ریزرویشن پر عدالت کا فیصلہ: کارکنوں نے ذیلی درجہ بندی کو خوش آئند قرار دیا، رہنماؤں نے اٹھائے سوال

ایک طرف یوگیندر یادو اور بیلا بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ اس سے ریزرویشن کا فائدہ محروم ترین طبقے تک پہنچے گا، وہیں دوسری طرف کچھ لیڈر اسے 'پھوٹ ڈالو اور راج کرو' کا نام دے رہے ہیں۔

ایک طرف یوگیندر یادو اور بیلا بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ اس سے ریزرویشن کا فائدہ محروم ترین طبقے تک پہنچے گا، وہیں دوسری طرف کچھ لیڈر اسے ‘پھوٹ ڈالو اور راج کرو’ کا نام دے رہے ہیں۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات  (1 اگست) کو درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے ریزرویشن پر ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ دراصل، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی  بنچ نے ریاستوں کو ایس سی اور ایس ٹی کوٹے میں ذیلی درجہ بندی (سب کلاسیفیکیشن)کی اجازت دی ہے تاکہ ان زمروں میں محروم ترین  طبقات کو مقررہ ذیلی کوٹے کے توسط سے  نمائندگی دی جاسکے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ریاستی حکومتیں ایس سی کے 15 فیصد ریزرویشن کے اندر کچھ ذاتوں کے لیے کچھ فیصد ریزرویشن دے سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایس سی /ایس ٹی ریزرویشن کو نئے انداز میں پیش  کرتا ہے۔ 1950 میں آئین میں ریزرویشن دیے جانے کے بعد ایسا پہلی بارہوا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ ای وی چنایہ بنام آندھرا پردیش  معاملے میں سپریم کورٹ کے  ہی 2004 کے فیصلے کے برعکس  ہے ۔ اُس فیصلے میں سپریم کورٹ نے تسلیم  کیا تھا کہ ایس سی/ایس ٹی  ‘یکساں گروپ’ہے، جسے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف ایس ٹی اور ایس ٹی کی ذیلی درجہ  بندی پر زور دیا،  بلکہ کئی ججوں نے کریمی لیئر کو ہٹانے کی ضرورت پر بھی توجہ دلائی۔ یہ دونوں مختلف پہلو ہیں۔ ذیلی درجہ  بندی سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ جن ایس سی یا ایس ٹی ذاتوں کو ریزرویشن سے کم فائدہ ہوا ہے، ان کے لیے کوٹہ کے اندر کوٹہ کے ذریعےبہتر حصہ داری کویقینی بنایا جا سکے۔ جبکہ، کریمی لیئر کا تصور تجویز کرتا ہے کہ مقررہ معیار کے تحت آنے والے خاندانوں کو ریزرویشن کے دائرہ سے باہر رکھا جائے۔

کریمی لیئر اوبی سی میں پہلے سے ہی لاگو ہے۔ ایس سی اور ایس ٹی میں کریمی لیئر کو لاگو کرنے کے خیال کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہو رہی ہے۔ تاہم، ایس سی اور ایس ٹی کو پروموشن میں ملنے والے ریزرویشن میں کریمی لیئر لاگو  ہے ۔

دی وائر نے اس موضوع پر ماہرین سے بات کی۔

سیاسی تجزیہ کار یوگیندر یادو نے کہا کہ ذاتوں کی ذیلی درجہ بندی انتہائی منصفانہ ہے اور اس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔

’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) میں درجہ بندی کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے  جاری منصفانہ مطالبے کانتیجہ  ہے۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ لیکن فیصلہ سناتے ہوئے چار ججوں نے اُس معاملے پربھی تبصرہ کر دیا، جو ان کے سامنے تھا ہی نہیں۔ یعنی ایس سی اور ایس ٹی میں کریمی لیئر کا معاملہ۔ خیر یہ کوئی فیصلہ نہیں صرف ایک تبصرہ ہے۔ لیکن یہ بہت سے تضادات کو جنم دے سکتا ہے، جن کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘

تضادات کا حوالہ دیتے ہوئے یادو کہتے ہیں، ‘جس طرح او بی سی ریزرویشن کے اندر کریمی لیئر کا اطلاق ہوتا ہے، اس طرح سےایس سی پر اس کا اطلاق نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اس بہانے ریزرویشن پوسٹ کو خالی رکھنے کی کوئی سازش نہ کی جائے۔‘

طویل عرصے سے بستر میں آدی واسیوں  کے درمیان کام کر رہی محقق اور انسانی حقوق کی کارکن بیلا بھاٹیہ نےبتایا کہ انہوں نے ابھی تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ‘قبائلی معاشرے میں عدم مساوات ہے۔ پورے قبائلی معاشرے کو یکساں (ہوموجینیس)نہیں مانا جا سکتا۔‘

انہوں نے کہا، ‘قبائلی برادری کے اندر بھی معاشی اور سماجی امتیاز اور تفریق  ہے۔ بستر میں بہت مختلف قبائلی برادریاں ہیں، وہ قبائلی جو اندرونی علاقوں میں رہتے ہیں، ان کی صورتحال سڑک کے کنارے رہنے والے قبائلیوں سے مختلف ہے۔‘ بھاٹیہ کا خیال ہے کہ اس کا اثر سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی کی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔

بیلہ بھاٹیہ مثال کے طور پر کچھ قبائل کے نام لیتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کون کس سے آگے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بستر میں ہی حلبہ اور دورلا قبائل ہیں، جن کی حالت مریا اور ماڑیا قبائل سے بہتر ہے۔

راجستھان میں بائیں بازو کے واحدایم پی اور سی پی ایم لیڈر امرا رام نے دی وائر کو بتایا، ‘عدالت کا فیصلہ درست ہے۔ اتنے سالوں کے بعد بھی ایس سی کے جن طبقات کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا ہے انہیں ضرور ملنا چاہیے اور اس کے لیے ذیلی درجہ  بندی کی جانی چاہیے۔ عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ ان کے لیے قوانین بنائے۔‘

رہنماؤں نے کیا کہا؟

آزاد سماج پارٹی کے قومی صدر اور نگینہ لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیامنٹ چندر شیکھر آزاد نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘سپریم کورٹ کے سات ججوں میں سے کتنے دلت اور کتنے قبائلی تھے؟ کیا وہ ہمارے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ سب سے پہلے درجہ بندی سپریم کورٹ سے شروع ہونی چاہیے، ذات پر مبنی مردم شماری کروائی جائے اور تعداد کی بنیاد پر حصہ دیا جائے۔‘

بھارت آدی واسی پارٹی کے ایم پی راج کمار روت نے کہا ہے کہ ‘سپریم کورٹ کے سات کالجیم ججوں کی جانب سے 01.08.2024 کو 6:1 سے دیا ریزرویشن کا فیصلہ ‘پھوٹ ڈالو  راج کرو’ کی پالیسی کو فروغ دیتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایس سی /ایس ٹی  زمرے میں دور دراز علاقوں کے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملا ہے، اس صورتحال میں ہم علاقہ وار تقسیم پر متفق ہیں۔ لیکن ذاتوں/گروپوں کو ذیلی زمروں میں تقسیم کرنے کی پالیسی سے میں متفق نہیں ہوں۔‘