مرکز نے کورٹ میں کہا، ریاستیں بھی ہندوؤں سمیت دیگر مذہبی اور لسانی برادریوں کو اقلیت قرار دے سکتی ہیں

05:37 PM Mar 29, 2022 | دی وائر اسٹاف

بی جے پی لیڈر اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے ایک عرضی میں قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ 2004 کی دفعہ 2 (ایف) کے قانونی جواز کو چیلنج کیا ہے۔ اس کے جواب میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایاکہ ریاستی حکومتیں بھی ہندوؤں سمیت دیگر مذہبی اور لسانی برادریوں کو اپنی ریاستی حدود میں اقلیت قرار دے سکتی ہیں۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ ریاستی حکومتیں ریاستی حدود میں ہندوؤں سمیت مذہبی اور لسانی برادریوں کو اقلیت قرار دے سکتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، مرکزی حکومت نے یہ دلیل بی جے پی لیڈر اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی ایک عرضی کے جواب میں دی ہے، جس میں انہوں نے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایکٹ 2004کی دفعہ 2(ایف) کے قانونی جواز کو چیلنج کیا ہے۔

اپادھیائے نے اپنی درخواست میں، دفعہ 2(ایف) کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئےکہا  ہےکہ یہ مرکز کو بہت زیادہ اختیار دیتا ہے جو ‘واضح طور پرمن مانا، غیر منطقی اور تکلیف دہ’ ہے۔

درخواست گزار نے ملک کی مختلف ریاستوں میں اقلیتوں کی شناخت کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ملک کی کم از کم 10 ریاستوں میں ہندو بھی اقلیت میں ہیں، لیکن انہیں اقلیتی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا۔

اقلیتی امور کی وزارت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ہندو، یہودی، بہائی مذہب کے پیروکار مذکورہ ریاستوں میں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اور چلا سکتے ہیں اور ریاست کے اندر اقلیت کے طور پر اپنی شناخت سے متعلق معاملات پر ریاستی سطح پر غور کیاجاسکتا ہے۔

وزارت نے کہا، یہ (قانون) کہتا ہے کہ ریاستی حکومت ریاستی حدود میں مذہبی اور لسانی برادریوں کو بھی اقلیت قرار دے سکتی ہے۔

وزارت نے کہا،مثال کے طور پر مہاراشٹرحکومت کی حدود میں ‘یہودیوں’ کو اقلیت قرار دیا گیا ہے، جبکہ کرناٹک سرکار نے اردو، تیلگو، تمل، ملیالم، مراٹھی، تولو، لمنی، ہندی، کونکنی اور گجراتی زبانوں کو اپنی سرحدوں میں اقلیتی زبان قرار دیا ہے۔

مرکز نے کہا،اس لیےریاستیں بھی اقلیت قرار دےسکتی ہیں۔ عرضی گزار کا الزام ہے کہ یہودی، بہائی اور ہندو مذہب کے پیروکار جو لداخ، میزورم، لکشدیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل پردیش، پنجاب اور منی پور میں حقیقت میں اقلیت ہیں، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم نہیں کرسکتے اوراس کو چلا نہیں سکتے،  غلط ہے۔

وزارت نے کہا کہ یہودی، بہائی اور ہندو مت کے پیروکاریا وہ لوگ جنہیں ریاستی حدود میں اقلیتوں کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے، مذکورہ ریاستوں میں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اور اس  کوچلا سکتے ہیں۔اس پر  ریاستی سطح پر غورکیا جا سکتا ہے۔

وزارت کی طرف سے داخل کیے گئے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ 1992 کو پارلیامنٹ نے آئین کے آرٹیکل 246 کے تحت نافذ کیا ہے، جسے ساتویں شیڈول کے تحت کنکرنٹ لسٹ کے اندراج 20 کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔

وزارت نے کہا، اگر یہ نظریہ قبول کر لیا جائے کہ اقلیتوں کے معاملات پر قانون بنانے کا اختیار صرف ریاستوں کے پاس ہے تو ایسی صورت میں پارلیامنٹ کو اس موضوع پر قانون بنانے کے اس اختیار سے محروم کر دیا جائے گا جو آئین کے خلاف ہوگا۔

مرکز نے کہا، قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ 1992 نہ تو من مانا ہے اور نہ ہی غیر منطقی ہے اور نہ ہی یہ آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

وزارت نے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ آرٹیکل 2(ایف) مرکز کو بے پناہ اختیار دیتا ہے۔

ایڈوکیٹ اشونی کمار دوبے کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ ‘حقیقی اقلیتوں کو فائدہ دینے سے انکار اور اسکیم کے تحت ‘من مانا اور غیرمنطقی’ تقسیم ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

عرضی میں کہا گیاہے کہ ،متبادل طور پر ہدایت دی جا ئے کہ لداخ، میزورم، لکش دیپ، کشمیر، ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل پردیش، پنجاب اور منی پور میں رہنے والے یہودی، بہائی اور ہندو مذہب کے پیروکار اپنی مرضی اور ٹی ایم اے پئی کے فیصلے کے تحت تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں اوراس کو چلاسکتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ٹی ایم اے پئی فاؤنڈیشن کیس میں فیصلہ سنایا تھا کہ ریاست کو اپنی حدود میں اقلیتی اداروں میں قومی مفاد میں اعلیٰ صلاحیت والے اساتذہ مہیا کرانے کے لیے ریگولیٹری نظام کو نافذ کرنے کا حق ہے تاکہ تعلیم میں بہتری لائی جا سکے۔

واضح ہو کہ عدالت نے اس سےپہلےمرکز کی جانب سے پانچ برادریوں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھسٹوں اور پارسیوں کو اقلیت قرار دینے کے خلاف مختلف ہائی کورٹس میں دائر درخواستوں کو سپریم کورٹ میں منتقل کرنےاور کلیدی عرضی کے ساتھ شامل کرنے کی اجازت دی تھی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس کول اور ایم ایم سندریش کی بنچ نے اس سے قبل اپادھیائے کی عرضی پر اسٹینڈ نہ لینےکی وجہ سے مرکزی حکومت پر 7500 روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ بنچ اب اس معاملےپر سوموار کو سماعت کرے گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)