فیکٹ چیک: دہلی پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر شمبھو دیال 4 جنوری کو ایک خاتون کا فون چھین کر بھاگ رہے ملزم کو پکڑنے گئے تھے،اس دوران ملزم نے ان پر چاقو سے حملہ کر دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ان کی موت ہوگئی ۔ اس کے بعد سدرشن نیوز جیسےبعض میڈیا ہاؤس نے ملزم کو مسلمان بتا تے ہوئے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔
اے ایس آئی شمبھو دیال۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/دہلی پولیس)
نئی دہلی: 4 جنوری کو دہلی پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) شمبھو دیال پر اس وقت چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ فون چھین کر بھاگ رہے ملزم کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں شدید چوٹیں آئیں اور ان کو دہلی کے بی ایل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
آٹھ جنوری کو 57 سالہ اے ایس آئی کی موت ہوگئی ۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس نے ٹوئٹ کیا تھا، ‘ گزشتہ 4 جنوری کو مایا پوری پولیس اسٹیشن میں تعینات اے ایس آئی شمبھو دیال ایک اسنیچر کو پکڑنے کے دوران چاقو سے حملہ کیے جانے کے باعث شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے۔ بی ایل کے ہسپتال میں علاج کے دوران آج وہ شہید ہو گئے۔ ہمیں اپنے اس بہادر افسر کی ہمت اور فرض شناسی پر فخر ہے۔ اُن کو پر خلوص خراج عقیدت۔
اس کے بعد اس کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے کچھ نیوز چینلوں نے ان کے قتل کے ملزم کو مسلمان بتاتے ہوئے خبریں نشر کی تھیں، حالانکہ فیکٹ چیک ویب سائٹ
آلٹ نیوز نے اپنی ایک تفتیش میں بتایا ہے کہ ملزم مسلمان نہیں تھا۔
بی جے پی کے حامی پروپیگنڈہ نیوز چینل ‘سدرشن نیوز’ نے 8 جنوری کو اپنی نشریات کا ایک کلپ ٹوئٹ کیا۔ اس میں خبر پڑھنے والی اینکر نے ملزم کو کئی بار ‘جہادی محمد انیش’ کے طور پر پیش کیا تھا۔
اس کے بعد پربھا اپادھیائے نامی خاتون نے سدرشن نیوز کا یہ بلیٹن
شیئر کیا، جس میں اینکر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘جہادی محمد انیش نے اے ایس آئی شمبھو دیال کوہلاک کر دیا’۔
ان کے ٹوئٹر بایو کے مطابق، وہ مہیلا مورچہ جئے بھارت منچ (اتر پردیش) نامی تنظیم کی ریاستی صدر ہیں۔
‘ٹائمز ناؤ نوبھارت’ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ محمد انیس نامی ملزم نے اے ایس آئی شمبھو دیال کو چاقو مارا تھا۔
این ڈی ٹی وی نے 10 جنوری کو اپنی رپورٹ میں مشتبہ ملزم کا نام محمد انیش بتایا تھا۔ ٹوئٹ کا کیپشن ہے، ہیش ٹیگ دلی: اے ایس آئی شمبھوناتھ پر حملے کا سی سی ٹی وی فوٹیج آیا سامنے، علاج کے دوران توڑا دم’۔ کیپشن میں آنجہانی افسر کو ‘شمبھو دیال’ کی جگہ’شمبھو ناتھ’ کہا گیاتھا۔
نیوز چینل ‘آج تک’ کی نشریات کو عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ نے ٹوئٹ کیا تھا۔ اس نشریات میں میزبان سعید انصاری نے مشتبہ شخص کو ‘محمد انیس’ کہا تھا۔
یہی نہیں، کئی دیگر معروف لوگوں اور صحافیوں نے اس واقعے کے بارے میں ٹوئٹ کیا اور ملزم کا نام ‘محمد انیش’ یا ‘جہادی انیش’ بتایا تھا۔
اس طرح کا دعویٰ کرنے والوں کی فہرست میں وشو ہندو پریشد کے قومی ترجمان
ونود بنسل، سدرشن نیوز کے
ساگر کمار، نیوز ایجنسی اے این آئی کےسینئر صحافی
روی جلہوترا، سدرشن نیوز سے وابستہ صحافی
مہیش کمار سریواستو، سدرشن نیوز کے
آشیش ویاس، بی جے پی دہلی کے ترجمان
کھیم چند شرما شامل ہیں۔
روی بھدوریانے بھی اس واقعہ کے بارے میں ٹوئٹ کیا، جن کو وزیر اعظم نریندر مودی فالو کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ٹوئٹ میں ملزم کا نام ‘انیس’ بتایا تھا۔
سدرشن نیوز نے اس واقعے کے بارے میں
ایک خبر بھی شائع کی، جس میں انہوں نے ملزم کو ‘جہادی’ قرار دیا۔
نیوز ٹریک نے بھی ملزم کا نام محمد انیس بتایا تھا۔
فیکٹ چیک
آلٹ نیوز کے مطابق، اس نے گوگل پر کلیدی الفاظ (کی ورڈس)سرچ کیاتو
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ ملی۔ 9 جنوری کی اس رپورٹ کے مطابق ایک خاتون نے مدد کے لیے افسر شمبھو دیال سے رابطہ کیا تھا۔ خاتون کا فون مبینہ طور پر ایک شخص نے چھین لیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے اے ایس آئی شمبھو دیال شکایت کنندہ خاتون کو مبینہ کرائم سین پر لے گئے، جہاں خاتون نے ملزم کی شناخت کی۔ شمبھو دیال جب ملزم کو تھانے لے جا رہے تھے تو ملزم نے ان پر چاقو سے حملہ کر دیا۔
اس رپورٹ میں ملزم کی شناخت مایا پوری کے رہنے والے انیش راج (24 سال) کے طور پر کی گئی ہے۔
انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ سے اقتباس۔
آلٹ نیوز کو واقعہ کے دن یعنی 4 جنوری کو دہلی پولیس کی طرف سے وہاٹس ایپ کے ذریعے جاری کردہ ایک پریس نوٹ ملا۔ پریس نوٹ کے مطابق، ملزم کا نام انیش اور اس کے والد کا نام پرہلاد راج ہے۔
آلٹ نیوز کو اس واقعے کے حوالے سے دہلی پولیس کی طرف سے ملا پریس نوٹ۔
اس کے ساتھ ہی آلٹ نیوز نے مایا پوری ویسٹ کے ایس ایچ او سے بھی بات کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ملزم کا تعلق ہندو برادری سے ہے اور اس واقعہ کا کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں تھا۔
مجموعی طور پر کئی میڈیا ہاؤس نے دہلی کے مایاپوری میں اے ایس آئی شمبھو دیال کو چاقو مارے جانے کے واقعے کو غلط طریقے سے رپورٹ کیا اور ملزم کا نام غلط بتایا۔ سدرشن نیوز اور اس کے صحافیوں نے ملزم کو ‘جہادی’ کہہ کر واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔
پچھلے سال دہلی کے نارائنا میں چاقو مارنے کے اسی طرح کے واقعے کو سوشل میڈیا صارفین اور سیاست دانوں نے
فرقہ وارانہ رنگ دیا تھا۔
یہ رپورٹ آلٹ نیوز میں شائع ہوئی تھی۔