ہر بار یہ کہنا کہ باہری لوگوں نے تشدد کیا پولیس کے جواب پر شک پیدا کرتا ہے۔ کیا پولیس کے اس تشدد کو نہیں دکھایا جانا چاہیے؟ ایسے کئی ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں ۔ ہر جگہ سے پولیس کے تشدد سے جڑے سوالوں اور ویڈیو کوصاف کر دیا گیا ہے۔ چینلوں پر صرف لوگوں کے تشدد کے ویڈیو ہیں یا خبروں کی پٹی میں لکھا ہے کہ بھیڑ نے تشدد کیا۔
بہت سارے ویڈیو آئے ہیں جن میں پولیس کی بربریت درج ہوئی ہے۔ وہ ایک طرفہ طریقے سے لوگوں کے گھروں میں گھسکر مار رہی ہے۔کوئی اکیلا پولیس سے گھرا ہوا ہے اور اس پر چاروں طرف سے لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑے ہیں اور ان پر پولیس بےرحمی سے لاٹھیاں برساتی جا رہی ہے۔ جب کوئی پکڑے جانے کی حالت میں ہیں تو اس کو مارنے کا کیا مطلب؟ جب کوئی گھر میں ہے اور وہاں تشدد نہیں کر رہا ہے تو پھر گھر میں مارنے کا کیا مطلب؟ ظاہر ہے پولیس کی دلچسپی عام غریب لوگوں کو مارنے میں زیادہ ہے۔ اس کے پاس کسی کو بھی فسادی بتاکر پیٹنے کا لائسنس ہے۔
کئی سارے ویڈیو میں پولیس بدلہ لیتی دکھ رہی ہے۔ وہ آس پاس کی جائیدادوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہاں کھڑی موٹرسائیکل کو توڑ رہی ہے۔
دکانیں توڑ رہی ہے۔ پتھر چلا رہی ہے۔ وہاں تو چلا ہی رہی ہے جہاں اس پر پتھر چلے ہیں لیکن وہاں بھی چلاتی دکھ رہی ہے جہاں سامنےکوئی نہیں ہے اور پولیس پتھر مارے جا رہی ہے۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ پولیس کا تشدد اور توڑپھوڑ سے کتنے کا نقصان ہوا ہے؟ صرف جامعہ سے خبر آئی ہے کہ ڈھائی کروڑ کی جائیداد کا نقصان ہوا ہے۔ یونیورسٹی کے اندر تو امن تھا، لائبریری میں تو تشدد نہیں ہو رہا تھا؟ کیایوگی آدتیہ ناتھ یا امت شاہ ایسے معاملوں میں بھی پولیس کی جائیداد نیلام کر لوگوں کو حرجانہ دیںگے؟
یوپی میں سات لوگ گولی سے مرے ہیں۔ پولیس آرام سے کہہ دیتی ہے کہ اس نے گولی نہیں چلائی تو پھر وہاں پر موجود وہ کیا کر رہی تھی؟ اس کے پاس بھی تو کیمرے ہوتے ہیں وہی بتا دیں کہ گولی کہاں سے اور کیسے چل رہی تھی؟ جامعہ ملیہ کے تشدد میں تین گولیاں چلی ہیں۔ پہلےپولیس نے یہ بات نہیں بتائی جب این ڈی ٹی وی نے اس خبر کو دکھایا تب کئی طرح کی تھیوری دی گئی۔ جب پولیس گھرنے لگی تو کہا گیا کہ لوگوں نے چلائیں اور ان کے پاس دیسی کٹے تھے۔ سوچیے ایسا ہوتا تو پولیس پہلے ہی دن نہیں بتاتی؟ اپنے تشدد کی حمایت میں اس کے پاس اسسے طاقتور ثبوت کیا ہو سکتا تھا؟ پھر جب ویڈیو آیا جس میں پولیس ہی گولی چلاتی دکھ رہی ہے کہ پولیس اور میڈیا نے خاموشی اوڑھ لی۔ ظاہر ہے میڈیاپولیس کے تشدد کو لےکر زیادہ متحمل ہے۔ اس کی دلچسپی جمہوریت میں ہوتی تو ان سوالوں کو اہم بناتی۔
ہر بار یہ کہنا کہ باہری لوگوں نے تشدد کیا پولیس کے جواب پر شک پیدا کرتا ہے۔ کیا پولیس کے اس تشدد کو نہیں دکھایا جانا چاہیے؟ ایسے کئی ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں مگر میڈیا کو دکھانے کے ڈر سے وائرل ہو جا رہا ہے۔ ہر جگہ سے پولیس کے تشدد سے جڑے سوالوں اور ویڈیو کوصاف کر دیا گیا ہے۔ چینلوں پر صرف لوگوں کے تشدد کے ویڈیو ہیں یا خبروں کی پٹی میں صحیح لکھا ہے کہ بھیڑ نے تشدد کیا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ لوگ تشدد نہیں کرتے ہیں۔ وہ تشدد کی حالت پیدا نہیں کرتے ہیں۔ بالکل کرتے ہیں۔ اس معاملے میں لوگ بھی دودھ کےدھلے نہیں ہے لیکن تشدد کے ہر معاملے میں یا زیادہ تر معاملے میں پولیس کے تشدد کم دکھائے جاتے ہیں۔
جو بھی ہے کچھ مظاہرہ میں کچھ لوگوں کو بےلگام ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے بیچ سے پتھر چلائے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے اشتعال انگیزی سے ماحول میں کشیدگی پیدا کررہے ہیں۔ وہ اپنی گلی میں پتھر چلاکر دوسرے شہروں کے مظاہروں کو کمزور کرتے ہیں۔ لوگوں کے اشتعال سےپولیس کو کچھ خوفناک ہونے کے خدشہ میں محتاط اور زیادہ سرگرم ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ایک ویڈیو احمد آباد کا آیا ہے۔ لوگوں نے پولیس کو ہی دبوچ لیا ہے۔ پولیس پر تشدد کر رہے ہیں۔ مگر اسی بھیڑ سے
سات نوجوان نکلکر آتے ہیں اور پولیس کو بچاتے بھی ہیں۔ اس ویڈیو کی خوب چرچہ ہوئی۔ وائرل دنیا اور میڈیا دونوں میں لیکن جس ویڈیو میں کئی سارے پولیس والے ایک آدمی پر تابڑ توڑ لاٹھیاں برسا رہے ہیں اس کا ذکرنہیں۔
دریاگنج سے دو ویڈیو گھوم رہے ہیں۔ اس میں پولیس کے لوگ چھت پر اینٹیں توڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک ویڈیو رات کا ہے جس میں گلی میں کسی کو گھیرکر مار رہے ہیں۔ وہ چیخ رہا ہے پھر بھی مارے جا رہے ہیں۔ گر وہ تشدد کا ملزم تھا تو آرام سے پولیس بنا مارے پکڑکر لےجا سکتی تھی۔ منگلور سے ایسے کچھ ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں جس میں پولیس کی بربریت صاف دکھ رہی ہے۔ جب سامنے سے حملہ ہو تو پولیس کی کارروائی سمجھ آتی ہے لیکن جب کوئی جوابی حملہ نہ ہو تب گلیوں اور دکانوں میں گھسکر قہر برپانے کا تک صرف اور صرف لوگوں کواوقات میں رکھنا ہے۔
دریاگنج کا ایک اور ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں پولیس والے ڈنڈے سے کار کے شیشے توڑ رہے ہیں۔ وہاں لوگ نہیں ہیں۔ لوگوں کی کارکھڑی ہے اور پولیس توڑتی جا رہی ہے۔ کیا وہ کسی اور کے محلے میں ایسا کرتی؟ یہی دہلی پولیس ہے جو چپ چاپ تیس ہزاری کورٹ سے چلی آئی۔ وکیلوں نے تو مبینہ طور پر لاک اپ میں آگ لگا دی تھی۔ پولیس والوں کو مارا تھا تب کیا آپ نے دیکھا تھا کہ دہلی پولیس ان کے گھروں اورکمروں سے کھوجکر لا رہی ہے؟ ان کی گاڑیاں توڑ رہی ہے؟ تو کیا ہم دہلی پولیس کا فرقہ وارانہ چہرہ دیکھ رہے ہیں؟
جو بھی ہے پولیس کو تشدد کی چھوٹ ہے۔ اپنی دفاع کے نام پر اس کے تشدد کو صحیح مان لیا جاتا ہے۔ ویڈیو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پولیس مارنےکی تیاری میں ہی آئی ہے۔ کئی ویڈیو میں پولیس گالیاں دیتی دکھ رہی ہے۔ لوگوں کو فرقہ وارانہ باتیں کہہ رہی ہیں۔ جامعہ میں لڑکیوں کو جناح کاپلا کہا گیا۔ بی جے پی کے ایک رہنما کہتے ہیں کہ دوا ڈالنے پر
کیڑےمکوڑے بلبلاکر باہر آ رہے ہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جن لوگوں کا اقتدارپر قبضہ ان کی زبان ایسی ہے۔ تو پولیس کو ایسی زبان بولنے کی چھوٹ ملےگی ہی۔
تو کیا مظاہرہ کو تشدد کے حوالے کرنا ٹھیک ہوگا؟ میری رائے میں اس سے زیادہ سنک بھرا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سے پیچھے ہٹنا ہی ہوگا۔ لوگوں کو بھی سیکھنا ہوگا کہ جب مظاہرہ میں جائیں تو ان کا رویہ کیسا ہو۔ زبان کیسی ہو۔ ورنہ پولیس تیار بیٹھی ہے۔
اچھی بات ہے کہ کئی جگہوں پر پولیس نے شاندار کام کیا۔ لوگوں کو مظاہرہ کرنے دیا اور لوگوں نے بھی طریقے سے مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہےکہ زیادہ تر مظاہرے پر امن رہے ہیں۔ اس کے لئے عوام اور پولیس دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں۔
شہریت قانون کو لے کر احتجاج اور مظاہرہ رہنما کے بغیر ہے اس لئے تشدد سے بچانا لوگوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ جان و مال کا نقصان ٹھیک نہیں ہے۔ تشدد ہونے پر کسی کو کوئی انصاف نہیں ہوتا ہے۔ صرف بحث ہوتی ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے قانون بن چکا ہے۔ این آر سی آئےگا ہی۔
تو یہ معاملہ ایک دن کا نہیں ہے۔ جو لوگ اس کی مخالفت میں ہیں ان کے صبر اور حوصلہ کا امتحان ہے۔ ایک دن کے لئے دوڑ لگاکر آ جانا آسان ہوتا ہے۔ حکومت بھی انتظار میں ہے کہ دو چار دنوں میں تھک جائیںگے یا پھر اتنے لوگ پولیس کی گولی سے مار دئے جائیںگے کہ مظاہرہ کامقصد ہی ختم ہو جائےگا۔ تشدد مت ہونے دیجیے۔ نہ کیجیےاور نہ کرنے دیجیے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)