جموں و کشمیر میں جاری پابندی کے خلاف داخل عرضی کی سماعت کر رہے دونوں ججوں-سی جے آئی رنجن گگوئی اور جسٹس ایس اے بوبڈے، ایودھیا بنچ کے بھی حصہ ہیں۔ بنچ نے ایودھیا معاملے کی سماعت ختم کرنے کے لئے 18 اکتوبر کا وقت طے کیا ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی رہنمائی والی سپریم کورٹ کی تین ججوں والی بنچ نے سوموار کو جموں و کشمیر میں جاری پابندی اور بنیادی سہولیات تک پہنچ کی کمی کو چیلنج دینے والی عرضی ایک آئینی بنچ کے پاس بھیج دی ہے۔دی ہندو کے مطابق، جسٹس این وی رمنا کی رہنمائی والی آئینی بنچ 1 اکتوبر کو آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے خلاف دائر عرضی پر سماعت شروع کرنے والی تھی۔ اب یہ بنچ جموں و کشمیر میں جاری پابندی اور آرٹیکل 370 کے خلاف دائر دونوں ہی طرح کی عرضی پر سماعت کرےگی۔
ان عرضیوں میں مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو بھی چیلنج دیا گیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر کی موجودہ حالت کو بدلتے ہوئے اس کو یونین ٹریٹری بنا دیا گیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا آئینی بنچ پہلے پابندیوں پر سماعت کرےگی اور کوئی حکم جاری کرےگی۔جموں و کشمیر میں جاری پابندی کو چیلنج دینے والی عرضیوں کو آئینی بنچ کے پاس بھیجتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی نے کہا، ‘ہمارے پاس اتنے معاملوں کو سننے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس آئینی بنچ کا معاملہ چل رہا ہے۔ ان عرضیوں پر کشمیر بنچ سماعت کرےگی۔ ‘
یہاں آئینی بنچ معاملے سے مطلب ایودھیا معاملے کی شنوائی سے تھا، جس میں سوموار کو لگاتار 34ویں دن سماعت ہوئی۔جموں و کشمیر میں جاری پابندی کے خلاف داخل عرضیوں کی سماعت کر رہے دونوں ججوں-سی جے آئی رنجن گگوئی اور جسٹس ایس اے بوبڈے، ایودھیا بنچ کا بھی حصہ ہیں اور اس بنچ کے پاس 18 اکتوبر تک ایودھیا معاملے کی سماعت کو ختم کرنے کا وقت ہے۔ ایودھیا معاملے میں سوموار سے جمعہ کو شام پانچ بجے تک سماعت ہو رہی ہے۔
پابندیوں کے خلاف داخل عرضیوں کی مخالفت کرتے ہوئے مرکز نے دلیل دی کہ یہ قدم مشکلوں کی وجہ سے اٹھایا گیا اور اس سے جموں و کشمیر میں 1990 سے جاری موت، دہشت اور تشدد کے ہزاروں واقعات پر روک لگی ہے۔جموں و کشمیر میں جاری پابندیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ میں کئی ہیبئس کارپس عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اس میں نو جوان وکیل محمد علیم سید کی عرضی ہے جو کہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے لئے پریشان ہیں۔
سی پی آئی ایم رہنما سیتارام یچوری نے اپنی پارٹی کے ممبر ایم وائی تاریگامی سے ملنے کے لئے عرضی لگائی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی ماں سے ملنے کے لئے عرضی لگائی ہے۔حالانکہ، عدالت نے ان لوگوں کی صحت کے بارے میں بتانے کے لئے انتظامیہ کو ہدایت دینے کے بجائے درخواست گزاروں کو ہی جموں و کشمیر جاکر ملنے کا حکم دیا۔
دیگر عرضیوں میں ریاست میں جاری پابندی میں لوگوں کے حالات پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں ایک عرضی ماہر حقوق اطفال اکانشی گانگولی اور پروفیسر شانت سنہا کے ذریعے داخل کی گئی جنہوں نے جموں و کشمیر میں بچوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لئے جانے کی تصدیق کرنے کی مانگ کی ہے۔وہیں، ایک دیگر عرضی میں ایک ڈاکٹر نے ریاست میں طبی سہولیات کی کمی کا مدعا اٹھایا ہے۔ اس میں کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کی عرضی بھی شامل ہے۔
ایک دیگر عرضی میں کشمیر ٹائمس کی انورادھا بھسین نے ریاست میں میڈیا اور ابلاغ ذرائع پر لگی پابندی کو چیلنج دیا ہے۔انہوں نے عرضی میں کشمیر اور جموں کے کچھ ضلعوں میں صحافیوں اور میڈیا اہلکاروں کی بلا روک ٹوک آمد ورفت پر لگی پابندی میں فوراً ڈھیل کے لئے مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ کو ہدایت دئے جانے کی مانگ کی تھی۔ان کی عرضی کے مطابق، میڈیا اہلکاروں کو اپنا کام کرنے دینے اور خبر کرنے کے حق کے لئے آئین کے آرٹیکل 14، 19 (ایک) (اے) اور 19 (ایک) (جی) اور 21 اور کشمیر وادی کے باشندوں کو جاننے کے حق کے تحت ہدایت دئے جانے کی مانگ کی گئی تھی۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ درخواست گزار کو پتہ نہیں ہے کہ کس حق اور اختیار کے تحت حکم جاری کیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر پابندی اور صحافیوں کی آمد ورفت پر سخت پابندی کی وجہ سے ایک طرح سے روک لگ گئی اور میڈیا کی اشاعت و نشریات پر اثر پڑا ہے۔ اس سے میڈیا کے کام کاج پر ایک طرح سے پابندی لگ گئی ہے۔حالانکہ، حکومت نے دعویٰ کیا کہ الزام غلط ہیں اور کشمیر کے لوگوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
16 ستمبر کو دئے ایک حلف نامہ میں حکومت نے کہا تھا کہ کشمیر کے 105 (88.57 فیصدی) پولیس اسٹیشنوں میں سے 93 میں، جموں میں تمام 90 پولیس اسٹیشنوں (100 فیصدی) میں اور لداخ کے تمام 7 (100 فیصدی) پولیس اسٹیشنوں میں سے دفعہ 144 کے تحت لگائی گئی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔اس میں کہا گیا کہ اناج، ایل پی جی سلینڈر، پٹرول، ڈیزل وغیرہ جیسی ضروری چیزوں کا تین مہینے کا ذخیرہ یقینی بنایا گیا ہے۔
عدالت کو اعداد و شمار دیتے ہوئے حکومت نے کہا کہ پچھلے ایک مہینے میں کشمیر میں 898050 ایل پی جی ریفل اور 6.46 لاکھ کوئنٹل راشن صارفین میں تقسیم کئے گئے۔ اس میں کہا گیا کہ جموں اور لداخ میں 100 فیصدی جبکہ کشمیر میں 97 فیصدی پرائمری،ثانوی اور اعلیٰ ثانوی ( ہائی اسکول) کھل رہے ہیں۔