جموں و کشمیر: 2014 سے 2018 کے بیچ ہلاک ہونے والے جوانوں کی تعداد میں  94 فیصد کا اضافہ

لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے دیے اعداد و شمار کے مطابق؛ گزشتہ 4 سالوں سے زیادہ وقت میں جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں کے معاملات میں 177 فیصدی سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ریاست میں دہشت گردی کے 222 واقعات ہوئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 614 رہی۔ The post جموں و کشمیر: 2014 سے 2018 کے بیچ ہلاک ہونے والے جوانوں کی تعداد میں  94 فیصد کا اضافہ appeared first on The Wire - Urdu.

لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے دیے اعداد و شمار کے مطابق؛ گزشتہ 4 سالوں سے زیادہ وقت میں جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں کے معاملات میں 177 فیصدی سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں  ریاست میں دہشت گردی کے 222 واقعات ہوئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 614 رہی۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے پلواما  ضلع میں  جمعرات کو ہوئے دہشت گردانہ حملہ ریاست میں سکیورٹی فورسز پر سب سے خطرناک حملہ رہا۔ چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ کے بعد یہ سی آر پی ایف پر دوسرا سب سے خطرناک حملہ ہے۔ 2010 میں دنتے واڑہ میں ہوئے حملے میں 75 جوان مارے گئے تھے۔ وزارت داخلہ میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگا رام اہیر کے ذریعے 5 فروری کو لوک سبھا میں دیے گئے جواب کے مطابق؛ جموں و کشمیر میں گزشتہ 5 سالوں (2014 سے 2018)کے دوران ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں مارے گئے جوانوں کی تعداد میں 94 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔

2014 سے 2018 کے بیچ کل 1708 دہشت گردانہ حملے ہوئے،جن میں 339 جوان شہید ہوئے۔ اہیر کے ذریعے دیے گئے جواب کے مطابق؛ 2014 میں 47 جوان مارے گئے جبکہ 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر 91 ہو گیا۔ اس طرح اگر سال 2014 سے موازنہ کریں تو جموں و کشمیر میں مارے گئے جوانوں کی تعداد میں تقریباً 94 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔

بہ شکریہ، لوک سبھا

بہ شکریہ، لوک سبھا

وہیں ، گزشتہ 4 سالوں کی مدت میں جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں میں 177فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ریاست میں دہشت گردی کے 222 واقعات ہوئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 614 رہی۔جوانوں کے علاوہ 2014  سے 2018 کے بیچ دہشت گردی کے واقعات میں 138 شہریوں کی موت ہوئی ہے ۔ 2014 میں اس طرح کے واقعات میں 28 شہری مارے گئے تھے وہیں سال 2018 میں 38 شہریوں  کی جانیں گئیں ۔


یہ بھی پڑھیں: 2018 کشمیر کے لئے اس دہائی کا سب سے خونی سال کیوں ثابت ہوا ؟


گزشتہ 5 سالوں میں 838 دہشت گردوں کو مار گرایا گیا ۔ 2014 میں 110 دہشت گردوں کو جوانوں نے مار گرایا تھا جبکہ 2018 میں یہ تعداد 257 رہی ۔ اسی طرح اس مدت میں دہشت گردوں کو مار گرائے جانے کے معاملے میں 134فیصدی کا اضافہ ہوا۔وزارت داخلہ کے ذریعے دیے گئے جواب کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات 2018 میں ہوئے ۔ 2017 کے مقابلے 2018 میں دہشت گردی کے معاملے میں 80 فیصدی کا اضافہ ہوا۔

انڈیا اسپینڈ کی 19 جون 2018 کی رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں 2017 تک 28 سالوں میں دہشت گردی کے 70000 سے زیادہ واقعات ہوئے ۔ اس دوران 22143 دہشت گردوں کو مار گرایا گیا ، 13976 شہریوں کو جانیں گنوانی پڑیں اور 5123 جوان ہلاک ہوئے۔

The post جموں و کشمیر: 2014 سے 2018 کے بیچ ہلاک ہونے والے جوانوں کی تعداد میں  94 فیصد کا اضافہ appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

بنگلہ دیش: محمد یونس کی عبوری حکومت بحران سے دوچار، فوج کا بڑھتا دباؤ

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی اہم وجہ ان کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی ناراضگی اور فوج کا دباؤ ہے۔

محمد یونس۔تصویر بہ شکریہ: ورلڈ اكنامك فورم/فلكر۔

نئی دہلی: بنگلہ دیش ان دنوں ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ملک کی عبوری حکومت بحران سے دوچار ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ساتھ ہی  بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے محمد یونس پر دہشت گردوں کی مدد سے بنگلہ دیش میں اقتدار پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

حسینہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا  ، ‘جب امریکہ سینٹ مارٹن جزیرہ چاہتا تھا، تو میرے والد راضی نہیں ہوئے تھے۔ انہیں اپنی جان قربان کرنی پڑی۔ اور یہی میرا مقدر تھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اقتدار میں میں بنے رہنے کے لیے ملک کو بیچ دیا جائے اور ملک کے عوام نے جنہوں نے بابائے قوم بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی اپیل پر لبیک کہا، ہتھیار اٹھا کر لڑے اور 30 ​​لاکھ لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اس ملک کی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینا کسی کی منشا نہیں ہو سکتی، لیکن آج یونس بنگلہ دیش کو امریکہ کو بیچ رہے ہیں۔’

حسینہ نے مزید الزام لگایا کہ یونس دہشت گردوں کی مدد سے حکومت چلا رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا، ‘انہوں نے دہشت گردوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے… یہاں تک کہ ان دہشت گردوں کی مددسےجن پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر پابندی عائد ہے، جن سے ہم نے بنگلہ دیش کے لوگوں کی حفاظت کی ہے۔ ہم نے صرف ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد سخت کارروائی کی۔ کئی لوگ گرفتار کیے گئے۔ اب جیلیں خالی ہیں۔ انہوں نے سب کو رہا کر دیا۔ اب بنگلہ دیش میں ان دہشت گردوں کی حکومت ہے۔’

منتخب حکومت ہی ملک میں سیاسی استحکام لا سکتی ہے، آرمی چیف

دریں اثنا،آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام صرف ایک منتخب حکومت ہی لا سکتی ہے۔ انہوں نے اس سال دسمبر تک عام انتخابات کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی منتخب حکومت ہی ایسے فیصلے کر سکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور اس نے عبوری حکومت سے حمایت واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے بتایا کہ بنگلہ دیش میں شدید سیاسی بحران کے درمیان عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے سنیچر (24 مئی) کو ایڈوائزری کونسل کا اچانک اجلاس بلایا تھا۔ یہ ملاقات پہلے سے طے نہیں تھی۔

میٹنگ میں انہوں نےاس بات پرناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت دیگر جماعتوں کے عدم تعاون اور رکاوٹوں کی وجہ سے کام نہیں کر  پا رہی ہے۔

غورطلب  ہے کہ عوامی لیگ کو گزشتہ سال جولائی میں ایک زبردست تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد محمد یونس کی قیادت میں قائم ہونے والی اس عبوری حکومت کو اس تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور فوج کے ساتھ ساتھ تمام قومی اداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

اگست 2024 میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے بعد فوج نے بنگلہ دیش میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔ آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تھااور اس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی۔ لیکن اب خبریں آرہی ہیں کہ یونس اور آرمی چیف کی آپس میں نہیں بن رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں امن و امان کا مسئلہ، ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ

شیخ حسینہ کی حکومت کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے یونس حکومت سے ان کی اپنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ناراض نظر آئی۔ معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا، جب یونس نے آرمی چیف جنرل وقار کی غیر موجودگی میں خلیل الرحمان کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، یونس اور آرمی چیف جنرل وقار کے درمیان رخائن کاریڈور کے حوالے سے بھی تنازعہ ہے۔ محمد یونس پڑوسی ملک میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک راہداری بنانا چاہتے ہیں، جس کے ذریعے وہاں خوراک اور ادویات پہنچائی جا سکیں۔ لیکن آرمی چیف نے سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسے مسترد کرتے ہوئے اسے ‘بلڈ کاریڈور’ قرار دیا ہے۔

آرمی چیف کے مطابق، یہ راہداری بنگلہ دیش کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ روہنگیا پناہ گزین اس راہداری کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ رخائن میں سرگرم اراکان آرمی کو اسلحہ اور رسد کی فراہمی کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس سے اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوگا۔

غورطلب ہے کہ بنگلہ دیشی سیاست میں فوج نے ایک پیچیدہ کردار ادا کیا ہے۔ فوج نے ایک طویل عرصے تک اس ملک پر حکومت کی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے دور میں فوج سیاست سے دور رہی، لیکن آرمی چیف نے انہیں اقتدار سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔

Next Article

دہلی فسادات معاملہ: عدالت نے کہا – قتل کے معاملوں میں وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں

دہلی کی عدالت نے 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے پانچ قتل کے مقدمات کے سلسلے میں یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہاٹس ایپ چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایلن ایلن/فلکر سی سی BY 2.0)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ وہاٹس ایپ چیٹ ٹھوس ثبوت نہیں ہوسکتا اور کہا کہ اس طرح کے چیٹ کو ‘معاون ثبوت’ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ 2020 کے شمال -مشرقی دہلی فسادات کے دوران درج کیے گئے قتل کے پانچ مقدمات کے سلسلے میں دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پانچوں معاملات میں 12 ملزمان ایک جیسے تھے اور استغاثہ نے ثبوت کے طور پر وہاٹس ایپ چیٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا تھا۔

یہ پانچ معاملے ان نو معاملوں میں ہیں جو 9 لوگوں کے قتل کے لیے درج کیے گئے تھے، جن کی لاشیں فسادات کے ایک ہفتے بعد برآمد ہوئی تھیں۔ اب تک باقی چار میں سے ایک کیس میں بری  کر دیا گیا جبکہ باقی تین میں ٹرائل جاری ہے۔

تمام پانچوں معاملات میں دہلی پولیس نے بنیادی طور پر ’کٹر ہندو ایکتا‘ نامی وہاٹس ایپ گروپ کی چیٹ پر انحصار کیا تھا۔ کئی چارج شیٹ میں اس گروپ کا نام  شامل ہے۔

چارج شیٹ کے مطابق، ملزمین میں سےایک  لوکیش سولنکی نے مبینہ طور پر وہاٹس ایپ گروپ پر لکھا تھا: ’تمہارے بھائی نے رات 9 بجے 2 مسلمانوں  کو قتل کر دیا ہے۔ ‘

سولنکی سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں دیگر افراد کی گرفتاری عمل میں آئی، جن پر بالآخر نو قتل کا الزام عائد کیا گیا۔

کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل نے ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا، ‘اس طرح کی پوسٹ صرف گروپ کے دیگر ممبران کی نظر میں ہیرو بننے کی نیت سے پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔ یہ بغیرسچائی کے شیخی بگھاڑنے جیسا ہوسکتا ہے۔ اس لیے چیٹ پر بھروسہ کر کے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم نے… اصل میں دو مسلمان لوگوں کو قتل کیا تھا۔ ان چیٹس کو زیادہ سے زیادہ معاون ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔’

اس سے قبل 30 اپریل کو ایک اور فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ہاشم علی نامی شخص کے قتل سے متعلق مقدمے میں کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے اور اس کے بعد 12 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا، ‘وہ( وہاٹس ایپ چیٹ) اپنی خامیوں کی وجہ سے سزا کی واحد بنیاد نہیں بن سکتے اور انہیں آزاداورمعتبر شواہدسےحمایت یافتہ ہونا چاہیے۔’

اس میں یہ بھی کہا کہ ایک گواہ کے علاوہ کسی اور نے واقعہ کو دیکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔

Next Article

پہلگام اور اس کے بعد: ایک بے بس امن پسند دیوانے کی بڑ

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام حملے کی خبر نے پہلے مجھے حیران کیا اورمشتعل کر دیا، لیکن جلد ہی میں نے اپنے اندر خوف اور بے چینی بھی محسوس کی۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ردعمل زیادہ تر ملک کے شہریوں میں فوری انتقام کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت، سب سے مکروہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک زہریلا طبقہ ایسے سانحات کو سنہری موقع تصور کرتا ہے—مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی،غدار اور دہشت گردی کے حامی کے طور پرپیش کرنےکے لیے- جو سزا کے مستحق ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو تقریباً آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ذرا بھی صاف نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئے ہیں – اور مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اسے اور بھڑکایاہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما  ہوتا ہے، اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعہ کے بعد جو ماحول بناہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

بحیثیت معاشرہ ہم حیوانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ میرے بال تراشنے والا ایک  نوجوان ہیئر ڈریسر – جو میرے سر پر بچے کھچے بالوں کو سنوارتاہے – انتہائی صدمے میں ہے، کیونکہ مسعود پور ڈیری کے علاقے میں رہنے والے اس جیسے مسلمانوں پر وہاں سے نکل جانے کادباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا گروہ مسلم کمیونٹی کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بدنام وزیر نتیش رانے نے لوگوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی پہچان کرنے کے لیےانہیں ہنومان چالیسہ پڑھنے کو کہیں اور پھر ان کا اور ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ راجستھان میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس بہانے سے گرفتار کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ تلنگانہ میں ‘کراچی بیکری’ کی دو شاخوں میں توڑ پھوڑ کی گئی – صرف اس لیے کہ اس کا نام ‘کراچی’ ہے، جبکہ وہ  دکان ہندوؤں کی ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ نفرت نے اب منطق، سچائی اور انسانیت کی ہر حد کو کچل دیا ہے۔

کشمیری طلبہ اور مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے کشمیر واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایک واضح عمل میں دہلی یونیورسٹی نے کالجوں سے کشمیری طلبہ کی تفصیلات جمع کرنے کو کہا ہے — ٹھیک ویسے ہی جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کی فہرست تیار کی جاتی تھی۔ اور جو نفرت  ہمانشی نروال جھیل رہی ہیں— صرف اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی— ان سب کے آگے ہمیں شرم آنی چاہیے! یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے۔


آج ہم ایسے ہندوستان میں رہ رہے ہیں جسے پچھلی دہائی سے ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جو ‘وشوگرو’ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے – ایک ایسا ہندوستان جس نے نہ امن کا مشاہدہ کیاہے، نہ انصاف، نہ اچھائی اور نہ اتحاد۔جہاں اپوزیشن ناقابل معافی سیکورٹی لیپس کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہیں میرے لیے پہلگام کی بربریت کے بعد کےخوفناک دنوں میں مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ جب ملک میں کئی لوگ ‘خانہ جنگی’ کے خدشے کا اظہار کر تھے، تب انھوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

اس طرح کی بربریت اور جبر کے سامنے ان کی خاموشی ناقابل معافی ہے – لیکن حیرت کی بات نہیں، کیونکہ انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت اسی  وعدے کے سہارے بنائی اور بنائے  رکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کو سبق سکھائیں گے۔’


ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ ملک کی بدترین جبلتوں کا نمائندہ بن چکا ہے- طبقاتی، نرگسیت، بزدل اور خود غرضی۔ اور سب سے اہم بات، اندر تک  فرقہ وارانہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وہاٹس ایپ پر نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے غنڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں – اپنے محفوظ گھروں سے زہر فشانی کرتے ہوئے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ جس غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں۔

انہیں گودی میڈیا کے جھوٹے اور زہریلے بیانیے کے ذریعے تربیت دی گئی ہے – جس کی قیادت ارنب گوسوامی، انجنا اوم کشیپ اور نویکا کمار جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ان چہروں نے معاشرے کے مکروہ جذبات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود، ان کے ٹی وی شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں – یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نفرت سے بھرا معاشرہ بن چکے ہیں۔

وہ ہولناک سانحہ جس کا مجھے خدشہ تھا وہ 7 مئی کی صبح اس وقت حقیقت بن گیا،  جب ‘ گھر میں گھس کر ماروں گا’ کہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے جنگ کا بگل بجا دیا۔ ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر ہائی-پریسیشن ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ وزیر دفاع نے چونکا دینے والا دعویٰ کیا کہ 100 سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا، لیکن ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ حالاں کہ،اگلے ہی دن پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 15 ہندوستانی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، بین الاقوامی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔

ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انتہائی سخت کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ کسی نے تحمل سے کام لینےیا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جنگ کے علاوہ دوسرے متبادل کی بات نہیں کی۔ ہمیشہ دانشمندی کی بات کرنے والےششی تھرور نے بھی دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے ردعمل کا مطالبہ کیا۔ مودی کے دفاعی وکیل کا نادانستہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ناقابل معافی ناکامی کو اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ نظر انداز کر دیا کہ ‘سکیورٹی سسٹم عالم کل نہیں ہوتا’ اور ‘یہاں تک کہ اسرائیل بھی 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کو نہیں روک سکا۔’ ان کی اس دفاعی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی بدلنے کی تیاری میں ہیں۔

تشدد کا یہ خوفناک سلسلہ تین دن سے کچھ زیادہ ہی جاری رہا، جب تک کہ امریکہ کی ثالثی سے اچانک جنگ بندی نہیں ہوگئی۔ اب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک اس خودکش جنگ کو ختم کرنے اور جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ احمقانہ تصور کہ ہم سپریم ہیں اور یہ کہ پاکستان ایک کمزور، بے بس قوم ہے جو جوابی حملہ کرنے سے قاصر ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں۔ رافیل طیاروں پر مبینہ ‘حملے’ کی بحث پر ہماری خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ہم نے خود بھی کم نقصان  نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود، خود ساختہ ماہرین، خونخوار ہجوم اور یہاں تک کہ سابق فوجی افسران بھی ہندوستان  کے جنگ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہا ہے – ایک ایسے فیصلہ کن  موڑ پر جب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم کیا حاصل کر سکتے تھے۔

آئیے تصور کریں کہ اگر ہم قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھتے تو ہم کیا حاصل کر سکتے تھے؟ کیا ہم اپنے دور دراز اہداف کے قریب کہیں بھی پہنچ پاتے؛ (الف) دہشت گردی کو ختم کرنا یا اسے معذور بنا دینا، (ب) پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کو واپس لینا، اور (سی) پاکستان کو گھٹنےپر لا دینا؟

عملی سیاست کے عظیم مفکر میکیاویلی کا خیال تھا کہ ‘اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہے تو اسے اتناشدید ہونا چاہیے کہ وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔’ لیکن جس چیز کو ہمارے اندر موجود جنگی جنون کی خواہش نظر انداز کردیتی  ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی طاقت ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس ‘باغی’ ملک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کمزور اور بے بس لوگوں میں شامل فلسطینی، جنہیں عالمی برادری نے کئی دہائیوں سے تقریباً علیحدہ کر دیا ہے، وہ اسرائیل کی بے رحم فوجی طاقت کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بات کریں تو یہ ایٹمی طاقت ہے، جسے چین کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔

ایسے میں اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مودی کی جارحانہ پالیسی، جس میں ایٹمی خطرے سے کھیلنے کا رجحان بھی شامل ہے، دراصل کھوکھلی اور بے معنی نظر آتی ہے— صرف لفظوں کا غبارہ۔ جیسا کہ ڈگلس ہارٹن نے کہا تھا، ‘جب بدلہ لینے نکلو تو دو قبریں بنواؤ – ایک دشمن کے لیے اور ایک اپنے لیے!’


مودی کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کی حیثیت کو کم کر کے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا، تب سے یہ خطہ شدید عدم اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو پہلگام سانحہ کے بعد انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے یوگی ماڈل کی پیروی کی اوردہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا، اور سینکڑوں کشمیریوں کو ایک بڑے سیکورٹی کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا، جس میں مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی پھنس گئے۔


جبر کی پالیسی براہ راست علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم نے اس زہر کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت یہ تینوں اب تقریباً مر چکے ہیں۔

اس تاریک دور میں ہمیں اپنے ماضی کے عظیم رہنماؤں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اندیش معاشرہ اندرا گاندھی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب انہوں نے 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن آج جب صورتحال اس قدر سنگین ہے تو ہم نے ہندوستان کے عظیم ترین اور شاید اس سرزمین کے سب سے بڑے انسان مہاتما گاندھی کو کیوں یاد نہیں کیا؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ گاندھی اس مسئلے کو بالکل مختلف طریقے سے حل کرتے، اور اسی لیے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں اپنے دوستوں سے، مذاق میں نہیں، بلکہ سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر گاندھی آج زندہ ہوتے تو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں ہجوم نے مار ڈالا ہوتا!

ہمیں بھی اب اسی طرح کی اُولُو الْعَزْمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ بصورت دیگر، ہمیں یا تو ایک اور ہزار سال کی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا – یا پھر اس دن کے لیے جب ایٹمی تباہی ہمارے مشترکہ مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ بلاشبہ پہلا آپشن بہت آسان اور سب کے لیےمفید ہے۔

(میتھیو جان سابق سول سرونٹ ہیں۔)

Next Article

مہاراشٹر: ہائی کورٹ نے آپریشن سیندور سے متعلق پوسٹ پر طالبہ کو گرفتار کرنے پر حکومت اور کالج کی سرزنش کی

ایک 19 سالہ انجینئرنگ کی طالبہ کو مبینہ طور پر آپریشن سیندور کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ‘قابل اعتراض پوسٹ’ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ طالبہ نے دو گھنٹے بعد ہی دھمکیاں  ملنے پر معافی مانگتے ہوئے پوسٹ ہٹا  لی تھی۔ اب گرفتاری کے حوالے سے عدالت  نےحکومت کی سرزنش کی ہے۔

بامبے ہائی کورٹ۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: بامبے ہائی کورٹ نے منگل (27 مئی) کو انجینئرنگ کی ایک 19 سالہ طالبہ کی گرفتاری پر حکومت اور ایک انجینئرنگ کالج کی سرزنش کی۔ طالبہ کو سوشل میڈیا پر آپریشن سیندور کے بارے میں ‘قابل اعتراض پوسٹ’ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔

لائیو لا کے مطابق ، درخواست گزار نے کہا کہ اس نے 7 مئی کو لاہور واقع ‘ریفارمستان’ ہینڈل کی جانب سے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کو ری-پوسٹ کیا تھا۔ یہ آپریشن سیندور  کی خبر کے سامنے آنے کے ٹھیک  بعد کیا گیا تھا، جسے دو گھنٹے بعد ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد معذرت کے ساتھ واپس لے لیا گیا۔

ریفارمستان پوسٹ میں ‘خواتین اور بچوں’ پر بمباری کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی کی ‘اسلامو فوبک جنون’ پر تنقید کی گئی تھی۔ طالبہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس گوری گوڈسے اور سوم شیکھر سندرسن کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ طالبہ کو رہا کیا جانا چاہیے۔

لائیو لا کے مطابق، کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس گوڈسے نے زبانی طور پر کہا، ‘یہ کیا ہے؟ آپ ایک طالبہ کی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ یہ کیسا رویہ ہے؟ کوئی کچھ ایسا کہتا ہے کہ آپ طالبہ کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہیں؟ آپ اسے کیسے نکال سکتے ہیں؟ کیا آپ نے وضاحت طلب کی ہے؟ایک  تعلیمی ادارے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد صرف اکیڈمک تعلیم فراہم کرنا ہے؟ کیا آپ کسی طالبہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا اسے مجرم بنانا چاہتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کچھ کارروائی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ اسے امتحان دینے سے نہیں روک سکتے۔ اسے باقی تین پیپرز میں شامل ہونے دیں۔’

جسٹس گوڈسے نے کہا، ‘انہوں نے معافی مانگی ہے اور اپنی منشا کو واضح کیا ہے۔ آپ کو اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مجرم بنانے کی۔ ریاست کیا چاہتی ہے؟ وہ نہیں چاہتی کہ طلبہ اپنی رائے کا اظہار کریں؟ آپ طلبہ کو مجرم بنانا چاہتے ہیں؟’

کالج کے وکیل کے قومی مفاد کے پہلو پر دلائل شروع کرنے کے بعد جسٹس سندرسن نے زبانی ریمارکس دیے، ‘کون سا قومی مفاد؟ اس کا خمیازہ وہ پہلے ہی بھگت چکی ہے۔’

عدالت نے کہا کہ وہ منگل کی شام کو اس کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی اور طالبہ کی رہائی کا حکم دے گی۔

عدالت نے کہا، ‘تعلیمی اداروں کو طلبہ کی مدد کرنی چاہیے، لیکن انہیں مجرم بننے میں مدد نہیں کرنی چاہیے۔’

ریاستی حکومت کی جانب سے سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہوئے پریہ بھوشن کاکڑےنے کہا کہ طالبہ پولیس اسکارٹ کے ساتھ کالج کے امتحان میں بیٹھ سکتی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا، ‘وہ مجرم نہیں ہے۔ اسے رہا کیا جانا چاہیے۔ اسے پولیس کے ساتھ پیش ہونے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔’

بنچ نے درخواست گزار کی جانب سے پیش وکیل فرحانہ شاہ کو طالبہ کی جیل سے رہائی کے لیے نئی درخواست دائر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت منگل کی شام تک ملتوی کر دی۔

واضح ہو کہ درخواست گزار سنگھڈ اکیڈمی آف انجینئرنگ، پونے کی  طالبہ ہے، جو ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی سے منسلک ایک غیر امداد یافتہ نجی کالج ہے۔ طالبہ کو 9 مئی کو آپریشن سیندور پر ایک انسٹاگرام پوسٹ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

طالبہ کے پوسٹ ہٹانے اور معافی مانگنے کے باوجود بعد میں انہیں  کالج سےنکال دیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اپنی درخواست میں طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے خلاف کی گئی کارروائی ’من مانی اور غیر قانونی‘ تھی۔

Next Article

کرناٹک میں بی جے پی لیڈر نے ڈپٹی کمشنر سے پوچھا – کیا وہ پاکستان سے ہیں؛ کیس درج

کرناٹک میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی لیڈر این روی کمار نے ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم پر کانگریس کے اشارےپر کام کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان سےآئی ہیں۔ ان پرمسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور دیگر الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

کرناٹک بی جے پی لیڈر این روی کمار۔تصویر: X.com/@nrkbjp

نئی دہلی: کرناٹک قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے چیف وہپ اور بی جے پی لیڈر این روی کمار پر ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم کے خلاف ان کے ‘پاکستان’ سے متعلق تبصرے پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے سمیت مختلف الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 24 مئی کو بی جے پی کے احتجاج کے دوران روی کمار نے آئی اے ایس افسر ترنم پر کانگریس پارٹی کے اشارے  پر کام کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ‘ وہ پاکستان سے آئی ہوئی لگتی ہیں۔’

بی جے پی نے قانون ساز کونسل میں قائد حزب اختلاف چالاوادی نارائن سوامی کے ساتھ ‘بدسلوکی’کے الزامات کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں بند کر دیا گیا تھا جبکہ کانگریس کے حامیوں نے انہیں  گھیر لیا تھا۔

احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے روی کمار نے ڈپٹی کمشنر ترنم سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان سے آئی ہیں۔

ان کے بیان کے بعد دتاتریہ اکلاکھی نامی شخص کی شکایت پر روی کمار کے خلاف مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور پولیس افسران کو غلام کہتے ہوئے توہین آمیز زبان استعمال کرنے کے الزام میں  مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر درج فہرست ذات کے لوگوں اور ضلع انچارج وزیر پریانک کھڑگے کو دھمکی دینے اور ان کی توہین کرنے کا بھی الزام ہے۔

سوموار (26 مئی) کو مسلم خواتین لیڈروں نے کلبرگی کے پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی کو ایک میمورنڈم پیش کیا اور پولیس سے بی جے پی لیڈر کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

مسلم خواتین رہنماؤں کے وفد نے کہا، ‘یہ نفرت اور تعصب کا معاملہ ہے۔ یہ ان کے وقار اور حب الوطنی پر براہ راست حملہ ہے۔’