پیرس کی تفتیشی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کےمطابق، وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالے میں ملزم کاروباری سشین گپتا کےتقریباً دو دہائی سے داسو اور اس کی پارٹنر تھیلس سے کاروباری تعلقات ہیں اور رافیل سودے کو لےکر کمپنیوں نے گپتا کو کمیشن کے طور پر کروڑوں روپے اداکیےتھے۔
نئی دہلی: پیرس کی تفتیشی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کی نئی رپورٹ کے مطابق وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)کی جانچ کا سامنا کر رہے کاروباری سشین گپتا کا رول متنازعہ رافیل سودے میں بھی تھا۔
رپورٹ کے مطابق رافیل سودا کرانے کے لیے گپتا کو داسو ایوی ایشن اور اس کے پارٹنر‘تھیلس’کی جانب سے کروڑوں روپے کا کمیشن ملا تھا۔
ای ڈی کی فائلوں سے حاصل کیے گئے دستاویزوں کی بنیاد پر اس میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سشین گپتا نے غیرقانونی طریقے سے وزارت دفاع کی فائلوں کو حاصل کر لیا تھا اور اس کا استعمال فرانسیسی فریق کو اچھی ڈیل دلانے میں کیا گیا۔
میڈیا پارٹ کی سریز کی اس تیسری رپورٹ میں ہوئے انکشاف کی وجہ سے ہندوستان میں ایک بار پھر سے رافیل سودے کی جانچ کرنے کی مانگ اٹھ سکتی ہے۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ای ڈی کے پاس اس بات کی پختہ جانکاری تھی کہ گپتا نے وزارت دفاع کے دستاویزوں کو حاصل کر فرانسیسی فریق کی مدد کی ہے، لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی جانچ شروع نہیں کی۔ یہ دکھاتا ہے کہ جانچ ایجنسی مقتدرہ پارٹی کے ‘مطابق’ کام کر رہی ہے۔
میڈیا پارٹ کے مطابق گپتا کےتقریباً دو دہائی سے داسو اور تھیلس کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں اور رافیل سودے کو لےکر انہوں نے گپتا کو ‘آف شور کھاتوں اور شیل کمپنیوں کے ذریعے کئی ملین یورو(کروڑوں روپے)دیے تھے۔
یہ ادائیگی15 سال کے دوران کیے گئے ہیں،جس میں منموہن سنگھ کی سربراہی والی یو پی اے سرکار کی مدت کار بھی شامل ہے۔
اس سے پہلے میڈیا پارٹ نے اپنی پہلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس طیارےکے ماڈل کے سودے میں شامل ہندوستانی کمپنی ڈیفس سالیوشنزدراصل رافیل سودے میں ہندوستان میں داسو کے سب کانٹریکٹرس میں سے ایک ہے۔
ڈیفس گپتا فیملی سےمتعلق ہے، جن کے ممبروں نے تین نسلوں تک ایروناٹیکل اور دفاعی صنعتوں میں مڈل مین کے طور پر کام کیا ہے۔
جنوری 2019 میں ہندوستانی میڈیا پہلے کوبراپوسٹ اور اس کے بعد اکانومک ٹائمس نے انکشاف کیا تھا کہ ایک فیملی کے ممبر سشین گپتا جو داسو کے لیے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے؛ نے رافیل سودے پر کام کیا تھا اور مبینہ طور پر ہندوستان کے وزارت دفاع سے خفیہ دستاویزحاصل کیے تھے۔
معلوم ہو کہ مارچ 2019 میں سشین گپتا کو ای ڈی کے ایجنٹس کے ذریعے گرفتار کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘داسو اور تھیلس نے گپتا کو خطیر رقم دی تھی۔ کمپنی نے انہیں 2000 کی شروعات میں ہائر کیا تھا، جب ہندوستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ 126جنگی طیارہ خریدنا چاہ رہے ہیں۔ ای ڈی کی کیس فائلوں سے نکلے دستاویزوں کے مطابق کانٹریکٹ سائن ہونے تک دونوں فرنچ فرم نے 15 سالوں کے دوران انہیں کئی ملین یورو کی ادائیگی کی۔’
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ گپتا نے داسو سے اسی طریقے سے رقم حاصل کی، جس کے لیے اگستا ویسٹ لینڈ گھوٹالے میں ان کے خلاف جانچ کی جا رہی ہے۔ اس میں آئی ٹی سروس کمپنی آئی ڈی ایس کا شامل ہونا بتایا جا رہا ہے۔ آئی ڈی ایس نے مبینہ طور پر داسو سے پیسہ حاصل کیا اور اس کے بدلے میں خفیہ طریقے سے مڈل مین کو دائیگی کی گئی ۔
میڈیا پارٹ نے کہا ہے کہ ای ڈی نے اپنے شکایت میں لکھا ہے کہ گپتا کو ملے کمیشن کا کچھ حصہ ‘دیگر دفاعی سودوں’کے لیے‘ہندوستان کے کچھ افسران کو رشوت’دینے میں استعمال کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا،‘مڈل مین کے کمپیوٹر سے ملے ایک خفیہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان دفاعی سودوں میں سے ایک رافیل ڈیل ہو سکتا ہے۔’
اگستا ویسٹ لینڈ معاملے میں گپتا کے خلاف دائر چارج شیٹ میں ای ڈی نے لکھا ہے کہ چونکہ دیگر ڈیل کے لیے ملے کمیشن موجودہ جانچ کاحصہ نہیں ہے، اس لیے دیگر ڈیل کے لیے الگ سے جانچ ہونی چاہیے۔
فرانسیسی میڈیا کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے گپتا سے وابستہ سنگاپور واقع ایک شیل کمپنی انٹرڈیو نے کنسلٹنسی سروس کے تحت داسو کو تین کانٹریکٹ دلانے میں مدد کی تھی۔ اس کے بدلے میں اسے چار ملین یورو کی ادائیگی کی گئی تھی۔
خاص بات یہ ہے کہ اس طرح کےکنسلٹینسی سروس میں بنیادی طورپر ڈیفینس مارکیٹ سے جڑی ریسرچ رپورٹ اور مؤثر انڈسٹریل پارٹنر دلانے میں مدد کرنے جیسا کام کرنا ہوتا ہے۔
اسی کے مد نظر گپتا نے سال 2015 میں وزارت دفاع کے خفیہ دستاویز حاصل کیے، جس میں انڈین نیگوشیئیٹنگ ٹیم(آئی این ٹی) کے منٹس، لاگت کا حساب وکتاب اور طریقہ کارجیسی حساس جانکاری تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے آئی این ٹی کے ایک ممبر کی ایکسل فائل بھی حاصل کر لی تھی، جس میں خریداری سے متعلق تفصیلات درج تھے۔
یہ دستاویز فرانسیسی فریق کے لیے کافی اہم تھے، کیونکہ اس بنیادپر انہیں ڈیل(بنیادی طور پر قیمت)کی شرطیں طے کرنے میں مدد ملی اور وہ اپنے لیے منافع بخش سودا کر پائے۔
میڈیا پارٹ نے اپنی رپورٹ میں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ گپتا کا رول ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے داسو اور ایم بی ڈی اے(رافیل ڈیل میں ایک دیگر فریق )نے مبینہ طور پر ڈیل سے ‘بدعنوانی مخالف اہتمام’ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی وجہ سے صنعتکاروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔
سب سے پہلے دی ہندو نے رپورٹ کرکے بتایا تھا کہ ماہرین کی مخالفت کے باوجود حکومت ہند نے ستمبر 2016 میں اس اہتمام کو ہٹانے کی منظوری دی تھی۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)