دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹرسیا موکھم اور ناشر شوبھا چودھری پر دو-دو لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا گیا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر جرمانے کی رقم ادا نہیں کرنے پر چھے مہینے کی جیل کا اہتمام ہے۔
نئی دہلی: میگھالیہ ہائی کورٹ نے جمعہ کو دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹرسیا موکھم اور ناشر شوبھا چودھری کو عدالت کی ہتک عزت کا مجرم قرار دیتے ہوئے دونوں پر دو-دو لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ دو ہفتے کے اندر جرمانہ ادا نہیں کرنے پر چھے مہینے کی قید اور اخبار پر پابندی لگائی جائےگی۔ چیف جسٹس محمد یعقوب میر کی صدارت والی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ دی شیلانگ ٹائمس میں سبکدوش ججوں اور ان کے فیملی والوں کو بہتر سہولیات اور بھتہ دئے جانے کی تنقید کو لےکر ایک مضمون شائع ہوا تھا۔
بنچ نے کہا، ‘ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 215 کے تحت مجوزہ اختیارات کی بنیاد پر ہم ہتک عزت کرنے والے دونوں شخص کو کورٹ کی کارروائی ختم ہونے تک ایک کونے میں بیٹھے رہنے اور دو-دو لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کا فیصلہ سناتے ہیں۔ جرمانے کی رقم کو ایک ہفتے کے اندر رجسٹری کے پاس جمع کرانا ہوگا اور اس رقم کو بعد میں ہائی کورٹ کے ویلفیئر فنڈ میں جمع کرا دیا جائےگا۔ ‘
عدالت نے کہا، ‘ ہم یہ بھی ہدایت دیتے ہیں کہ جرمانہ کی رقم ادا نہیں کرنے پر دونوں لوگوں کو چھے مہینے کی سزا کا سامنا کرنا پڑےگا اور اخبار (شیلانگ ٹائمس) پر پابندی لگےگی۔ ‘ وکیل سجیت ڈے، این سنگ کون، کشور چودھری گوتم اور سی ایچ ماولونگ کو سماعت کے دوران عدالت کی مدد کے لئے Amicus curiae مقرر کیا گیا تھا۔
غور طلب ہے کہ 10 دسمبر 2018 کو اخبار میں ‘ When judges judge for themselves’ نام سے شائع مضمون میں موکھم نے سبکدوش ججوں کے لئے بہتر سہولیات اور بھتہ کو لےکر جسٹس ایس آر سین کے حکم اور ہائی کورٹ کے دو سابق ججوں کے 2016 کے فیصلوں کے درمیان یکسانیت پر خیالات پیش کیا تھا۔ اس حکم میں دو ججوں نے خاص زمرہ کی حفاظت کی مانگ کی تھی، جس کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔
اس کے بعد عدالت نے موکھم اور چودھری کے خلاف نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کو عدالت کے سامنے پیش ہوکر یہ بتانے کو کہا کہ آخر کیوں اس مضمون کی اشاعت کے لئے اخبار کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی شروع نہیں کی جانی چاہیے۔ جسٹس سین نے وجہ بتاؤ نوٹس میں کہا تھا کہ میڈیا یہ نہیں بتائے کہ عدالت کو کیا کرنا چاہیے۔
جسٹس سین نے کہا تھا، ‘ یہ چونکانے والا ہے کہ مبینہ اخبار کے مدیر اور ناشر نے قانون اور معاملے کا پس منظر جانے بغیر تبصرہ کیا، جو اس معاملے کو دیکھ رہے جج اور پوری جج برادری کے لیے یقینی طور پر بے عزتی ہے۔’