
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر عائد کیے گئے تجارتی جرمانوں نے ہندوستانی وزرا اور اہلکاروں کو ماسکو اور بیجنگ کی طرف دوڑنے پر مجبور کردیا ہے، مگر وہ اس کو ‘اسٹریٹجک چابک دستی’کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ اس چابک دستی کو ہندوستان کی مجبوری گر دانتے ہیں اور اس کی پوری وصولی کریں گے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ ای کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی، فوٹو بہ شکریہ: @narendramodi on X via PTI
ایک عرصے تک ایشیا پیسفک میں مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرانے اور چین کا مقابلہ کرنے کا خواب سجانے کے بعد حالیہ امریکی سردمہری نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو مکمل یو ٹرن لینے پر مجبور کر دیا ہے۔
ایک بار پھر ہندوستان، چین کے ساتھ تعلقات کو استوارکرکے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے بندوبست کرنے کے فراق میں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ وزیراعظم نریندر مودی کے زخموں پر نمک پاشی کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں۔
حال ہی میں اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک قریبی معتمد سرگئی گور کو ہندوستان میں امریکی سفیر مقررکرنے کا اعلان کیا ہے۔سفیر کے ساتھ ان کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے خصوصی ایلچی بھی نامزد کردیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کو دوبارہ پاکستان اور افغانستان پالیسی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
دوہری ذمہ داری کے باعث گورنئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرتے رہیں گے اور ایک طرح سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جس امریکی ثالثی سے مودی حکومت انکار کرتی رہی ہے، وہ اب اصل اور عملی شکل میں سامنے آجائےگی۔ ٹرمپ نے کھلے عام کہا ہے کہ گو ر اس خطے میں ان کا ایجنڈا آگے بڑھائیں گے۔
امریکہ کے ساتھ آئی اس سردمہری اور پھر یورپ سمیت مغربی ممالک کی طرف سے روسی تیل خرید کر صاف کرنے کے بعد مہنگے داموں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرنے پر ہندوستان کی سرزنش کرنے کے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ چین کے ساتھ پانچ برس کی منجمد کیفیت، جو 2020 کے گلوان تصادم کے بعد پیدا ہوئی تھی، کو از سر نو استوار کرنے کے لیے شد و مد سے کام کرہی ہے۔
اسی سلسلے میں پچھلے دو ماہ سے مودی کی ایما پر وزیر خارجہ جئے شنکر اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال بیجنگ کے دوروں پر گئے اور پھر 18 اور19اگست کو چینی وزیر خارجہ وانگ ای کی نئی دہلی آمد ہوئی۔
دونوں ملکوں نے سفر اور تجارت کی سہولت کی بحالی، سرحدی نظم و نسق کے طریقہ کار کی ازسرنو تشکیل، اور وزیر اعظم نریندر مودی چینی شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کرنے کے علاوہ چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کر رہے ہیں۔
نئی دہلی میں چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ مودی کو خطے کو پرسکون رکھنے کی تلقین کریں گے اور اس لیے وہ ان کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور جنگوں سے گریز کرنے کا مشورہ دیں گے، تاکہ خطے میں براہ راست امریکی مداخلت کو روکا جائے۔ بیجنگ بھی فی الحال ہمالیہ کے محاذ کو پر سکون رکھنا چاہتا ہے،تاکہ وہ اپنی اصل توجہ امریکہ ا ور تائیوان کے مسئلے پر مرکوز رکھ سکے۔
ہندوستانی سفارت کاری کے تئیں امریکی صدر ٹرمپ جس طرح اضطراب کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس سے قبل چین بھی اس کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ چاہے بین الاقوامی سفارت کاری ہو یا داخلی سیاسی مسائل، ہندوستان کا پورا زور ہی حالات کو اسٹیٹس کو یعنی جو ں کا توں رکھنے میں لگا رہتا ہے۔
یعنی کسی کو میز پر لا کر اس کو بس مذاکرات برائے مذاکرات کراکے اتنا تھکا دو کہ اصل مسئلہ ہی کہیں دب جائے اور فریق بس بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ کشمیر میں شیخ عبد اللہ، میزورم میں لال ڈنگا، پنجاب میں اکالیوں پر اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ ناگالینڈ میں مودی 2015سے اس تجربہ کو دہرا رہے ہیں۔
یہی کچھ موقف ہندوستان کا بین الاقوامی محاذ پر بھی ہوتا ہے۔ٹرمپ نے اپنی پہلی ہی مدت اقتدار کے دوران ہندوستانی حکومت کو تجارت کے توازن اور محصولات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔
مودی نے اپنے امریکی دورہ کے دوران تجویز دی تھی کہ ہندوستان کی طرف سے اس وقت کے وزیر تجارت سریش پربھو، امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کے ساتھ گفت و شنید کریں گے۔ منوچن کے مطابق جب پربھو واشنگٹن آکر بات چیت کرتے تھے، تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ نئی دہلی واپس جاکر وہ اپنی سیاسی قیادت سے مشورہ کریں گے۔
پھر ہفتوں تک امریکی وزیر خزانہ کا فون ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ پھر کسی دن دوبارہ بات چیت کی تاریخ طے کرکے پھر واشنگٹن آتے تھے۔ یہی کرتے کرتے ٹرمپ کے چار سال نکال دیے گئے۔
چونکہ جوائے بائیڈن کے لیے چین کے مقابلے ہندوستان کو کھڑا کرنا ترجیحات میں تھا، اس لیے وہ ہندوستان کو مراعات دیتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے اس مذاکرات برائے مذاکرات کے کھیل کو سمجھ کر اس بار فروری میں ہی مودی کے ساتھ وہائٹ ہاوس میں ہوئی ملاقات کے دوران اشاروں کنایوں میں بتایا تھا کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات چاہتے ہیں تاکہ تجارتی توازن جو بہت زیادہ ہندوستان کے حق میں ہو، اس کو ہموار کیا جاسکے۔
مگر مودی اور ان کی ٹیم اس زعم میں مبتلا تھے کہ ایشیا پیسفک میں جس طر ح وہ امریکی مفادات کی نگرانی کرتے ہیں اس لیے ان کو مراعات ملتی رہیں گی اور مذاکرات پر مذاکرات کرواکے ٹرمپ کے یہ چار سال بھی نکل جائیں گے۔
ان کو شاید اس بات کا ادراک نہیں تھا ایک تو ٹرمپ لین دین والے کاروباری لیڈر ہیں اور دوسرا اس بار ان کو مسائل کو نپٹانے میں جلدی ہے، تاکہ امریکی تاریخ میں وہ یاد کیے جائیں، کیونکہ اگلی بار وہ صدارتی انتخاب کے امیدوار نہیں ہوسکتے ہیں۔
فروری میں ٹرمپ کے اشاروں کنایوں کے بعد 26 مارچ کو کیپٹل ہل میں ہندوستان اور امریکہ کی تزویراتی شراکت پر ہوئی بریفنگ میں امریکی ایوان نمائندگان کے 435 اراکین میں صرف 11 نے شرکت کی۔
جب سے 1993 میں کانگریشنل کاکس کا وجود میں آیا ہے، یہ سب سے کم شرکت تھی۔ کانگریس کے اراکین کی عدم دلچسپی سے اندازہ لگایا جانا چائے تھا کہ تعلقات انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس بریفنگ کا اہتمام یو ایس۔انڈیا اسٹریٹجک پارٹنرشپ فورم نے کیا تھا۔
چند سال قبل چین کو بھی اسی طرح کی شکایت تھی کہ سفارتی سطح پر ہندوستان تنازعات کو سلجھانے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے، بلکہ مذاکرات کو طول دے رہا ہے۔ 1988میں راجیو گاندھی نے بیجنگ جاکر نئے تعلقات کی داغ بیل ڈالی تھی۔
چینی رہنما صدر یانگ شانگ کن، وزیر اعظم لی پنگ اور ملٹری کمیشن کے سربراہ دنگ زیاو پنگ اس وقت چین کو ایک تجارتی اور مینوفیکچرنگ مرکز بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوتے تھے۔ اپنے اردگرد 14میں سے 13ممالک کے ساتھ چین سرحدی تنازعہ سلجھانے کی تگ و دو کررہا تھا، تاکہ اس کی پوری توجہ معاشی ایشوز کی طرف مرکوزرہے۔ صرف ہندوستان واحد ملک تھا، جس کے ساتھ سرحدی تنازعات کے سلسلے میں کوئی میکانزم موجود نہیں تھا۔
راجیو گاندھی کے دورہ کے دوران سرحدی تنازعات کو سلجھانے کے لیے دونوں ملکوں کے فارن دفاتر میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے۔ سال 1993میں وزیر اعظم نرسہما راؤنے اس سعی کو اورآگے لے جاکر سرحدوں کو پرامن رکھنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجی پارٹیاں ہتھیاروں کے بغیر پٹرولنگ کرکے واپس اپنے کیمپوں میں چلی جائیں گی اور متنازعہ علاقوں میں جانے سے قبل ایک دوسر ے کو مطلع کریں گی۔
اس کے علاوہ ان علاقوں میں کوئی انفراسٹرکچر کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ 2003میں چین نے شکایت کی کہ فارن دفاتر کے ورکنگ گروپ تنازعہ کو سلجھانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بیجنگ آمد پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ اس مسئلہ کو فارن آفس سے لے کرہندوستانی وزیر اعظم اور چینی صدر کے قریبی معتمدوں کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح خصوصی نمائندو ں کا تقرر ہوا۔
ہندوستان کی طرف سے طے ہوا کہ قومی سلامتی مشیر، چونکہ ہمہ وقت وزیر اعظم کے رابطہ میں رہتا ہے، وہ چینی ہم منصبوں کے ساتھ گفت وشنید کرےگا۔ ابھی تک دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں نے 50ادوار کے مذاکرات کیے ہیں۔
سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو ایک بار بتایا کہ خصوصی نمائندو ں کا رول اب ختم ہو چکا ہے۔ مینن، جنہوں نے پانچ سال تک یہ فریضہ انجام دیا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب دائی بنگو کے ساتھ مل کر لو اور دو کے فارمولہ کے تحت ایک حل ترتیب دیا تھا، جو سیاسی قیادت کی بصیرت اور جرأت کا منتظر ہے۔
دائی بنگو نے اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک چینی جرنل میں لکھا تھا کہ انہوں نے تجویز دی تھی کہ گراؤنڈ پوزیشن کا احترام کرتے ہوئے، دونوں ممالک یعنی ہندوستان لداخ میں اکسائی چن پر اور چین شمال مشرق میں اروناچل پردیش پر دعویٰ واپس لے لیں اور پھر باقی سیکٹرز میں جو بارڈر پر تقریباً پانچ کیلومیٹر کا تفاوت ہے اس کو بھی مختلف سیکٹرز میں لو اور دو کے اصول کے تحت حل کرلیں۔
مگر ہندوستان کی طرف سے اس تجویز کا کوئی جواب نہیں آیا اور وہ ہر سال خصوصی نمائندوں کی میٹنگ کبھی بیجنگ اور کبھی دہلی میں طلب کرتا ہے۔
چینی فارن آفس کی دعوت پر دہلی میں کام کرنے والے تین صحافیوں نے 2016 میں تبت کا ایک تفصیلی دورہ کیا تھا۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ تبت اور یننان صوبہ کے شنگریلا علاقے سے واپسی پر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے سینئر افسران نے ہمیں بریفنگ میں بتایا کہ ان کا ملک مذاکرات برائے مذاکرات کا قائل نہیں ہے۔
اگر مذاکرات حل کی طرف گامزن نہ ہوں، تو وہ وقت اور قومی وسائل برباد نہیں کرسکتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذریعے ایک براہ راست وارننگ پہنچائی گئی تھی کہ مذاکرات کے سلسلے میں چین کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔اس کے بعد ہی سرحد پر کشیدگی اور جھڑپوں کی وارداتیں پیش آئیں۔
خیر ابھی چینی وزیر خارجہ کے دورہ کے دوران اب طے پایا گیا کہ سرحدی تنازع پر خصوصی نمائندوں کی بات چیت بحال کی جائے، تکنیکی حل کے لیے ماہرین کا گروپ بنایا جائے اور مشرقی و درمیانی سیکٹرز میں سرحدی تنازعہ کو سلجھانے کیلئے نئے سطح کے طریقہ کار تشکیل دیے جائیں۔
ہندوستانی یاتریوں کے لیے تبت میں کیلاش مانسروور یاترا کی بحالی کا اعلان بھی کیا گیا۔براہ راست پروازیں اور چینی سیاحوں و صحافیوں کے ویزے دوبارہ جاری ہوں گے۔لپولیکھ، شپکی لا اور ناتھو لا پر سرحدی تجارتی مراکز دوبارہ کھولے جائیں گے۔چین نے نایاب معدنیات، کھادوں اور سرنگ کھودنے والی مشینوں پر عائد پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا جو ہندوستانی صنعت کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔
بیجنگ نے بین السری آبی گزرگاہوں خصوصاً برہم پتر کے بارے میں ہنگامی صورتحال میں ہائیڈرو لوجیکل ڈیٹا فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔بیجنگ نے دعویٰ کیا کہ جئے شنکر نے اعادہ کیا کہ ‘تائیوان چین کا حصہ ہے۔’ مگر ہندوستان نے بعد میں وضاحت کی کہ اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نئی دہلی ایک چین پالیسی کو تسلیم کرتا ہے لیکن تائیوان سے اقتصادی، ثقافتی اور ٹکنالوجی تعلقات برقرار رکھے گا۔یعنی ایک گول مول سی وضاحت تھی، مگر چینی وزارت خارجہ نے اس وضاحت پر ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، جب ہندوستانی وزیر خارجہ نے بند کمرے میں دوطرفہ ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ ان کا ملک تائیوان کو چین کا حصہ سمجھتا ہے۔
تزویراتی حساب کتاب کے مطابق چین نہیں چاہتا کہ اس کی سرحدوں پر فی الحال کوئی ہلچل ہو۔تاکہ وہ بحرالکاہل میں امریکہ کے ساتھ کسی ممکنہ فوجی تصادم کے لیے تیار رہے۔ چین ہندوستان کے ساتھ صلح آمیز تعلقات پر آمادہ رہا، مگر سمجھتا ہے کہ نئی دہلی امریکی اثر کے تحت پانی گدلا کر رہا ہے۔ہندوستان نے ہمیشہ اپنی ایشیا پیسیفک حکمت عملی کے مرکز میں امریکہ کو رکھا تھا۔ مگر یہ داؤ ناکام ہوا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ معاہدہ یعنی ٹی پی پی سے نکل کر امریکہ کے ایشیا جھکاؤ کو کھوکھلا کر دیاتھا۔ دوسرے دور میں بھی ٹرمپ نے چین کے مقابلے میں ایشیا پیسیفک اتحاد کو سنبھالنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔اب ایک طرف چین جیسا طاقتور ہمسایہ جس سے تعلقات کشیدہ ہیں، دوسری طرف امریکہ کی عدم توجہی نے ہندوستانی خارجہ پالیسی کی پول کھول کر رکھ دی۔
ہندوستان بھی فی الحال چین کے ساتھ براہ راست تصادم کو ٹالنا چاہتاہے، تاآنکہ وہ دو محاذوں پر لڑنے کے قابل ہو جائے۔ ہندوستان میں یہ احساس اب گھر کر گیا ہے، کہ وہ اب صرف واشنگٹن پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔
مالی سال 2024–25 میں ہندوستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 99.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جس میں الکٹرانکس، بیٹریوں اور کیمیکلز پر شدید انحصار ہے۔ دونوں نے بنیادی تنازعات ترک نہیں کیے، لیکن دونوں سمجھتے ہیں کہ فی الحال تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ وانگ نے بھی تسلیم کیا کہ’پچھلے چند برس میں جو رکاوٹیں آئیں وہ ہمارے مفاد میں نہیں تھیں۔’
معروف ہندوستانی تجزیہ کار بھارت بھوشن کے مطابق امریکہ کے سہارے عظمت کے خواب دیکھنے والا ہندوستان اس وقت تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اس لیے خارجہ پالیسی کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سیاسی قیادت اندھی وفاداری کو اپنی خوبی سمجھتی ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر عائد کیے گئے تجارتی جرمانوں نے ہندوستانی وزرا اور اہلکاروں کو ماسکو اور بیجنگ کی طرف دوڑنے پر مجبور کردیا ہے، مگر وہ اس کو ‘اسٹریٹجک چابک دستی’کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ مگر ماسکو اور بیجنگ اس چابک دستی کو ہندوستان کی مجبوری گر دانتے ہیں اور اس کی پوری وصولی کریں گے۔ کل تک ہندوستانی حکومت چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کال دے رہی تھی، چین کو اسٹریٹجک خطرہ کے بطور پیش کیا جار رہا تھا۔ اب وہی لیڈران اس کو شراکت داربنا کر پیش کر رہے ہیں۔
چین کو پہلے ہی ہندوستان کی کمزور اسٹریٹجک بصیرت کا ادراک تھا۔ اسے یہ بھی بخوبی اندازہ تھا کہ ہندوستان کی قیادت دعووں سے زیادہ عمل میں کمزور ہے۔ یہی کمزوری اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ہندوستان نے لداخ میں 2020ء کی چینی دراندازیوں کو تسلیم کرنے سے بھی گریز کیا۔
اصل ناکامی مگر ان مشیروں کی ہے جنہوں نے مودی کو یقین دلایا کہ ہندوستان کی عظمت کا راستہ خطے کے مسائل کو حل کرنے اور امن قائم کرنے کے بجائے واشنگٹن سے ہوکرگزرتا ہے۔ انہی کے دباؤ پر ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ ‘کواڈ’، دفاعی معاہدے اور بحرالکاہل حکمت عملی میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن یہ سب ہندوستان کو امریکی معاشی دباؤ سے نہ بچا سکے۔ اس یکطرفہ جھکاؤ نے دوسرے تعلقات کو نظرانداز کر دیا۔
سرحدی تنازعہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ چین نے اپنی تجویز کو دہرایا کہ پہلے سکّم سیکٹر کا قضیہ حل کیا جائے، کیونکہ یہ سب سے کم متنازعہ ہے۔ وہ 1890 میں سکّم کی ریاست اور چین کی چنگ سلطنت کے درمیان ہوئے معاہدہ کو لاگو کرکے اس کی توثیق چاہتا ہے۔
اس کے لیے خصوصی نمائندوں کا میکنزم بنایا گیا ہے، جو معاہدوں کی مختلف شقوں کی وضاحت کریں گے۔ پہلی بار 2017 میں ہندوستان میں اس وقت کے چینی سفیر لوو ژاہوئی نے نئی دہلی میں ایک تھنک ٹینک کے اجلاس کے دوران سکم سیکٹر کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی تجویز دی تھی، مگر اس کے چند ماہ بعد ہی دوکلم تنازعہ شروع ہوا اور ہندوستانی فوجی سکّم سے بھوٹان میں داخل ہوگئے تھے تاکہ چین کو جمفیری رِج کی طرف سڑک بنانے سے روک سکیں۔اس سے سکّم کی سرحد کو باقی تین متنازعہ ہندوستان-چین سرحدی حصوں یعنی مغربی، درمیانی اور مشرقی حصوں سے الگ کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق چین نے یہ تجاویز پھر باقاعدہ طور پر اگست 2019 میں بیجنگ میں وزیرِ خارجہ ایس جئے شنکر سے وانگ یی کی ملاقات کے دوران پیش کی تھی۔ ہندوستان میں اس کو ایک اسٹریٹجک جال کے طور پر دیکھا گیا۔ مودی حکومت کے قریبی سابق ہندوستانی خارجہ سکریٹری کنول سبّل کے مطابق یہ تجویز 2005 کے اُس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس میں سرحدی تنازعے کے حل کے رہنما اصول طے کیے گئے تھے اور جس میں واضح لکھا ہے کہ یہ ایک پیکیج ڈیل ہوگی۔ہندوستانی تجزیہ کاروں کے مطابق کہ سکّم سیکٹر کے حل ہونے کے بعد چین بھوٹان کے ساتھ اپنی سرحد طے کرکے دوکلم کے پہاڑی خطوں کو ضم کریگا۔
ہندوستان کے ایک سابق آرمی چیف کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان سکّم کا معاملہ طے کر دیتا ہے، جہاں وہ چمبی ویلی اور شمال میں فنگر ایریا پر حاوی ہے، تو چین اپنی چمبی ویلی کی حدود کو بڑھائے گا اور مغربی بنگال کے سلیگُڑی کاریڈور پر دباؤ بڑھائے گا، جو شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ واحد زمینی لنک ہے۔ اس کا اثرہندوستان-چین-بھوٹان کے سہ سرحدی مقام باتانگ لا پر پڑے گا، اور چین ممکنہ طور پر جمفیری رِج تک اپنی رسائی بڑھا لے گا، جہاں سے پورا سلیگُڑی کاریڈاس کی دسترس میں ہوگا۔
کئی برسوں کی مزاحمت کے بعد19 اگست 2025 کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے اتفاق کر لیا ہے کہ ‘ورکنگ میکنزم برائے مشاورت و رابطہ (ڈبلیو ایم سی سی ) کے تحت ایک ماہرین کا گروپ تشکیل دیا جائے گا جو ہندوستان -چین سرحد کے حصوں امکانات کا جائزہ لے گا۔وزیرِ اعظم مودی سے وانگ یی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے چینی بیان میں کہا گیا کہ ‘سرحدی مسئلے پر نیا اتفاق رائے ہوا ہے… اور اُن حصوں میں سرحدی مذاکرات شروع کرنے پر بات ہوئی ہے جہاں حالات سازگار ہیں۔
یہ معاہدہ اُس وقت ہوا ہے جب چین اپنی سرحدی بنیادی ڈھانچے اور فوجی صلاحیتوں کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) دوکلم کے پہاڑی علاقے میں مضبوطی سے جم چکی ہے اور جمفیری رِج تک پہنچنے کے متبادل راستے تلاش کر چکی ہے۔ اب یہ ہندوستان کی دور اندیشی ہے یا سفارتی ہزیمت، وقت ہی اس کا فیصلہ کرےگا۔
ویسے بھی چین کے موجودہ وزیر خارجہ کو وانگ یی کو مغربی تجزیہ نگار ‘سلور فاکس’ یا ‘چاندی کی لومڑی’ کہتے ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسے سیاستدان ہیں، جو نرم لہجے اور صبر آزما حکمت عملی کے ذریعے مخالف کو تھکاتا ہے، اور بالآخر اپنی شرائط منواتا ہے۔
ان کی سفارت کاری کا انداز زیادہ تر رسمی اور بیوروکریٹک دکھائی دیتا ہے، لیکن ان کے پیچھے کئی دہائیوں کا تجربہ ہے۔ا ن کو ایک محتاط مگر سخت گیر سفارتکار سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مشہور جملہ ہے”بیجنگ کا طریقہ کار یہ ہے کہ نرم لہجے میں سخت موقف اختیار کیا جائے۔’ وہ اکثر اپنی حکمت عملی کو ایک کہاوت کے ذریعے بیان کرتے ہیں؛’جب ہم کہتے ہیں کہ ایک بات دو بار دہرائی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اسے دو بار عمل میں لائیں گے۔’