میساچیوسٹس واقع ڈیجیٹل فرانزک فرم، آرسینل کنسلٹنگ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹین سوامی تقریباً پانچ سال تک ایک میل ویئر مہم کے نشانے پر تھے، جب تک کہ جون 2019 میں پولیس نے ان کے آلات کو ضبط نہ کر لیا۔
فادر اسٹین سوامی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ایک نئی ڈیجیٹل
فرانزک رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ کارکن اسٹین سوامی کے لیپ ٹاپ میں ان کو ‘پھنسانے والے ‘دستاویز پلانٹ کیے گئے تھے۔
غور طلب ہے کہ ایلگار پریشد معاملے میں ملزم بنائے گئے اسٹین سوامی کا گزشتہ سال
انتقال ہو گیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، میساچیوسٹس واقع ڈیجیٹل فرانزک فرم، آرسینل کنسلٹنگ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘اسٹین سوامی تقریباً پانچ سال تک ایک میل ویئر مہم کے نشانے پر تھے، جب تک کہ جون 2019 میں پولیس نے ان کے آلات کو کو ضبط نہ کر لیا۔ ‘
واشنگٹن پوسٹ نے آرسنل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ ‘اس عرصے میں ہیکر نے سوامی کے کمپیوٹر پر مکمل رسائی اور کنٹرول حاصل کر لیا اور درجنوں فائلوں کو ان کے علم میں لائے بغیر ایک خفیہ فولڈر میں منتقل کر دیا۔’
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے 8 اکتوبر 2020 کو ان کو گرفتار کیا تھا۔ وہ اس کیس کے سلسلے میں گرفتار ہونے والے اور جون 2018 کے بعد سےملزم بنائے جانے والے 16ویں شخص تھے۔
رپورٹ کے مطابق، ان دستاویزوں بشمول’
ماؤنوازوں کو مبینہ خط’ کو پولیس نے سوامی اور دیگر کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔
این آئی اے نے اخبار کی طرف سے اس سلسلے میں تبصرہ کرنے کی گزارش کا جواب نہیں دیا۔
بتایا گیا ہے کہ سوامی کے وکیلوں کی اپیل پر آرسنل کے ذریعے سوامی کے کمپیوٹر کی الکٹرانک کاپی کی جانچ کے بعد یہ نئے نتائج جاری کیے گئے۔
آرسنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوامی کا لیپ ٹاپ اکتوبر 2014 کے اوائل میں نیٹ وائر سے متاثر ہوا تھا۔ نیٹ وائر ایک میل ویئر ہے جو پاس ورڈ کی چوری اور کی لاگنگ پر مرکوز ہے اور اسےریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہیکر نےسوامی کے کمپیوٹر سے 24000 سے زائد فائلوں اور فولڈرز کو اپنے سرور پر کاپی کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا، ’11 جون 2019 کی رات سوامی کے کمپیوٹر کو پولیس کے قبضے میں لینے سے چند گھنٹے قبل، ہیکر نے اپنی سرگرمیوں کو مکمل طور پر صاف کر دیا تھا۔’
اہم بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ایک ہیکر نے کارکن رونا ولسن اور وکیل سریندر گاڈلنگ کو نشانہ بنایا تھا، دونوں ایلگار پریشد کیس کے ملزم تھے۔
گزشتہ سال دسمبر میں، آرسنل کنسلٹنگ نے تصدیق کی تھی کہ ولسن 6 جون 2018 کو اپنی گرفتاری سے تقریباً ایک سال پہلے تک نگرانی اور ان کو قصوروار ٹھہرائےجانے والے دستاویزوں کے ڈسٹری بیوسن، دونوں کے شکار تھے۔
جون میں، ٹیک میگزین
وائرڈ نے ایک امریکی سائبر سکیورٹی فرم سینٹینیل ون کے محققین کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کارکن ولسن، ورورا راؤ اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو کے ای میل اکاؤنٹس کی ہیکنگ کا تعلق پونے پولیس سے تھا۔