سپریم کورٹ نےکمیٹی کی تشکیل کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے اس معاملے میں مرکزی حکومت کی جانب سے مناسب حلف نامہ دائر نہ کرنے کو لےکرشدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ قومی سلامتی کو خطرہ ہونے کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے، اس کو ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اسرائیلی اسپائی ویئر‘پیگاسس’کے ذریعےہندوستانی شہریوں کی مبینہ جاسوسی کے معاملے کی جانچ کے لیے بدھ کوماہرین کی ایک کمیٹی بنائی ۔ کورٹ نے کہا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہما کوہلی کی بنچ نے کہا کہ اس تین رکنی کمیٹی کی سربراہی سابق جسٹس آروی رویندرن کریں گے۔
عدالت نے ماہرین کے پینل سے جلد رپورٹ تیار کرنے کو کہا اور معاملے کی اگلی شنوائی آٹھ ہفتے بعد ہوگی۔
بنچ نے کہا کہ عرضی گزاروں نےپرائیویسی کے حق، اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی جیسےالزامات لگائے گئے ہیں، جن کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ عرضیاں اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے اسپائی ویئر‘پیگاسس’ کے ذریعے سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےشہریوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کی مبینہ طور پر جاسوسی کرائے جانے کی خبروں کی آزادانہ جانچ کی اپیل سے متعلق ہیں۔
مرکزی حکومت نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کمیٹی میں جسٹس رویندرن کے علاوہ سال 1976 بیچ کے سابق آئی پی ایس افسر آلوک جوشی اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن/انٹرنیشنل الیکٹرو ٹیکنیکل کمیشن کی جوائنٹ ٹیکنیکل کمیٹی میں ذیلی کمیٹی کے چیئرمین سندیپ اوبرائے شامل ہیں۔
یہ پینل تین دیگرتکنیکی ماہرین کی کمیٹی کی نگرانی کرےگا، جس میں سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل فارنسکس کے پروفیسر اور گجرات کے گاندھی نگر میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف فارنسک سائنسز کے ڈین ڈا کٹرنوین کمار چودھری، کیرل کے امریتا وشوا ودیاپیتم، کیرالہ میں انجینئرنگ محکمہ کے پروفیسر ڈاکٹر پربھارن پی اور بمبئی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی(آئی آئی ٹی) میں کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے صدر شعبہ ایسوس ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اشون انل گمستے شامل ہیں۔
غورطلب ہے کہ دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہے۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریدار ی کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی تسلیم کیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد حکومت ہند کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کرنے کی وجہ سے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا،سینئر صحافی این رام، سابق مرکزی وزیر ارون شوری اور غیر سرکاری تنظیم کامن کاز نے عرضی دائر کرکے معاملے کی آزادانہ جانچ کرانے کی مانگ کی تھی۔
دیگرعرضی گزاروں میں صحافی ششی کمار، راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس، پیگاسس اسپائی ویئر کے مصدقہ متاثر صحافی پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ای معابدی اور اسپائی ویئر کے ممکنہ ٹارگیٹ صحافی پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور کارکن اپسا شتاکشی شامل ہیں۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، عدالت نے کہا، ‘مرکز کی طرف سے واضح طو رپرتردید(پیگاسس کے استعمال کے بارے میں)نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے ہمارے پاس عرضی گزار کی دلیلوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اس طرح ہم ماہرین کی ایک کمیٹی کی تشکیل کرتے ہیں، جس کا کام عدالت کے ذریعے دیکھا جائےگا۔’
کورٹ نے اس معاملے میں مرکز کے رویے پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ انہوں نے مناسب حلف نامہ دائر نہیں کیا۔
عدالت نے کہا کہ مرکزی حکومت کو سال 2019 سے پیگاسس حملے کو لےکر جانکاری شیئر کرنے کے لیے کافی وقت دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے محدود حلف نامہ دائر کیا، جس کی وجہ سے کوئی خاص چیز پتہ نہیں چل پائی۔
عدالت نے کہا کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں صرف اتنا ہی کام کر پائی کہ وہ بےبنیاد اور من مانے بنیاد پر عرضیوں کو خارج کرتے رہے۔
عدالت نے سرکار کوسخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مرکز ہر وقت جوابدہی سے بچنے کے لیےقومی سلامتی کی آڑ نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ایسا دعویٰ کرتے ہیں تو اسے ثابت کرنا ہوتا ہے اور اس کےحق میں دلیلیں دینی ہوتی ہیں۔
کورٹ نے کہا کہ قومی سلامتی کی آڑ میں پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی ۔
معلوم ہو کہ ہندوستان کے جہاں دفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار کر دیا تھا، تو وہیں مودی حکومت نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور اسے خریدنے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
عدالت نے کہا کہ قانون کے مطابق اندھادھند جاسوسی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا،‘ایک مہذب جمہوری معاشرے کےارکان پرائیویسی کی معقول توقع رکھتے ہیں۔ پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کے لیےتشویش کی بات نہیں ہے۔’کورٹ نے کہا کہ اس طرح کی نگرانی سے بولنے کی آزادی اور پریس کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے کہا، ‘یہ پریس کی آزادی کے لیے بھی ایک تشویشناک ہے، جو جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر ممکنہ اثرات جمہوریت کو بھی متاثر کرےگا۔’
قابل ذکرہے کہ دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح 40 سے زیادہ صحافیوں کی پیگاسس کے ذریعے نگرانی کا خدشہ ہے۔