سشانت معاملہ: میڈیا کی پدری سوچ کے ساتھ کورٹ روم میں بدلتے نیوز روم

02:21 PM Sep 01, 2020 | مینا کوٹوال

اگرآنے والے وقت میں ریا بےقصور ثابت ہو گئیں، تب کیا میڈیا ان کی کھوئی ہوئی عزت اور ذہنی سکون  انہیں واپس دے پائےگا؟

ریا چکرورتی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

عورتیں روتی جاتی ہیں، مرد مارتے جاتے ہیں

عورتیں روتی ہیں، مرد اور مارتے ہیں

عورتیں خوب زور سے روتی ہیں

مرد اتنی زور سے مارتے ہیں کہ وہ مر جاتی ہیں

اتہاس میں وہ پہلی عورت کون تھی جسے سب سے پہلے جلایا گیا؟

میں نہیں جانتا

لیکن جو بھی رہی ہو میری ماں رہی ہوگی،

میری چنتا یہ ہے کہ بھوشیہ میں وہ آخری استری کون ہوگی

جسے سب سے انت میں جلایا جائےگا؟

میں نہیں جانتا

لیکن جو بھی ہوگی میری بیٹی ہوگی

اور یہ میں نہیں ہونے دوں گا

رماشنکریادو‘ودروہی’ کی لکھی ان سطروں  کا مطلب آج بھی و ہی ہے۔ پدری معاشرہ عورتوں  کو ہمیشہ سے کمزور سمجھتا آیا ہے، جس کے شواہد موجود ہیں ہماری مذہبی کتابوں، تاریخ  اور ادب میں۔عورتیں روتی ہیں،عورتیں خرچیلی ہوتی ہیں،عورتیں ایک دوسرے سے حسدکرتی ہیں، چغلی کرتی ہیں،باتونی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ  طرح کے ججمنٹ سوشل میڈیا پر خوب پھیلائے جاتے ہیں۔

عورتوں  کے بارے میں مردعموماً پہلے سے ہی اپنی رائے بنا لیتے ہیں۔ ایسا مرد اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کاپدری اقتدار برقرار رہے۔ اس کو اس گندگی  سے سمجھا جا سکتا ہے۔میں نے کئی جگہ سنا ہے، ‘تریا چرتر… دیوو نہ جاناتی کتو منشیہ’ یعنی عورتوں  کے کردارکے بارے میں دیوتا بھی نہیں جانتے ہیں۔

آپ اس سماج سے کیا امید کریں گے، جس نے عورتوں  پر دوئم درجے کی کتابیں، ادب اور کہاوتیں لکھیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ 21ویں صدی میں یہ آج بھی بدستور جاری ہے۔ہاں، میں جانتی ہوں کہ یہ مضمون  پڑھ کر تھوڑا اور ججمنٹل ہو سکتے ہیں۔ مجھے بھلا برا بھی سنا سکتے ہیں کیونکہ اس سماج اور ماحول نے آپ کو یہی سکھایا ہے۔

ہمیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہندوستان  ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں اظہار رائے کی پوری آزادی ہے اور ہر ایک شخص کو یکساں حقوق ملے ہوئے ہیں۔اگر کوئی کسی جرم میں ملزم پایا جاتا ہے، تو بھی وہ تب تک قصوروار نہیں کہلا سکتا، جب تک اس پر لگے الزام  ثابت نہیں ہو جاتے۔

لیکن ہندوستانی  میڈیا اسے غلط ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کچھ معاملوں میں وہ پہلے ہی ملزم کو مجرم مان لیتا ہے اور اس کا حال بد سے بدتر کر دیتا ہے۔اور زیادہ تر ایسے معاملوں میں میڈیا کا ٹارگیٹ ہوتے ہیں مسلمان ، عورتیں اور دلت۔ ہمارے آس پاس لنچنگ کرنے والی بھیڑ بنائی جا رہی ہے، جس میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام ہمارا مین اسٹریم میڈیا بخوبی کر رہا ہے۔

ابھی سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ریا چکرورتی پر ایک سے ایک الزام  میڈیا کی جانب سےلگائے جا رہے ہیں۔ سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ ملک  کا میڈیا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ایک عورت پر لگاتار ہلہ بول رہا ہے، جتنا ہو سکے اس کی عزت  اورپرائیویسی کے ساتھ کھیل رہا ہے۔

وہ بھول گئے ہیں کہ ریا چکرورتی نے اگر کوئی جرم کیا بھی ہے تو وہ ایک ملزم سے پہلے ایک عورت ہے۔ اسی وجہ سےہمارے ملک کی 50 فیصدی آبادی آج بھی حاشیے پر نظر آتی ہے۔اگر کل کو ریا بےقصور ثابت ہو گئیں، تو کیا ان کی کھوئی ہوئی عزت اور جس طرح سے انہیں ذہنی طور پر ہراساں  کیا جا رہا ہے، وہ یہ میڈیا واپس دے پائےگا!

سوشل میڈیا پر ریا کی کئی قابل اعتراض  تصویریں شیئر ہو رہی ہیں ، تو کوئی بےوفا کہہ کر بھدی بھدی باتیں کر رہا ہے اور ان پر میم بنائے جا رہے ہیں۔آپ کو شایدیاد ہوگا کہ نوٹ بندی کے آس پاس ایک میم بہت چلا تھا ‘سونم بےوفا ہے۔’بے وفا یعنی جو اپنے رشتہ کے لیے ایماندار نہ ہو۔ اور ایمانداری کا سارا بوجھ توعورتوں  نے اٹھا رکھا ہے، چاہے اس رشتہ میں شامل مردکچھ بھی کریں۔

لیکن ایک بھیڑ ہی تھی، جس نے سونم کی طرح نہ جانے کتنی عورتوں کو بےوفا ہی نہیں بلکہ پتہ نہیں کیا کیا بنا دیا تھا۔ ویسے ہی ایک بار پھر اس بھیڑ کو موقع مل گیا ہے ریا کے نام پر۔ریا نے کوئی غلطی کی ہے یا نہیں یہ تو قانون ہی بتا پائےگا۔ لیکن ہمارے سماج کی اس بھیڑ نے پھر ایک بار ایک عورت پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی اس بھیڑ نے طے کر لیا ہے کہ ریا قصوروار ہیں اور سشانت کی موت کی ذمہ دار ریا ہی ہیں۔سشانت کے معاملے میں ریا کا غیرمعمولی میڈیا ٹرائل چل رہا ہے۔ لوگوں کا غصہ دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے اگر ریا ان کے سامنے ہو تو وہ اسے زندہ  بھی جلا دیں گے!

خیر،یہ سماج عورتوں  کو زندہ جلانے میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ چاہے ستی پرتھا ہو یا ریپ کے بعد عورت کو جلا دینا ہو، اس سماج نے آدھی آبادی کو ہمیشہ غلام بناکر رکھنا چاہا ہے۔موجودہ وقت میں جو ہو رہا ہے اس سب کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ملک  کا میڈیا قصوروار ہے، جنہوں نے نیوز روم کو کورٹ روم بنا دیا ہے۔

کسے کیا فیصلہ دینا ہے ہمارے ملک کا قانون نہیں بلکہ اب میڈیا طے کر رہا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ سب سشانت کے لیے ہمدردی  کی وجہ سے ہو رہا ہے!اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو سچ مانیےآپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں کیونکہ یہ سشانت کے لیے ہمدردی نہیں بلکہ سیاست کا ایک حصہ ہے۔

یہ ہمدردی تب کہاں گئی تھی، جب ملک کے کروڑوں غریب مزدور سب کچھ چھوڑکر اپنے گھر پیدل نکل پڑے تھے۔بتا دوں کہ بہار میں اسی سال انتخاب ہونے ہیں۔ سشانت بہار سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ سشانت کے لیے سبھی کے دل میں ایک سافٹ کارنر ہے اور بہار کے لوگوں کے لیے ہمدردی  دکھانے کا میڈیا کو ایک اچھا بہانہ مل گیا ہے۔

ایسے میں وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی اسی ریاست کے سب سے زیادہ مزدور ملک کے الگ الگ حصوں سے جیسے تیسے بہار لوٹے ہیں۔جب کورونا کا اثر ان کی مزدوری پر پڑا، تب وہ پیدل ہی اپنے گھر کی طرف نکل لیے۔ بھوکے پیاسے، پیدل ہی ایک لمبا سفر طے کیا۔

عورتیں سڑکوں پر بچہ کو جنم دے رہی تھیں، اور پھر کچھ دیر بعد ہی چل پڑی اپنی منزل کی طرف۔جیوتی نام کی ایک  دلت لڑکی ہریانہ سے بہار سائیکل پر اپنے بیمار باپ  کو بٹھاکر نکل پڑتی ہیں، لیکن میڈیا نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جیوتی کو کیوں اتنا لمبا سفر سائیکل سے طے کرنا پڑا!

تب اسی میڈیا کو نہ بہار سے پیار تھا نہ بہارکے لوگوں سے۔سشانت معاملے میں انہوں نے جس طرح سے ریا کی میڈیا لنچگ کرنی شروع کی ہے اس پر آج نہیں تو کل انہیں خود شرم آئےگی۔وہ آج اپنے چینل کو ٹی آر پی میں ٹاپ پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ چاہے ایسے میں کسی کو اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا!

راجدیپ سردیسائی کو انٹرویو دیتے وقت ریا کہتی ہیں،‘میں تو بولتی ہوں کہ ایک بندوق لاؤ، فیملی لائن میں کھڑی ہو جائےگی اور ہمیں گولی مارکر اڑا دو۔ نہیں تو ہم ہی سوسائیڈ کر لیتے ہیں۔’ریا اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہتی ہیں کہ انہیں خودکشی کے خیال آنے لگے ہیں، اگر انہوں نے کچھ کر لیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا!

وہ جان گئی ہیں کہ عوام نے انہیں ایک ہی ترازو میں تول دیا ہے۔ میڈیا اس پر فیصلے سنا رہا ہے۔ آج جو بھی سشانت کو پسند کرتا ہے یا ان کی تعریف میں چندلفظ کہتا ہے، تو وہ ریا کو بھی کھری کھوٹی سنانے میں پیچھے نہیں ہٹتا۔کیا ایسا پہلی بار ہے!نہیں۔ خاتون  کا چیرہرن ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے۔ ایک پدری معاشرےمیں یہ بہت آسان ہے کیونکہ ان کے لیے عورتیں ہمیشہ سے کمزور رہی ہیں۔

اگر وہ اپنے من کا کچھ کر لیتی ہیں تو انہیں سماج میں پوری طرح سے بے عزت کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہندو دھرم کے گرنتھوں میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے۔مہابھارت میں دروپدی کے ساتھ ہوئی بدسلوکی سے ہمارا سماج اچھی طرح  واقف ہے۔ اسی طرح منوسمرتی میں بھی عورتوں  کو دوئم درجے کا سمجھا گیا ہے۔

منوسمرتی کے مطابق، ایک عورت کو دن میں داسی اور رات کو رمبھا بن کر رہنا چاہیے۔

منوسمرتی کے پانچویں ادھیائے(باب) میں بتایا گیا ہے کہ ایک لڑکی کو ہمیشہ اپنے باپ  کی نگرانی میں رہنا چاہیے۔ شادی کے بعد اس کا شوہر اس کامحافظ  ہونا چاہیے۔اگر شوہرکی موت ہو جاتی ہے تو اسے اپنے بچوں پرمنحصر ہونا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں عورت کو آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔

منوسمرتی میں بتایا گیا ہے کہ ایک عورت کومردکے برابر حق نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عورت کی بھلائی تبھی ہو سکتی ہے، جب ایک مرد کی بھلائی ہو۔ایک عورت کو کسی بھی طرح کے مذہبی حقوق نہیں ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی خدمت کرکے جنت حاصل کر سکتی ہے۔

یہ مذہبی کتاب  ہی بتاتے ہیں کہ عورتیں اپنے دم پر کچھ نہیں کر سکتی۔ جس عورت نے اپنے دم پر کچھ کیا یا غلطی سے کسی مرد کے ساتھ اپنی مرضی سے زندگی گزار لیا، تو اسے سماج میں بہت کچھ جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ایک طرف ہمارا سماج سشانت کے لیے آج بھی دعائیں کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف ان کی خاتون دوست کے لیے بھدی بھدی باتیں کر رہا ہے۔

میڈیا کسی کے لیے زہر اگل رہا ہے تو ہمارا سماج اس کا بائیکاٹ  کرنے کے بجائے اس زہر کو قبول  کیے جا رہا ہے۔این سی آربی کے مطابق عورتوں  کے خلاف جرائم  ہر سال بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ اعدادوشمار ہمارے سماج کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں کیونکہ یہ سب اب نارمل بنا دیا گیا ہے۔

سشانت کے ساتھ غلط ہوا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں اور ہم سبھی اس کے لیے انصاف کی فریاد بھی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں انصاف دلاتے دلاتے ہم کہیں کسی اور کے ساتھ ناانصافی نہ کر بیٹھیں۔اگر ایسا ہوا تو شاید خود سشانت بھی کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ اپنی بات رکھنے کا حق ہم سب کو ہے۔ چاہے وہ کتنا بھی بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو۔

ریا کی بات سنے بنا ہی ہماری میڈیا اور ایک طبقے نے تو اپنا فیصلہ سنا ہی دیا ہے، پھر اب ان کی بات سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن آج بھی یہ ملک آئین  سے ہی چلتا ہے اس لیے جب تک کوئی جرم  ثابت نہیں ہو جاتا یا قانون کی نظر میں وہ قصوروار نہیں پایا جاتا تب تک وہ ملزم ہی بنا رہےگا، مجرم نہیں۔

سوچیےاگر یہ ملک واقعی میں منوسمرتی کے حساب سے چلتا تو! تو اب تک شاید بیچ چوراہے پر ریا کو لٹکا دیا گیا ہوتا!یا اس سے بھی برا کیا جا سکتا تھا، جس کے صرف تصور محض سے بھی روح کانپ جائے۔ اگر یہ سب اب نہیں رکا تو ہماری آنے والی نسل  کو اس کا بہت بڑا خمیازہ  بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

…اور آخر میں، جو لوگ ریا کی میڈیا لنچنگ کرنے سے خوش ہیں وہ ایک بار اپنے گھر کی عورتوں  کی طرف ضرور نظر ڈالیں کہ ان کے گھر کی عورتیں کس حالت میں رہ رہی ہیں!کہیں یہی سماج انہیں دوسری، تیسری،چوتھی ریا تو نہیں سمجھ رہا، جس نے کسی کی نظر میں غلط کیا ہو کیونکہ ان کی نظر میں عورتیں کبھی صحیح نہیں ہوتیں!

(مضمون نگار آزاد صحافی  ہیں۔)