سابق سی جے آئی اور راجیہ سبھا ایم پی رنجن گگوئی نے اپنی سوانح عمری‘جسٹس فار دی جج’کے اجرا میں کہا کہ انہیں سپریم کورٹ کی ملازمہ کی طرف سے ان پر لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کی شنوائی میں جج نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گگوئی نے کہا، ‘ہم سبھی غلطیاں کرتے ہیں۔ اسے قبول کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔’
سابق سی جے آئی ایس اے بوبڈے کے ساتھ اپنی کتاب کے اجرا میں سابق سی جے آئی اور راجیہ سبھا ایم پی رنجن گگوئی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ہندوستان کے سابق چیف جسٹس اور راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ رنجن گگوئی، جنہیں ایودھیا اراضی تنازعہ کے حساس معاملے کو حل کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، نے بدھ کو کہا کہ انہیں اپنے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات کی سماعت کرنے والی بنچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا،‘ہم سب غلطی کرتے ہیں اور اسے قبول کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔’
اپنی سوانح عمری‘جسٹس فار دی جج’کے اجرا کے موقع پر سابق چیف جسٹس گگوئی نے متنازعہ امورسمیت تمام معاملوں پر بات کی۔ انہوں نے 46ویں چیف جسٹس کے طور پر اپنی مدت کار کے دوران راجیہ سبھا کی رکنیت کے عوض ایودھیا پر فیصلہ سنانے سے متعلق الزامات کی سختی سے تردید کی۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، گگوئی نے اجرا کے دوران ایک نجی ٹی وی چینل سے کہا، ‘مجھے اس بنچ میں نہیں ہونا چاہیے تھا (جس نے ان کے خلاف مبینہ جنسی ہراسانی کے معاملے کی شنوائی کی تھی)۔ میں اس لیے اس بنچ میں تھا کیونکہ میری 45 سال کی کڑی محنت سے بنی عزت برباد ہو رہی تھی۔ میں بنچ کا حصہ نہیں ہوتا، تو شاید اچھا ہوتا۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ اسے قبول کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ نے جسٹس گگوئی پر جنسی ہراسانی کےالزام لگائے تھے، جس کانوٹس لیتے ہوئے عدالت نے جسٹس گگوئی کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ بنائی تھی۔
اپنی پہچان ظاہر نہ کرنے والی سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ کا کہنا تھا کہ سال 2018 میں سی جے آئی گگوئی نے ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کی تھی۔ اس واقعہ کے کچھ ہفتوں بعد ہی انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔
جسٹس گگوئی نے جنسی ہراسانی کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ‘سی جے آئی کے دفتر کوغیر فعال کرنے’ کی ‘بڑی سازش’ کا حصہ تھا۔
اپریل 2019 میں انہوں نے ایک حلف نامے میں اپنا بیان درج کرکے عدالت کے 22 ججوں کو بھیجا تھا، جس کے بعد ایک انٹرنل جانچ کمیٹی بنائی گئی تھی ، جس میں اس وقت سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس اندو ملہوترا شامل تھے۔
متاثرہ خاتون نے معاملے کی شنوائی شروع ہونے کے کچھ دن بعد کمیٹی کے ماحول کو ڈراونا بتاتے ہوئےاس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ شکایت گزار نے عدالت میں اپنے وکیل کی موجودگی کی اجازت نہیں دیے جانے سمیت کئی اعتراضات کرتے ہوئے آگے کمیٹی کے سامنے نہ پیش ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کے بعد جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی اس کمیٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ ‘خاتون کے الزامات میں دم نہیں ہے’ گگوئی کو کلین چٹ دے دی تھی۔
کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد خاتون نے پریس ریلیز جاری کرکے کہا تھا کہ وہ بے حد مایوس ہیں۔ ملک کی ایک خاتون کے طور پر ان کے ساتھ شدید ناانصافی ہوئی ہے، ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت سے انصاف کی ان کی امیدیں پوری طرح ختم ہو گئی ہیں۔
اس معاملے کی شنوائی تب ہوئی تھی، جب دی وائر سمیت تین میڈیا اداروں کارواں، اسکرول اور قانونی ویب سائٹ دی لیف لیٹ نےجج کے خلاف ان الزامات کوخاتون کے حلف نامے کے ساتھ شائع کیا تھا۔
گگوئی کے خود اس معاملے کی شنوائی میں رہنے کی تب بھی نکتہ چینی ہوئی تھی۔ اس وقت وکیل دشینت دوے نے دی وائر سے کہا تھا، ‘کوئی بھی اپنے ہی معاملے میں جج نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ سی جے آئی بھی نہیں۔ اس طرح سے عدالتی اختیارات کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔’
بدھ کو کتاب کے اجرا کے دوران گگوئی نے کہا کہ جسٹس بوبڈے، جو ان کی جگہ لینے کے لیے قطار میں تھے اور کمیٹی کی سربراہی کر رہے تھے، کے پاس ذاتی فائدے کے لیے انہیں قصوروار ٹھہرانے کی وجہ تھی۔
گگوئی نے کہا کہ جسٹس بوبڈے انہیں قصور قرار دےکر خوش ہو سکتے تھے اور انہیں سات مہینے کی اضافی مدت ملتی۔
سابق سی جے آئی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی ملازمہ کو ان کی مدت کار کے دوران بحال کیا گیا تھا، نہ کہ سی جے آئی بوبڈے کی مدت کار کے دوران۔
قابل ذکر ہے کہ جون 2019 میں خاتون کے شوہر اور دیور کو دہلی پولیس نے بحال کر دیا تھا۔ اس کے بعد جنوری 2020 میں ان خاتون ملازمہ کی بھی نوکری بحال کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا،‘میری مدت کے دوران خاتوں کو بحال کر دیا گیا۔ انہوں نے جسٹس بوبڈے کو خط لکھ کرانسانی بنیادوں پرتقرری کی مانگ کی تھی۔انہوں نے (جسٹس بوبڈے)مجھ سے پوچھا (کیا کرنا ہے) اور میں نے کہا ‘اس سے نمٹو’۔ جسٹس بوبڈے نے انہیں بحال کیا۔ انہوں نے دو دیگر ملازمین کو بحال کیا۔’
غورطلب ہے کہ دی وائر نے اس سال جولائی میں انکشاف کیا تھا کہ خاتون اور اس کے اہل خانہ کے ممبروں کے فون نمبر کوگگوئی کے خلاف الزام لگانے کے کچھ دنوں بعد پیگاسس سافٹ ویئر کے توسط سے نگرانی کی ممکنہ فہرست میں رکھا گیا تھا۔
ایودھیا فیصلہ، راجیہ سبھا نامزدگی
گگوئی نے ان کی مدت مکمل ہونے کے فوراً بعد راجیہ سبھا کے لیے ان کی نامزدگی نے ایگزیکٹو اور عدلیہ کے الگ ہونے پر سوال کھڑے کر دیے تھے۔
گگوئی کی سربراہی والی بنچوں نے کئی ان معاملوں میں فیصلہ دیا جو سرکار کے لیےاہم تھے– جیسے کہ رافیل معاملہ،سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کی برخاستگی، ایودھیا تنازعہ – اپوزیشن پارٹیوں نے ان کی نامزدگی کے قدم کو کوڈ پرو کوو یعنی کسی بات کے عوض میں کیا ہوا بتایا تھا۔
جسٹس گگوئی نے بدھ کو ایک بار پھر ان الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘مجھے ان الزامات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایودھیا فیصلے کے عوض مجھے راجیہ سبھا سیٹ کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ سب میڈیا اور اخباروں نے بنایا ہے۔’
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے ‘ایودھیا کو زندہ’نہیں کیا۔ گگوئی نے کہا کہ یہ ایک ذمہ داری تھی جو ان کے سابقہ لوگوں نے انہیں دی تھی اور ایک تاریخ مختص کی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘میرے پاس دوڑنے یا لڑنے کے دو راستے تھے۔ سی جے آئی بوبڈے کہتے ہیں کہ میں جنگجوؤں کے خاندان سے آتا ہوں، میں نے لڑائی لڑی۔’
عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت
جج نے عدالتی معاملوں میں ایگزیکٹوکی مداخلت کے بارے میں خدشات کو بھی خارج کرتے ہوئے کہا، ‘بیکار بات ہے! کون ہے جو آئےگا اور رنجن گگوئی کو کچھ کرنے کے لیے کہنے کی ہمت کرےگا؟ (سالیسیٹر جنرل مہتہ)تشار… کیا آپ کریں گے؟’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں وزیر اعظم اور وزیر قانون سے سیدھے بات کرنے کے لیے‘خصوصی ہاٹ لائن’دی گئی تھی، لیکن انہوں نے اسے پھینک دیا۔’
حالانکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گگوئی نے ایک بار ان سے مدد مانگی تھی۔ گگوئی نے کہا،‘لیکن ان کے بارے میں کیوں بات کریں، وہ اب نہیں ہے…انہوں نے ایک بار میری ماں سے ملنے کی درخواست کی تھی، وہ اپنی پنشن کے پیسے سے فلائٹ لےکر گئی تھیں۔ اور وزیر اعلیٰ نے ان سے اپنے حق میں فیصلہ دینے کے لیے مجھ سے بات کرنے کے لیے کہا تھا … یہ ماں نے فیصلے کے بعد مجھے بتایا۔’
انہوں نے کہا، ‘عدالتی کام کاج میں انتظامی مداخلت روزمرہ کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ سب مفروضےہیں۔’
ججوں کی پریس کانفرنس
سال 2018 میں ہوئی سینئر ترین ججوں کی تاریخی پریس کانفرنس، جس میں انہوں نے اور تین دیگر ججوں نے کہا تھا کہ ‘آزاد عدلیہ کے بغیر جمہوریت نہیں بچے گی‘ کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘ہمیں (پریس کانفرنس)بلانی پڑی کیونکہ ہم اس وقت کےسی جے آئی دیپک مشرا کو بنچوں کو معاملوں کے مختص کے سلسلے میں منانے میں نااہل تھے۔ مجھے امید ہے کہ یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب ججوں کو پریس کو خطاب کرنا پڑا۔’
انہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ پریس کانفرنس کو خطاب کرنا سہی کام تھا لیکن یہ نہیں مانا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔
ناگالینڈ فائرنگ اور نارتھ ایسٹ میں اے ایف ایس پی اے
سابق سی جے آئی نے ناگالینڈ میں سیکورٹی فورسز کی گولہ باری میں ہوئی 14شہریوں کی موت کو‘ایک غلطی’ قرار دیا اور موتوں کو ‘بدقسمتی’بتایا۔ حالانکہ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کو منسوخ کرنے کی مانگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جلدبازی میں فیصلہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کومنسوخ کرنے کامطالبہ لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ واقعہ(ناگالینڈ میں موتیں)ایک غلطی تھی۔ حادثات افسوس ناک ہیں۔ سخت قوانین کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ جلد بازی میں فیصلوں کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا،‘کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ اس کی ضرورت ہے، لیکن کسی حادثے کے وقت آپ کو لگتا ہے کہ اس کو ردکر دیا جانا چاہیے۔’
جسٹس گگوئی نے کہا کہ وہ سی جے آئی کے طور پر اپنی مدت کار کے دوران وزیر اعظم سے ایک بار بھی نہیں ملے تھے اور وزیر اعظم کے ساتھ ‘سیلفی’ لینے والے ‘کارکن’اب جج ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعظم رافیل فیصلے سے پہلے عدالت گئے تھے تب لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
انہوں نے کہا،‘دال تو کالا ہی ہوتا ہے، نہیں تو کیا دال ہے۔ وہ (وزیر اعظم)26 نومبر کو یوم آئین پر آئے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کچھ غلط ہے۔ ایسے جج تھے جنہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ سیلفی(تصویریں)لی تھی اور اب وہ کارکن جج ہیں۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)