دی نیویارک ٹائمز میں کیے گئے دعووں کی بنیاد پر آن لائن نیوز پورٹل نیوز کلک کو ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر گزشتہ دنوں بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس لیڈروں اور نیوز کلک کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیے چین سے فنڈ ملا ہے۔
نیوز کلک نیوز پورٹل کا لوگو۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: میڈیا اور اکیڈمک دنیاسمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 750 سے زائد افراد نے آن لائن نیوز پورٹل نیوز کلک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جسے نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کیے گئے دعووں کی بنیاد پر ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے 7 اگست کو لوک سبھا میں
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھاکہ کانگریس لیڈروں اور نیوز کلک کو ‘ہندوستان مخالف’ ماحول بنانے کے لیےچین سے فنڈملا ہے۔
اس کے بعد نیوز کلک کے مالک پربیر پورکایستھ نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں ‘ایسے کسی بھی اشارےسے انکار کیا گیا تھا کہ [نیوز کلک] کمیونسٹ پارٹی آف چائنا یا دیگر مفادات کے لیے ایک ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرتا ہے’۔ تاہم، اس کے فوراً بعد، بی جے پی کے اراکین پارلیامنٹ اور مرکزی دھارے کے میڈیا چینلوں نے نیوز پورٹل پر حملہ کرنے کے لیے نیویارک ٹائمز کے اقتباس کوکئی بار شیئر کیا تھا۔
ایک دن بعد،
نیوز کلک کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی معطل کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ اب اسے بحال کر دیا گیا ہے۔
نیوز پورٹل نیوز کلک کی حمایت میں یکجہتی کا اظہار کرنے والوں میں سینئر صحافیوں، کارکنوں، ججوں، وکلاء، ماہرین تعلیم، سائنسدانوں، مصنفین، فنکاروں، فلمسازوں، اداکاروں اور دیگر شہریوں کے نام شامل ہیں۔
ان میں صحافی این رام، پریم شنکر جھا، سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو (دی وائر کے بانی مدیران)، سدھیندرا کلکرنی، پی سائی ناتھ، اور ویشنا رائے (فرنٹ لائن کےمدیر)، کارکن جان دیال، بیزواڑا ولسن(صفائی ملازمین تحریک کے قومی کنوینر)، سیدہ حمید، ہرش مندر اور ارونا رائے (مزدور کسان شکتی سنگٹھن)، ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، جسٹس کے کے چندرو، کالن گونجالویس اور پرشانت بھوشن جیسے نام شامل ہیں۔
ان کے علاوہ مصنف اور ماہر تعلیم کے سچیدانندن، جیری پنٹو، دامودر موزو، رومیلا تھاپر، سمیت سرکار، کے ایم شریمالی، تنیکا سرکار، پربھات پٹنائک، اتسا پٹنائک، جیتی گھوش، سی پی چندر شیکھر، زویاحسن اورزیاں دریج اور رتنا پاٹھک شاہ، نصیرالدین شاہ اورآنندپٹنائک جیسی فلمی ہستیوں نے بھی نیوز کلک کے لیےحمایت کا اظہار کیا ہے۔
ان کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں نیوزکلک اور اس کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف پربیر پورکایستھ کے خلاف الزامات کو ‘غلط’ قرار دیا گیا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ جس نے ان حملوں کو جنم دیا اس میں ‘نیوزکلک’ کے ذریعے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگایا گیاہے۔’
بیان میں کہا گیا ہے کہ نیوز پورٹل معاشرے کے سب سے زیادہ مظلوم طبقے کو مرکز میں رکھتے ہوئے خبریں شائع کرتا ہے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
بیان میں کہا گیا،’اپنے آغاز سے نیوز کلک نے حکومتی پالیسیوں اور اقدامات اور ہمارے لاکھوں ہم وطنوں اور خواتین کی زندگیوں پر ان کے منفی اثرات کے متعلق تنقیدی کوریج فراہم کی ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے کے سب سے زیادہ مظلوم اور استحصال زدہ طبقوں، اس کے مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد پر توجہ مرکوز کی ہے۔’
اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس میں ان کے درد اور تکلیف کو بیان کرنے اور سماجی انصاف کے لیے لڑنے والے ہر قسم کے لوگوں کی تحریکوں کے کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں وہ رپورٹ بھی شامل ہیں جو مختلف مصنفین کے اکثر مختلف نقطہ نظر کے ذریعے دیکھے جانے والے بین الاقوامی واقعات کا تنقیدی تجزیہ کرتی ہیں۔’
نیوز کلک کی حمایت میں آئے لوگوں کا کہنا ہے کہ نیوز کلک کو نشانہ بنانا ہندوستانی آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ویب سائٹ اس قسم کی معلومات فراہم کرتی ہے جو لوگوں کو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے لڑنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
بیان کے مطابق، ‘یہ جمہوریت میں اپنے قارئین کو حکومت کی ناکامیوں سے آگاہ کرنے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کی آزاد صحافت کے مخلصانہ کردار پر حملہ ہے۔ یہ اس ملک کے لوگوں کے معلومات کے حق پر حملہ ہے، جو انہیں ناانصافی کے خلاف لڑنے کے قابل بنا سکتا ہے۔’
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘بدقسمتی سے کارپوریٹ کی ملکیت والے میڈیا کے دور میں کارپوریٹ کے اثر و رسوخ سے پاک آزاد صحافت کی جگہ کم ہو گئی ہے۔ یہ اور بھی شرمناک ہے کہ ایک شاطرمیڈیا ٹرائل چلایا جا رہا ہے، جبکہ نیوز کلک پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات عدالت میں چل رہی ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔