ شخصیت اس قدر جاذبِ نظر اور پُر کشش تھی کہ میرے ذہن میں ایک تھیٹر ڈائرکٹر کا جو تصور ان کو دیکھ کر قائم ہوا وہ اس سے پوری طرح مشابہ تھا جو میرے ذہن میں پہلے سے تھا۔میرا ان سے غائبانہ تعارف ایک برس قبل اس وقت ہوا تھا جب میں دہرہ دون میں پڑھتا تھا۔ مشہور ناٹک کار موہن مہاروشی میرے اسکول میں آئے تھے۔
اُس وقت مجھے تھیٹر کا نیا نیا شوق ہوا تھا۔ میں نے اخبار میں یہ پڑھا کہ نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے زیر اہتمام کوئی نہرو رنگ مہوتسو ہورہا ہے۔ یہ آل انڈیا پیمانے پر پہلا تھیٹر فسٹیول تھا جس کوانہوں نے شروع کیا تھا اور جسے آج کل بھارنگم کہا جاتا ہے۔ میں نے اخبار میں یہ بھی پڑھا تھا کہ ناٹک ’آگرہ بازار‘ کو پھر سے کھیلےجانے کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ضد کرکے ہم چار لڑکے اس ناٹک کو دیکھنے کے لیے دہلی آئے تھے اورہم نے کمانی ہال کی بالکنی میں بہت اونچی سیٹ پر بیٹھ کر ’آگرہ بازار‘ دیکھا۔
اُس زمانے میں میری اردو بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی تھوڑی بہت اردو گھر کے ماحول کی وجہ سے جانتا تھالیکن ذہن میں اس ناٹک کا ایک تصور بیٹھ گیا۔اس کے کافی برسوں کے بعد غالباً 2005 میں اس وقت جب میں نے داستان گوئی کا احیا کیا تو ان سے پھر ملاقات ہوئی۔ میں اس زمانے میں داستان گوئی بھی کر رہا تھا اور تھوڑا بہت ڈاکومنٹری وغیرہ بنانے میں بھی میری دل چسپی تھی۔ انوشا رضوی اور مجھ کو حبیب تنویر صاحب پر ڈاکومنٹری فلم بنانے کا خیال ہوا۔
اس سلسلے میں میں ان سے ملا اور بھوپال بھی گیا جہاں وہ مستقل طور پر قیام پذیر تھے، وہیں ہم نے ڈاکومنٹری شوٹ کی۔ وہ رمضان کا مہینہ تھا۔ بھوپال ہی میں حبیب تنویر صاحب چھت پر ’آگرہ بازار‘ کی ریہرسل کررہے تھے۔ پیچھے کہیں دور کوئی جاگرن چل رہا تھا اور بڑے زور کی آواز آرہی تھی جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھے۔مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ’آگرہ بازار‘ جس کو وہ تقریباً پچاس برس قبل کر چکے تھے اور جس کے ہزاروں شوز مختلف جگہوں پر ہو چکے ہوں گے اس ناٹک کی ریہرسل کو بھی وہ اس قدر دل جمعی ، لگن اور یکسوئی سے دیکھ رہے تھے جیسے یہ اس پِلے کی پہلی ریہرسل ہو ۔
یہ عجیب و غریب بات تھی کہ ان کا تھیٹر، ناٹک اور ایکٹرز سے رشتے خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ اُکتا تے ہرگز نہیں تھے۔مجھے یا د ہے کہ ایک لائن ہے جس کو ایک آدی باسی ایکٹر بابا چرن رام کو بولنا تھا کہ ’زندگی ہے تو بھگتنا ہی ہوگا‘حبیب تنویر صاحب نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ ’بھگتنا ہی ہوگا‘ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ’ہی‘اس میں اضافی ہے۔اس سے وزن ساقط ہوجاتا ہے۔انھوں نے اسے باقاعدہ گا کر سُنایا کہ’ زندگی ہے تو بھگتنا ہوگا‘۔
ایم ایس ستھیو کے ساتھ حیبیب تنویر / فوٹو : bollywooddirect@
اتفاق کی بات ہے کہ میری ڈاکومنٹری میں جب یہ شوٹ آتا ہے تو اس سے ٹھیک پہلے ان کی شریکِ حیات اور شریکِ کار مونیکا جی کا انٹرویو ہے جنھوں نے حبیب تنویر صاحب کے ساتھ تقریباً پچاس سال تک کام کیا اور ’نیا تھیٹر‘ کو کھڑا کرنے میں ان کا بھی اہم رول ہے۔ مونیکا جی کہتی ہیں کہ حبیب اب تھک گئے ہیں لیکن کریں تو کیاکریں کام تو کرنا ہی ہے۔ اس کے فوراً بعد حبیب صاحب کی یہ لائن گاتے ہوئے آتی ہے کہ ’ زندگی ہے تو بھگتنا ہوگا‘۔وہ فلم بنی اور پھر حبیب صاحب کے ساتھ ہمارا کافی ربط ضبط رہا۔
جب وہ دہلی آتے تو ملاقات ہوتی تھی۔ ہم جب بھوپال جاتے تو بھی ملاقات ہوتی۔ انھوں نے داستان گوئی کی ابتدا میں ایک دو ریہرسل لی۔وہ داستان گوئی سے بہت خوش تھے۔ دو تین سال بعد جب انھوں نے داستان گوئی کو دیکھا تو یہ دیکھ کر کے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور دوسری کہانیاں بھی ہم نے سنانا شروع کردی ہیں، وہ بے انتہاخوش ہوئے۔جب میں کالج میں تھا اور تھیٹر کی جانب راغب ہورہا تھا تو ایک دن شمس الرحمن فاروقی صاحب نے مجھ سے کہا کہ دیکھو بھائی یہ تھیٹر کی لائن اتنی آسان نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے کہ حبیب تنویر صاحب جہاں وہ آج ہیں انھیں یہاں تک پہنچنے میں کتنے برس لگے ہیں۔
میرے ذہن میں ایک دلچسپ شخصیت، آگرہ بازار اور وہ آدمی جس نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے برسہا برس تک سعیِ پیہم ، جہدِ مسلسل اوراستقلال و مضبوطی کے ساتھ اپنی روش، آدرشوں اور آستھاؤں پر قائم رہنے والا ایک آرٹسٹ اور فن کار کا جو تصور تھا وہ حبیب تنویر صاحب کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔میرے خیال میں حبیب تنویر صاحب کے تھیٹر کا کمال یہ تھا کہ وہ ہندستان کے کسی گاؤں میں مکمل طور پر At home ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نیویارک اور لندن کے بھی بڑے سے بڑے اسٹیج پر مکمل طور پر at homeتھے۔ ان کے تھیٹر کا کمال یہ تھا کہ اگر آج آپ تھیٹر کا تصور کریں تو تھیٹر کا مطلب ہے کہ شہروں میں کی جانے والی ایسی چیز جسے شہروں میں رہنے والے پڑھے لکھے بورژوا طبقے کے لوگ دیکھتے اور سنتے ہیں۔
حبیب صاحب نے اپنے تھیٹر کے ذریعے ایسا تھیٹر تیار کیا کہ آپ ہریانہ کے کسی گاؤں کے لوگوں کو اگر شری رام سینٹر میں گھسا دیں وہ ان کے تھیٹر سے اتنا ہی لطف اندوز ہوں گے جتنا نیویارک اور لندن کا طبقۂ اشرافیہ ان کا تھیٹردیکھ کر محظوظ ہوتا تھا۔یہ بے انتہا کمال کا کارنامہ ہے۔ کسی اور تھیٹر ڈائرکٹر کے پاس ایسا مواد رہا ہی نہیں انھوں نے تھیٹر کی ایسی زبان تخلیق کی جس میں میوزک اور سادگی کے ساتھ مزاح بھی تھا۔ حبیب صاحب میں تھیٹر کا وہ تام جھام بالکل نہیں تھا کہ اگر ان کے پاس پچاس عدد لائٹیں نہیں ہیں تو وہ تھیٹر نہیں کرسکتے۔
ان کا شو گاؤں کے چوپال میں ہوسکتا تھا اور کسی میلے میں بھی،کسی بڑے سے بڑے اسٹیج ، کالج اور آڈیٹوریم، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم میں بھی۔ میں نے ’چرن داس چور ‘کا شو دہلی کے آئی آئی ٹی میں ، بمبئی کے پرتھوی تھیٹر میں اور دہلی کالج میں بھی دیکھا ہے اور اس کا تاثر ہمیشہ یکساں ہی رہا ہے۔حبیب صاحب کے تھیٹر کی دوسری اہم چیز یہ ہے کہ انھوں نے گاؤں کے آدی باسی غیر تربیت یافتہ اداکاروں کو اسٹیج پرکھڑا کردیا۔
بلراج ساہنی کے ساتھ حیبیب تنویر، فوٹو بہ شکریہ، sahapedia
ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوکہ وہ لوگ جو کبھی اسکول نہیں گئے، بالکل ناخواندہ اور حد تو یہ کہ ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے تھے ایسے اداکاروں کو وہ اسٹیج پر لائے۔ میں ساٹھ کی دہائی کی بات کر رہا ہوں اس زمانے میں جب فوک کا کوئی نام لینے والا نہیں تھا، اس وقت تنویر صاحب نے پندرہ بیس سال تک ان آدی باسی اداکاروں کے ساتھ کام کیا اور بالآخر نہ صرف ہندستان بلکہ دنیا کی تمام جگہوں پر اپنا لوہا منوایا۔
حبیب صاحب کے آدی باسی ایکٹرز جو چھتیس گڑھ کے گاؤں میں شیڈوں میں رہ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے جب وہ وہاں سے نکل کر فرانس اور لندن گئے اور جنھیں قالین، مغربی بیت الخلا اور کمرے میں اے سی کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہے تو انھوں نے کیسا محسوس کیا ہوگا، لیکن اُنہی اداکاروں کو لے کر وہ دنیا بھر میں گھومے۔ اپنے اداکاروں کے ساتھ ان کے دو رشتے تھے۔ ایک جب وہ ڈائرکٹر کی حیثیت سے شو کو ڈائرکٹ کر رہے ہوتے اور دوسرا شوز کے بعد ان اداکاروں کے ساتھ ہنسی مذاق، گالی گلوج ، سرپھٹوّل اور طرح طرح کی چیزیں اور باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن حبیب صاحب خندہ پیشانی کے ساتھ رات گئی بات گئی کے مصداق سب کچھ پسِ پشت ڈال کر نئے عزم، حوصلہ اور خوش مزاجی کے ساتھ ان کے ساتھ پھر کسی نئے ناٹک پر کام کرنا شروع کردیتے تھے۔
حبیب صاحب کی شخصیت میں خوش مزاجی تھی۔ ان کاحسِ مزاح بہت اچھا تھا۔ انھوں نے اپنی شخصیت کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اس طرح ملتے تھے گویا وہ ان کے دوست ہوں۔عمر اور رتبے میں کافی تفاوت ہونے کے باوجود بھی وہ مجھے اور انوشا کو اپنا دوست سمجھتے اور کہتے بھی تھے۔ اس کو کسرِ نفسی کہنا صحیح نہیں ہوگا بلکہ اپنی زندہ دلی اور بنیادی احترامِ انسانیت کے ناطے وہ ہر کس وناکس کی عزت و وقار کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے رفقا و احباب کی تعداد نہایت وسیع تھی۔
حبیب صاحب ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ 1940 میں بمبئی میں اپٹا سے منسلک ہوگئے اور فٹ پاتھ فلم میں دلیپ کمار صاحب کے ساتھ کا م کیا اور بہت سارے ڈرامے اسٹیج کیے۔ وہ اردو کے نہایت عمدہ شاعر بھی تھے اور اپنا کلام بہت اچھے انداز میں سناتے تھے۔ حبیب صاحب جس بھی میدان میں جاتے وہاں اپنا نقش مرتسم کردیتے۔ 1950 میں جب کہ فارسی تھیٹر ختم ہوچکا تھا اور تھیٹر میں کوئی خاص اسکوپ نہیں رہ گیا تھا انھوں نے اپنے کیریئر کے لیے تھیٹر کا انتخاب کیا اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر قائم رہے۔
ساٹھ ستر برسوں تک اس سےجوجھتے اور سادگی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ دلی میں پچیس سال تک دو کمروں کے فلیٹ میں رہے اور اپنے لوگوں کے ساتھ وہیں ریہرسل بھی کرتے تھے۔ یہ سادگی، پیسے کی لالچ سے دور رہنا اور اپنا کام کیے جاناہماری فنونِ لطیفہ کی روایتوں کا وہ دھارا ہے جو تصوف سے ملتا ہے حبیب تنویر اس کی وہ ایک اہم کڑی اور خوش مزاج کرم یوگی تھے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ ان سے میری ملاقات 2005 میں ہوئی۔ وہ جب بھی دہلی آتے تو ملاقات ہوتی تھی۔ 2006-7 میں انھوں نے اردو میں اپنی خود نوشت سوانح حیات لکھنے کا سلسلہ اس وقت شروع کیا جب وہ 82-83 برس کے ہوگئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس کو تین جلدوں میں لکھیں گے۔
حبیب تنویر نیا تھیٹر، فوٹو بہ شکریہ، نگینہ تنویر
گویا ان کو اعتماد تھا کہ وہ اتنے دنوں تک زندہ رہیں گے کہ اپنی کتاب کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔ ہم نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے ارادے پر قائم رہے۔ میں نے پین گوئن سے ان کا رابطہ کرایا۔ ان کو کتاب لکھنے کا کنٹریکٹ تو مل گیا لیکن کتاب لکھتے لکھتے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی
خود نوشت اردو میں چھپی جس کا میں نے انگریزی میں ترجمہ کیا جو 1913 میں پینگوئن سے Habib Tanvir Memoirs کے نام سے چھپی۔ یہ بے انتہا خوب صورت کتاب ہے۔ میں نے اس کا دیباچہ یہ بتاتے ہوئے بہت طویل لکھا ہے کہ چھتیس گڑھ ، رائے پور کا مسلم معاشرہ 1920 میں کیسے اور کہاں سے آیا۔
نیز ان کی ماں، ان کی بہنیں، ان کے کالے ماموں، ان کے بانس والے ماموں، ان کی نانی کے ایک بھائی پولیس میں اور ایک بھائی کانگریس میں، وہاں کی مسجدیں میلادیں،آدی باسیوں کے ساتھ ان کا میل جول، ان کا آس پاس کے جنگلوں میں گھومنا، تھیٹر کی جانب ان کا راغب ہونا، ناگپور جانا ، علی گڑھ آنا اور پھر علی گڑھ سے بمبئی جانا وغیرہ کا میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔بد قسمتی سے جب ان کا تھیٹر کا کیریئر شروع ہورہا تھا 1955 تک کے زمانے کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کتاب ختم ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی تھیٹر، اردو ادب اور ہندستانی فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ کتاب ایک بیش قیمتی اثاثہ ہے۔یہ کتاب اردو اور انگریزی میں آچکی ہے۔راج کمل سے ہندی میں آنے والی ہے اور امید ہے کہ ان کے ہزاروں لاکھوں پرستاروں تک یہ کتاب جلد پہنچے گی؛
باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
(محمود فاروقی معروف داستان گو ،مصنف اور پیپلی لائیو فلم کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ مضمون انجمن ترقی اردو ہند کے سہ ماہی اردو ادب میں جولائی -ستمبر 2018 میں شائع ہوچکا ہے۔)
یہ مضمون یکم ستمبر 2019کو شائع کیا گیا تھا۔