
مرکزی حکومت نے 2030 تک 1.84 کروڑ بندھوا مزدوروں کی رہائی اور باز آبادکاری کا ہدف مقرر کیا ہے، لیکن 2023-24 میں 500 بندھوا مزدوروں کی بھی بازآبادکاری نہیں ہو سکی۔ ان مزدوروں کی بحالی کی شرح میں ہر سال گراوٹ آ رہی ہے۔ وعدہ تھا آزادی کا،حقیقت ہےغلامی۔ یوم مزدور کے موقع پر ملاحظہ کیجیے ‘نئے بھارت’ میں بندھوا مزدور کا المیہ …

موگا، پنجاب میں ایک اینٹوں کا بھٹہ، جہاں سے حال ہی میں بڑی تعداد میں بندھوا مزدوروں کو بچایا گیا تھا۔ (تصویر بہ شکریہ: نیشنل کیمپین کمیٹی فار اریڈیکیشن آف بانڈڈ لیبر)
نئی دہلی: اترپردیش کے سہارنپور کے رہائشی نے بیٹے کی شادی کے لیے ٹھیکیدار سے دس ہزار روپے کا قرض لیا۔
قرض کی ادائیگی نہ کرنے پرٹھیکیدار نے ایک بلڈر کے ساتھ ملی بھگت سے باپ اور اس کے دو بیٹوں کو دہلی کے چاوڑی بازار میں بندھوا مزدوری کروا ئی۔ اس دوران ان سے زبردستی زیادہ گھنٹے تک کام کروایا، کام کی جگہ پر بند رکھا اور انہیں تنخواہ نہیں دی۔
چوبیس گھنٹے کی غلامی کی یہ زنجیر آٹھ ماہ کے بعد ٹوٹی، جب مزدوری کرتے ہوئے ان کا چھوٹا بیٹا گر کر بری طرح زخمی ہو گیا اور اس کے علاج کے اخراجات سے بچنے کے لیے بلڈر اور ٹھیکیدار نے انہیں ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔ علاج نہ ہونے کی وجہ سے زخمی نوجوان کی بینائی خراب ہوتی جا رہی ہے۔
یہ کوئی واقعہ نہیں جو قرون وسطیٰ کے کسی جاگیردارانہ نظام میں پیش آیا ہو بلکہ ایک المیہ ہے جو فروری سے اکتوبر 2024 کے درمیان ہندوستانی پارلیامنٹ سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔
یہ کوئی واحدواقعہ نہیں ہے۔ 21ویں صدی کے ‘نئےبھارت’ میں کروڑوں بندھوا مزدور ہیں۔ حکومت ہند نے خود 2016 میں 2030 تک 1.84 کروڑ بندھوا مزدوروں کو آزاد کرانے اور ان کی باز آبادکاری کا ہدف مقرر کیا تھا۔

مرکزی حکومت کا وژن دستاویز
تاہم، بندھوا مزدوری کے خاتمے کے لیے ہندوستانی حکومت کا ‘عزم’ نیا نہیں ہے۔ 1976 میں حکومت نے بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ منظور کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لیکن آج بھی یہ ہندوستانی معاشرے میں رائج ہے۔
کچھ اور مثالیں
سونی پت کااینٹ بھٹہ: پچھلے سال 10000 روپے کے ایڈوانس کے عوض یوپی کے باگپت ضلع کے ایک خاندان کے آٹھ افراد کو 5 ماہ اور 15 دن تک سونی پت کے اینٹ بھٹے میں بندھوا مزدور بناکر رکھا گیا تھا۔ ان آٹھ میں سے چار نابالغ تھے، ایک بچی تو محض ایک سال کی تھی۔
مزدوروں اور نابالغوں سے زبردستی کام لیا گیا۔ کام کی کوئی تنخواہ نہیں دی گئی۔ کھانا بھی صرف اتنا دیا گیا تھا کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ ایک دن بھوک سے بے حال ایک رکن وہاں سے بھاگ نکلا۔ اگلے دن گھر کے دیگر افراد بھی اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلے، المیہ دیکھیے، کسی طرح یہ خاندان طویل فاصلہ طے کر کے اپنے شہر پہنچا، لیکن راستے میں ہی خاندان کی ایک خاتون کی طبیعت بگڑنے لگی اور وہ گھر آتے آتے اس کی موت ہوگئی۔
مظفر نگر کی گُڑ فیکٹری: سڑک حادثے میں زخمی اپنے نابالغ بیٹے کے علاج کے لیے ایک باپ نے اپنے علاقے میں گُڑ بنانے والے کارخانے کے مالک سے دس ہزار روپے کا قرض لیا۔ یہ سال 2021 کی بات ہے۔ جب 2023 تک قرض ادا نہیں کیا گیا تو فیکٹری مالک نے قرض لینے والے، اس کی بیوی اور پانچ بچوں کو فیکٹری میں رہنے اور کام کرنے کو کہا۔ اس کے بدلے 45 ہزار روپے ماہانہ دینے کا وعدہ بھی کیا۔
میاں بیوی کے علاوہ دونوں بڑے بچوں نے بھی 16 اگست 2023 سے 31 مئی 2024 تک کام کیا۔ جب سیزن ختم ہوا اور وہ اپنے پیسے مانگنے گئے تو مالک نے کہا کہ انہیں کھانا کھلانے میں ہی سب خرچ ہوگئے- اب ان کے پاس صرف 45000 روپے رہ گئے ہیں، جو وہ بعد میں ملیں گے۔ اس کے بعد گھر والوں نے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو ان کے سامان کو یرغمال بنا لیا گیا۔ کچھ مہینوں کے بعد مالک انہیں زبردستی واپس فیکٹری میں لے آیا اور اپریل 2025 تک نہ صرف اپنی جگہ بلکہ دوسرے لوگوں کے یہاں بھی کام کرایا، انہیں بھوکا رکھا، مارا پیٹا اور مقروض کی بیوی کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔ ان سب کے بعد انہیں بغیر کسی تنخواہ کے بھگا دیا گیا۔
مثالیں اور دی جا سکتی ہیں کیونکہ اس شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں کے پاس ایسے معاملوں سے متعلق فائلوں کے انبار ہیں۔ مذکورہ تینوں معاملوں میں اب تک نہ تو متاثرین کا بیان ریکارڈ کیا گیا، نہ ہی انہیں ریلیز سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے، نہ ہی ان کی تنخواہیں ملی ہیں اور نہ ہی ملزمان کے خلاف کوئی تفتیش یا کارروائی کی گئی ہے۔
جبکہ مرکزی حکومت کے وژن دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ‘سزا کے عمل کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ نئے بندھوا مزدور بننے سے روکا جاسکے اور 100 فیصد مجرموں کوسزا ملے۔’
بیانات کا ریکارڈ نہ ہونا اور متاثرین کو بندھوا مزدور کے طور پر شناخت کرنے کے بعد ریلیز سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں ناکامی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے متاثرین کو بازآبادکاری امدادحاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔
مرکزی حکومت کے پاس بندھوا مزدوروں کی باز آبادکاری کے لیے ایک اسکیم ہے، جس کے تحت بچائے گئے بندھوا مزدور کو 30000 روپے کی فوری امداد فراہم کرنے کا انتظام ہے۔ بحالی کی امداد 1 لاکھ روپے، 2 لاکھ روپے اور 3 لاکھ روپے تک ہے جو مزدور کے زمرے اور اس کے استحصال کی شدت کے لحاظ سے دی جاتی، بشرطیکہ بندھوا مزدوری کی تصدیق کی گئی ہو۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ڈی ایم یا ایس ڈی ایم بندھوا مزدور کی شناخت کریں اور ریلیز سرٹیفکیٹ دیں۔ بندھوا مزدوروں کی شناخت، بچاؤ اور بازآبادکاری کے لیے قومی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم،’نیشنل کیمپین کمیٹی فار اریڈیکیشن آف بانڈڈ لیبر’کے کنوینر نرمل گورانا نے دی وائر کو بتایا کہ بندھوا مزدوروں کی شناخت حکومتوں کی ترجیحات میں نہیں ہے، اور ضلع انتظامیہ اکثر ریلیزسرٹیفکیٹ جاری ہی نہیں کرتی ہے۔

نرمل گورانا (تصویر: انکت راج/ دی وائر)
پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023-24 میں 500 بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری بھی نہیں ہوسکی، جبکہ مرکزی حکومت نے 2016 میں 2030 تک 1.84 کروڑ بندھوا مزدوروں کی شناخت، رہائی اور باز آبادکاری کا ہدف مقرر کیا تھا ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ہر سال اوسطاً 13.14 لاکھ بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کرنی ہوگی۔
غور طلب ہے کہ 5 اگست 2024 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں وزارت محنت اور روزگار کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کی تعداد سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔
جدول دیکھیں؛

لوک سبھا میں حکومت کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار
اگست 2024 میں آر ٹی آئی کا حوالہ دیتے ہوئے آؤٹ لک کی رپورٹ کہتی ہے کہ پچھلے تین سالوں میں بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کی شرح میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے، اور اوسطاً ہر سال صرف 900 مزدوروں کی بازآبادکاری ہو رہی ہے۔
مذکورہ چارٹ میں موجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023-24 میں صرف 468 مزدوروں کی ہی بازآبادکاری ہوئی۔
اپنے 2016 کے وژن دستاویز میں مرکزی حکومت نے اگلے سات سالوں میں بندھوا مزدوروں کی تعداد میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا تھا۔ رفتار بتاتی ہے کہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ گزشتہ سال شائع ہونے والی انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس رفتار سے حکومت اس سمت میں کام کر رہی ہے، اس سے 2030 تک ہدف کا صرف دو فیصد ہی حاصل ہو سکے گا۔
کیا مرکزی حکومت ذمہ داری سے فرار حاصل کر سکتی ہے؟
ہدف سے محروم ہونے کے باوجود مرکزی حکومت ذمہ داری سے بھاگ سکتی ہے کیونکہ بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ، 1976 کی دفعہ 13 کے مطابق، ریاستی حکومت کو ہی ہر ضلع اور اس کے سب ڈویژن (جیسا کہ وہ مناسب سمجھے) میں ایک چوکسی کمیٹی تشکیل دینی ہوتی ہے۔ یہ کمیٹی ضلع مجسٹریٹ یا ان کے ذریعہ مجاز افسر افسر کو اس ایکٹ کے مناسب نفاذ میں مشورہ دیتی ہے۔
یہ کمیٹی آزاد کرائے گئے بندھوا مزدوروں کو معاشی اور سماجی بازآبادکاری فراہم کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔
مرکزی حکومت صرف وزارت محنت اور روزگار کے ذریعے بازآبادکاری اسکیم چلاتی ہے، جو ریاستی حکومتوں کو رہائی پانے والے بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری میں مدد کرتی ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ اسکیم مانگ پر مبنی ہے۔ ایسے میں اگر ہدف چھوٹ جاتا ہے تو مرکزی حکومت اس کی ذمہ داری ریاستوں پر ڈال سکتی ہے۔
کون بنتا ہے بندھوا مزدور ؟
گلوبل کمیشن آن ماڈرن سلیوری اینڈ ہیومن ٹریفکنگ کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جرم اکثران لوگوں اور گروہوں کو متاثر کرتا ہے جو پہلے ہی پسماندہ،محروم اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔
سال 2018 میں شائع ہوئے جاوید عالم خان کا تحقیقی مطالعہ بتاتا ہے کہ ‘ہندوستان کی کل لیبر فورس میں سے تقریباً 10 فیصد مزدور بندھوا مزدور کے زمرے میں آتے ہیں۔ اب تک جن بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری ہوئی ہے، ان میں سے 83 فیصد کا تعلق درج فہرست ذات یا درج فہرست قبائل سے ہے۔
اپنے تجربات کو یاد کرتے ہوئے نرمل گورانا کہتے ہیں،’زیادہ تر بندھوا مزدور دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقے کے لوگ ہی بنائے جاتےہیں۔ مجھے آج تک اونچی ذات کا کوئی بندھوا مزدور نہیں ملا۔’
گورانا کا ماننا ہے کہ اس کی بڑی وجہ دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات میں تعلیم کی کمی اور وسائل کی کمی ہے۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ بندھوا مزدوری صرف معاشی استحصال کی علامت نہیں ہے بلکہ اس سماجی نظام کی گواہی ہے جہاں غربت، ذات پات اور عدم مساوات آج بھی استحصال کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہیں۔