مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور دہلی کی افطار پارٹیوں کے قصے

جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟

جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ ہندوستان  میں اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے؟

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

ابھی حال ہی میں ہندوستان کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہری دوار کےایک کالج میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقدافطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالبعلموں کوافطار کے وقت کھانا لانےاوراس کودیگر طلبہ کے ساتھ ساجھا کرنے پر پابندی عائد کر دی۔اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کےاحاطہ میں نمازادا کرنے پرایک طالبعلم کے خلاف پولیس نےایف آئی آر دائر کی۔

ایک وقت تھا خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں کہ رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سےافطار پارٹیاں منعقد کرنااوراس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھانا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیراعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کیا ٓواز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نمازادا کرتے تھے۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کےلیے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

جیسے جیسے مسلمانوں کو 2014 کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔

موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پرافطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔اس کے لیڈران سابق وزیرسید شاہنواز حسین اور وجئے گوئل کی افطار پارٹیاں دہلی کےاشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجئے گوئل تو پرانی دہلی میں سحری کاانتظام کرتے تھے۔ رات بھرایک سماں ہوتا تھا۔

کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جواس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈران دہلی وارد ہوکراس میں شرکت کرتے تھے۔ بعد میں کئی بار پارٹی کواس کو دفتر کے بجائےاشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا گیا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کوافطار کرواتی تھی اور پر میز پر چند لمحے توقف کرکےسبھی کا حال چال پوچھتی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نےاپنے دفتراشوکا روڑ میں 1998میں ایک افطار پارٹی کاانعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی،اس لیے  وزیراعظم بننے کے بعداٹل بہاری واجپائی پارٹی، دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سالاس کا نظم کرتے تھے۔ 2014 سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیےافطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔اس مقدس ماہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔

وزیراعظم ہاؤس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کےاعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی تھی اور خاصی آف ریکارڈانفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نےافطار پارٹی میں شمولیت کی اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔

صاحب اختیار واستطاعت افراداس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تراپنےآپ کو سیکولر جتانےاوراس کی نمائش کے لیےافطار پارٹیوں کااہتمام کراکےاپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے۔

سال 1998 میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقدافطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کااستقبال کر رہے تھے۔ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کےاندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے،افطار کے وقت کا کسی کواحساس نہیں تھا۔

سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے، ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کوافطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سےالجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انہوں نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔

 خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔اب مغرب کی نمازادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح انہوں نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے  لان کو صاف کروایا۔

اب جس وقت روزہ دار نمازادا کررہے تھے کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ  بانٹنے شروع کردیے۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کاانتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنوازاور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔

دارالحکومت دہلی میں 2014میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدارانے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نےاپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ،اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ ہستہ افطار پارٹیوں کےانعقاد سے ہاتھ کھنچ لیے۔

 افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کاایک آؤٹ ریچ کا ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنااور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام  کا کام ضرورکرتا تھا۔

کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا،اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیےبھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے۔ لوگ عام طور پراپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔

افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نمازادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ  کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند  پڑ جاتے تھے۔

اپنے دور طالب علمی میں ہی  90 کےاوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیراور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پرافطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔

دوران طالب علمی ان کی ایک قریبی رشتہ دارنے دعوت نامہ دےکرآنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میں دیکھتےآرہے تھے وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔

وزیراعظم سمیت سبھی مرکزی وزراء، بالی ووڈ کے ناموراداکار وغیرہ موجود تھے۔اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی حال تک ہندوستان کے وزیر داخلہ رہ چکے تھے۔اس لیےان کا ساتھ خاصا تام جھام تھا۔

کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری  خواہشات کو کچلنے کے لیےاستعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتاآرہا تھا، جس نے 1977میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایااور بعد میں 1984میں دہلی کی ایما پر فاروق عبداللہ کو معزول کروایااور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا  سبب بھی رہا۔

میری میزبان نے میراان سے تعارف کرایا  توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے۔انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے قبل یواین آئی کے شیخ منظوراحمداور سنڈےآبزرور کےایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دوایسے کشمیری  مسلمان ہیں، جنہوں نے دہلی میں صحافت میں کریئر بنایا۔

انہوں نے کسی کو شیخ منظور، جوان دنوں یواین آئی نیوزایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انہوں نے مجھےان سے متعارف کرواکران کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔

گو کہ مودی نے آتے ہی وزیراعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا  تھا۔ 2017 تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نےاس سلسلہ کو جاری رکھا۔

تمام ممالک کے سفیر ،اپوزیشن لیڈران و دیگرافراداس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگرایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے، جو صدر کی ہال میں آمد پران کااستقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں  دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو ریکارڈ پر نہ آجائے۔

راشٹرپتی بھون میں جب ایک بارافطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کے لیےامام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کےاحاطہ میں ایک مسجد موجود ہے۔اسی مسجد کے  یا پارلیامنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کےامام صاحبان اس موقع پرامامت کرتے تھے۔

 مگر دونوں اس دن غائب تھے۔ معلوم ہوا کہ نئی دہلی کی جامع مسجد کےامام محب اللہ ندوی جواب خیر سے رام پور سے لوک سبھا کے منتخب ممبر ہیں، دیرسےآنے کی وجہ سے باہر سیکورٹی کےاہلکاروں سےالجھے ہوئے تھے۔

اس دوران تمام مسلم ممالک کے سفراء،اراکین پارلیامان و دیگر زعماء صفوں میں کھڑےامام کو تلاش کر رہے تھے۔ راجیہ سبھا میں لیڈرآف اپوزیشن غلام نبی آزاد ادھرادھر دیکھ رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبدالباسط نےآگے بڑھ کرامامت کا منصب سنبھال کر نمازادا کروائی۔

اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم ممالک کے سفیر اور ہندوستانی مسلم زعماء،اشرافیہ اور مسلماراکین پارلیامان ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نمارادا کررہے تھے۔

اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے علاوہ کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا  ہے،افطار کا وقت ہورہا ہے،اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔

صدروسیع و عریض اشوکاہال میں آکر سبھی مہمانوں سےایک ایک کرکے مل رہے تھے، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنےآئے ہیں، دیگرافراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے۔ان میں سےایک نےآکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔

وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ  ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے،افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائےگا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اورامیج کے برعکس وہ آجکل مومن کیسے ہوگئے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں اکبر جہاں کااعجاز ہے کہ وہ ان کواور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھی۔ اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثران کو چھڑی سے پیٹتے تھے، پر والدہ ہی ان کو چھڑاتی تھی۔

بیگم اکبر جہاں،ایک نومسلم انگریز جان نیڈواورایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی۔ مگر سخت  مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔

من موہن سنگھ کی وزات اعظمیٰ کے دور میں وزیراعظم ہاوس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیراعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا، وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟

پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یااسٹاٹاپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انہی دنوں میرٹھ کسی اسٹوری کے سلسلے میں گیا تھااور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے1989 کے فسادات کے مثاثرین سےملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثرین میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان کی میڈیکل لائسنس کینسل کر دی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سےاپنےایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے۔

میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ توانہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی، توانہوں نے فوراً منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو ہندوستان  کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔

وزیراعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کےاس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے۔

من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نےان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائےان سے  باضابطہ اپائنٹمنٹ لےکر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کےافسران ظفر محموداورابو صالح شریف کواپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کاایجنڈہ کیا ہے وہ کابینہ سکریٹری یا کم سے کم فائنانس سکریٹری کو بھی بلائیں گےاور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انہوں نے وزیراعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا،اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔ وزیراعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائےان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنؤ سےآئےایک صاحب نےاعتراض کیا کہ حال ہی میں ہندوستان نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟

اس معامعلہ کو لے کر انہوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھااس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سےایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے۔

دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگیاور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔  جس کےلیے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے۔ اس  واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقیناً حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلےاور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ 70 کی دہائی کےاواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کے لیےافطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کیا تھا،  جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

سابق وزرائےاعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہافطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیراعظم مودی اوران کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کوایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے،افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے۔

حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک واحتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کااہتمام نہ کیا جائے۔

اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈرافطار کااہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینرآویزاں  نہیں ہونا چاہیے۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظرآئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ  پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیےافطاری کا بندوبست کرتی ہیں۔اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی ۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نےاسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سےآگاہ کیا  یا بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے۔

خیر ہندوستان  میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہےاور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یاان کی تقریبات میں شرکت کریں گیں ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگراب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظرآتی ہیں،  توانہیں ہندواکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیےاتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جوآبادی ہے اس کا دسواں حصہ ہندوستان میں ہے، مگراس کے باوجود  وہ سیاسی یتیم بنادیے گئے ہی۔

اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کااستعمال کرکےان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔