دی وائر کے بانی مدیر نے ایل جی منوج سنہا کو ایک خط میں کہا ہے کہ پردھان منتری-جن آروگیہ یوجنا سے متعلق خبر کے لیے ادارے کے نامہ نگار جہانگیر علی کے خلاف ان کے ‘بے بنیاد الزام’ صحافی کے ساتھ ہی میڈیا کے لیے بھی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@OfficeOfLGJandK)
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا کی جانب سے دی وائر کے نامہ نگار جہانگیر علی کو کچھ نام نہاد ‘علیحدگی پسند اکوسسٹم’ کا حصہ بتانے کے الزام پر ادارے نے خط لکھ کر احتجاج کیا ہے۔
جہانگیر علی نے آئی اے ایس افسر
اشوک کمار پرمار کے ان الزامات کہ سنہا کی قیادت میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک پرائیویٹ انشورنس کمپنی کے حق میں کئی کروڑ روپے کے معاہدے میں ترمیم کرنے پر پردھان منتری-جن آروگیہ یوجنا پر مالیات اور محکمہ قانون کی صلاح کوخارج کر دیاتھا، کے بارے میں رپورٹ لکھی تھی۔ انہوں نے ایک
فالو اپ رپورٹ بھی لکھی تھی، جس میں کہا گیاہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے آئی اے ایس افسر کے دعووں کو مسترد کرنے کے باوجود بیمہ اسکیم کے حوالے سے کئی سوال باقی ہیں۔
ڈیلی ایکسلسیئر کی رپورٹ کے مطابق، 14 اکتوبر کو جموں میں ایک عوامی تقریب میں سنہا نے’اے بی—پی ایم جے وائی اسکیم سے متعلق خبر کا ذکر کیا اور کہا کہ اس کو لکھنے والا خود ‘علیحدگی پسند’ اکو سسٹم کا ایک فعال حصہ ہے۔’
ایل جی کو لکھے ایک خط میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر جیسے اعلیٰ عہدے سے ‘بے بنیاد الزام’ لگانےاورنشانہ بنانے سےصحافی کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر میڈیا کے لیے بھی خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘مزید برآں، یہ آپ کی انتظامیہ کی اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی میں مداخلت کی خواہش کے بارے میں بتاتا ہے۔صحافی نہ صرف اپنی انفرادی حیثیت میں ان حقوق کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ایک شہری کے طور پربھی انہیں معلومات اور خبریں جاننے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے۔’
دی وائر نے سنہا سے اپیل کی ہےکہ وہ جہانگیر علی کے خلاف الزام واپس لیں اور’جمہوریت کےاہم ستون — میڈیا کے ارکان کے خلاف ایسے بے بنیاد الزام لگانے سے گریز کریں۔’
ذیل میں مکمل خط پڑھ سکتے ہیں۔
§
15.10.2023
بخدمت،
عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر سنہا،
راج بھون
جموں و کشمیر
موضوع: 14 اکتوبر 2023 کو ڈیلی ایکسلسیئر میں شائع ہونے والے آپ کے بیان کے حوالے سے
ڈیئر ایل جی سنہا،
دی وائر کے بانی مدیر کی حیثیت سے میں آپ کو جموں و کشمیر میں پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے بارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے ‘مصنف’ کو غیر منصفانہ اور ناقابل قبول طریقے سے’علیحدگی پسند اکو سسٹم’ کا فعال حصہ بتانے کے خلاف یہ خط لکھ رہا ہوں۔
ڈیلی ایکسلسیئر میں شائع ہونے والے بیان کی تصدیق کے لیے ہم نے آپ کے تبصرے کی ویڈیو ریکارڈنگ کو بھی کراس چیک کیا ہے۔
جس خبر کا ذکر کیا گیا ہے وہ دی وائر میں شائع ہوئی تھی اور اس کو لکھنے والے جہانگیر علی گزشتہ کئی سالوں سے دی وائر کے نامہ نگار ہیں اور جموں و کشمیر سے باقاعدگی سے خبریں/رپورٹس لکھتے آرہے ہیں۔
جہانگیر علی نے دی وائر یا کہیں اوربھی ایسا کچھ نہیں لکھا ہےجو آپ کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو صحیح ٹھہراتا ہو۔ اور ان کے کیے کاموں میں کچھ ایسا تلاش کر پانا، جس سے اس بیان کو صحیح ٹھہرایا جا سکے، مشکل ہے۔
آپ جیسےاعلیٰ عہدے پر فائز شخص کی طرف سے ایسے ‘بے بنیاد الزام’ لگانے اور نشانہ بنانے سے صحافی کے ساتھ ہی میڈیا کے لیے بھی خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، یہ آپ کی انتظامیہ کی اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی میں مداخلت کرنے کی خواہش کے بارے میں بتاتا ہے۔ صحافی نہ صرف اپنی انفرادی حیثیت میں ان حقوق کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ایک شہری کے طور پر بھی انہیں معلومات حاصل کرنے اور خبریں جاننے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ اسے ایک بنیادی آئینی اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
جس خبر کی بات ہو رہی ہے، ایک پالیسی کے بارے میں بتاتی ہے اور پوری طرح سے جائز اظہار کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ بلاشبہ حکومت کواس سے الگ رائے رکھنےیا اگر وہ چاہے تو حقائق پر مبنی جواب لکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ اگر آپ اسے باضابطہ طور پر جاری کرتے ہیں تو دی وائر اسے ضرور شائع کرنا چاہے گا۔
تاہم،یہ واضح رہے کہ کسی سرکاری پالیسی کی تنقید علیحدگی پسندی سے بہت مختلف ہے۔ اسی طرح،جس طرح کسی صحافی کی خبر کو سرکار قبول نہیں کرتی ہے، اسے عوامی طور پر ‘علیحدگی پسند’ کہناآپ کے باضابطہ جواب دینے کے حق سے بالکل علیحدہ ہے۔
ہماری گزارش ہے کہ جہانگیر علی کے خلاف اپنا الزام واپس لیں اور میڈیا، جو جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے، کے ارکان کے خلاف ایسے بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کریں۔
آپ کا مخلص،
سدھارتھ وردراجن
بانی مدیر
دی وائر
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)