سپریم کورٹ نے بہار حکومت کو ذات پر مبنی سروے کے اعداد و شمار کی تفصیلات کو عوامی طور پر دستیاب کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ غیر مطمئن لوگ نتائج کو چیلنج کر سکیں۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بہار حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے ذات پات کے سروے کے اعداد و شمار کی تفصیلات کو عوامی طور پر دستیاب کرائے تاکہ غیر مطمئن لوگ اختلافی نتائج کو چیلنج کر سکیں۔
رپورٹ کے مطابق، جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتا کی بنچ نے درخواست گزاروں کی عبوری راحت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عرضی گزاروں نے سروے اور پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے اس طرح کی مشق کرنے کے بہار حکومت کے اقدام کو برقرار رکھا تھا۔
خبر رساں ایجنسی
پی ٹی آئی کے مطابق ، بنچ نے کہا، ‘عبوری راحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان کے (حکومت کے) حق میں ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اب جبکہ ڈیٹا پبلک پلیٹ فارم پر ڈال دیا گیا ہے، تو دو تین پہلو رہ گئے ہیں۔ پہلا قانونی مسئلہ ہے – ہائی کورٹ کے فیصلے کا جواز اور اس طرح کی مشق کی قانونی حیثیت کے بارے میں۔’
درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کے نوٹس میں لایا کہ حکام نے پہلے ہی سروے کے نتائج پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے کیونکہ ڈیٹا پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت نے پہلے ہی ایس سی، ایس ٹی، دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی)، انتہائی پسماندہ طبقات اور اقتصادی طور پر کمزور طبقہ (ای ڈبلیو ایس) کے لیے ریزرویشن کو موجودہ 50 فیصد سے بڑھا کر کل 75 فیصد کردیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ریزرویشن میں اضافے کے معاملے کو پٹنہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔ پورے معاملے کی تفصیل سے سماعت کی ضرورت ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ پہلے ہی ریزرویشن میں اضافے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں جا چکے ہیں۔
اسے ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے رام چندرن نے کہا کہ چونکہ ریاستی حکومت پہلے ہی ڈیٹا پر کارروائی کر رہی ہے، اس لیے اس معاملے کو اگلے ہفتے لسٹ کیا جانا چاہیے تاکہ درخواست گزار عبوری راحت کے لیے بحث کر سکیں۔
بنچ نے جواب دیا، ‘کیسی عبوری راحت؟’ ہائی کورٹ کا فیصلہ ان کے (بہار حکومت کے) حق میں ہے۔’
دریں اثنا، بہار حکومت کے وکیل شیام دیوان نے عدالت کو بتایا کہ ڈیٹا، بریک اپ سمیت پبلک ڈومین میں دستیاب ہے اور کوئی بھی اسے متعلقہ ویب سائٹ پر دیکھ سکتا ہے۔
اس پر جسٹس کھنہ نے کہا، ‘میں ڈیٹا کے بریک اپ کی دستیابی کو لے کر زیادہ فکر مند ہوں۔ حکومت ڈیٹا کو کس حد تک روک سکتی ہے؟ آپ دیکھیے، ڈیٹا کی مکمل تفصیلات پبلک ڈومین میں ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی اس سے اخذ کردہ نتائج کو چیلنج کر سکے۔ جب تک یہ عوامی فورم میں نہ ہو، وہ اسے چیلنج نہیں کر سکتے۔’
ریاست میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نتیش کمار حکومت پر ذات پر مبنی سروے میں بے ضابطگیوں کا الزام لگا رہی ہے اور جمع کیے گئے ڈیٹا کو ‘فرضی’ قرار دے رہی ہے۔
اس کے بعد بنچ نے دیوان سے ذات پر مبنی سروے پر رپورٹ داخل کرنے کو کہا اور کیس کی اگلی سماعت 5 فروری کو مقرر کی۔
واضح ہو کہ بہار حکومت نے 2 اکتوبر کو ذات پر مبنی سروے کے اعداد و شمار
جاری کیے تھے، جس کے مطابق، دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) ریاست کی کل آبادی کا 63 فیصد ہیں، جس میں انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی) کا سب سے بڑا حصہ (36فیصد) ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بہار کی کل آبادی 13 کروڑ سے زیادہ ہے، جس میں پسماندہ طبقہ 27.13 فیصد، انتہائی پسماندہ طبقہ 36.01 فیصد اور عام طبقہ 15.52 فیصد ہے۔