پاکستان کی نئی حکومت، کشمیر اور ایک نئی رپورٹ

06:03 PM Apr 21, 2022 | افتخار گیلانی

 پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے استعمال کریں تو سودا برا نہیں ہے۔

Pakistan’s new Prime Minister Shehbaz Sharif. Photo: Facebook

پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان مبارکبادی کے ٹوئٹ کے بعد باضابطہ خطوط کا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں رہنماؤں نے پرامن اور باہمی اشتراک پر مبنی تعلقا ت پر زور دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایسا ایک نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لیے پر عزم ہے۔

اس سے قبل مودی نے اپنے خط میں نیک خواہشات کے علاوہ تعمیری تعلقات کی خواہش کا اظہار کرکے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے نئے حکمران ہندوستان کے کور ایشو یعنی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد کریں گے۔ نئی دہلی میں خطوط کے ان تبادلوں کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

چندر شیکھر، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی سمیت ہندوستان کے وزرئے اعظم کے دلوں میں میاں نواز شریف کے لیے ہمیشہ ایک سافٹ کارنر رہا ہے، جس کا میں نے خو د مشاہدہ کیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہندوستان کا دورہ کرنے والا ایک پاکستانی وفدغالباً مشاہد حسین کی قیادت میں گجرال سے ملا تو اس نے نواز شریف کو برطرف اور قید کرنے پر ان کو خوب سنائی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔

واجپائی نے بھی ایک بار بتایا کہ 1998میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل سبکدوش وزیر اعظم گجرال نے ان کو بتایا تھا کہ پاکستان میں شریف حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ جوہری دھماکوں کے بعد گجرال کی اس یقین دہانی نے ان کو لاہور بس سفر کرنے کی ترغیب دی۔سنڈے آبزرور کے چیف ایڈیٹر محمد سعید ملک گجرال اور نواز شریف کی نیویارک میں 1996 میں ہوئی ایک ملاقات کے وقت ہندوستانی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔وہ اس کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ؛

‘اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر جہاز میں گجرال سے اس ملاقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک مطالبہ جو ان کے پاکستانی ہم منصب نے نہایت ہی زوو شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ ہندوستانی حکومت دبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔اس کے بعد کسی نے بھی ہندوستانی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر سوال پوچھنے کی زحمت نہیں کہ، جبکہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔’

 خود مودی نے بھی کئی بار نوا ز شریف کی تعریفیں کرتے ہوئے بتایا کہ 2014میں نئی دہلی میں ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرکے شریف نے اعتماد سازی میں پہل کی، بلکہ بعد میں 2015 میں روسی شہر اوفا میں ملاقات کے بعد جس مشترکہ بیان کو جاری کیا گیا، تو اس میں پہلی بارہندوستان  اور پاکستان کے کسی دستاویز سے ‘کشمیر’  غائب تھا۔

معلو م ہوا کہ نواز شریف نے اپنے وفد کو بتایا تھا کہ مودی کو روم دینا ضروری ہے، تاکہ پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد ان کو پاکستان کے ایشوز پر عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دی جائے۔ اوفا کے علاوہ اسی سال دونوں رہنماؤں نے پیرس میں اور پھر بعد میں لاہور میں بھی ملاقاتیں کیں۔

 اس کے برعکس ہندوستانی ادارے پیپلز پارٹی سے خائف رہتے ہیں، گو کہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ نے کانگریس حکومت کے دور میں سونیا گاندھی اور ان کی فیملی کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی بہت کوششیں کی تھیں۔

بھٹو-زرداری خاندان اپنے آپ کو  ایک طرح سے بھارت کے نہرو-گاندھی فیملی کے ہم پلہ سمجھتا رہا ہے۔ مگر ہندوستان میں کوئی بھی سیاسی رہنما،اداروں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی تعلق قائم کرنے سے گریزاں رہتا ہے، وہ بھی جب معاملہ پاکستان سے متعلق ہو۔

دراصل ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ نے وزارت اعظمیٰ کی  دوسری مدت کے دوران  بے نظیرکے ہندوستان کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کو معاف نہیں کیا ہے۔  وزیر خارجہ سردار آصف علی کا پاکستان کے دورہ پر آئے ہندوستانی خارجہ سکریٹری جے این دکشت کو ملاقات کا وقت نہ دینا ور پھر 1995میں نئی دہلی کے سارک چوٹی مذاکرات میں پاکستانی وزیراعظم کی عدم شمولیت ایسے گھاؤ ہیں، جن کے لیے ہندوستانی ادارے پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرپا رہے ہیں۔

بے نظیر نے اس سمٹ میں شرکت کے لیے صدر فاروق لغار ی کو نئی دہلی بھیجا اور انہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں حریت لیڈروں کو مدعو کرکے ان سے ملاقات کرکے ہندوستان-پاکستان مذاکرات سے قبل کشمیر لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنے کی داغ بیل ڈال دی۔

سال 2007 میں انڈیا ٹوڈے سمٹ کے موقع پر جب بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی تو ذرائع کے مطابق شکوہ کیا کہ اس کی پارٹی کی آمریت کے خلاف جدوجہد اور بحالی جمہوریت کی کوششوں کو ہندوستان میں سراہا نہیں جاتا ہے، جبکہ ہندوستان خود دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔

  بعد میں اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن سے میں نے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تو خوب پینگیں بڑھاتی ہے، مگر اقتدارمیں آکر ہندوستان مخالف ایجنڈہ کو ہی ہوا دیتی ہے اور پھر چونکہ اس کا فوج کے ساتھ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، اسی لیے ڈیلیور بھی نہیں کرپاتی ہے۔

خیر پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے استعمال کریں تو سودا برا نہیں ہے۔

ابھی حال ہی میں ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، فضائیہ کے نائب سربراہ کپل کاک، سابق بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ، سماجی کارکن شاشوبھا بھاروے اور معروف صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل فکر مند شہریوں کے ایک گروپ نے کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا کہ خطے میں خوف و ہراس کی ایسا فضا قائم ہے کہ لوگ کانا پھوسی کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر اس وقت جارج آرویل کی ناول 1984اورآرتھر کوسٹلر کی ناول ڈارکنیس ایٹ نون کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔ دونوں کتابیں حکمرانوں کی طرف سے شہریوں پر عائد حد سے زائد نگرانی اور ظلم  و ستم کا احاطہ کرتی ہیں۔

ایک دانشور نے سرینگر میں اس گروپ کو بتایا کہ کشمیر کی نئی جنریشن کو ہندوستانی جمہوریت کے گن بتانا تو اب ناممکن ہوگیا ہے۔ ایک بزنس لیڈر نے وفد کو بتایا کہ حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار سے باہر بھی ہوجاتی ہے، مگر جو نفرت اب سماج میں پھیلی ہے، اس کا تدارک کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

گو کہ سیکورٹی فورسز تقریباً ہر روز عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کی تعداد حکومت کے  اپنے بیان کے مطابق ہی 200سے کم ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب بس یہی لگایا جاسکتا ہے کہ عسکریت کو مقامی طور پر نئے رنگروٹ مل رہے ہیں۔ ایک اور لیڈر نے اس وفد کو بتایا کہ وزیر داخلہ نے سیاسی لیڈروں، بشمول حریت کانفرنس کو خاموش تو کرادیا ہے، مگر وہ بندوق کو خاموش کرانے میں فی الحال ناکام رہے ہیں۔

ایک جہاندیدہ سیاستدا ن نے اس وفد کو بتایا کہ وہ کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں نفرت کی ایک تہہ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ کس طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گی، بتانامشکل ہے۔

کشمیری پنڈتوں پر بنائی گئی حقائق سے پرے فلم کشمیر فائلز کے بارے میں وادی کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کا کہنا تھا کہ اس سے ان کو فائدہ کے بجائے الٹا نقصا ن ہو رہا ہے۔ اس سے وہ اپنے آپ کو زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

ہند نواز سیاستدانوں نے وفد کو بتایا کہ وہ کشمیر میں غیر محفوظ تو تھے ہی، اب اس فلم کی وجہ سے ہندوستان میں بھی غیر محفوظ ہوکر نہ ادھر کے رہ گئے ہیں نہ ادھر کے۔ کیونکہ اس فلم میں  1990میں کشمیر پنڈتوں کی ہجرت اور ہلاکتوں کے لیے ان کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور ان کے خلاف ہندو فرقہ میں نفرت پھیلائی گئی ہے۔ اس فلم سے کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں کو لانے کے حکومت کے اپنے منصوبہ پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔

پچھلی منموہن سنگھ کی قیادت والی کانگریسی حکومت کی کوششوں سے تقریباً دس ہزار کشمیری پنڈت واپس وادی کشمیر میں بسنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس فلم نے مقامی کشمیری مسلمانوں کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا ہے۔ 1990کے جو زخم مندمل ہوچکے تھے، اس نے ان کو دوبارہ کھول دیا ہے۔  ان کے مطابق نئی دہلی کے ارباب حل و عقد پاور میں رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔

سال 2016میں اس گروپ کو ترتیب دینے کے بعد ان کا یہ کشمیر کا دسواں دورہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار وہ واضح طور پر ماحول میں تناؤ اور گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ سیاسی لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ حد بندی کمیشن کی حالیہ رپورٹ سے مذہبی فرقوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔

اس کمیشن نے آبادی کو معیار بنایا ہے نہ جغرافیہ کو۔اس کا واحد مقصد یہی لگتا ہے کہ کسی طرح ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے ہندو اکثریتی  علاقوں کی سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے وادی کشمیر کی سیٹیں بڑھ رہی تھیں اور جغرافیہ کے معیار سے جموں کے مسلم اکثریتی پہاڑی علاقوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا۔

جنوبی کشمیر کے اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں آدھا علاقہ وادی کشمیر اور آدھا جموں کے پونچھ-راجوری علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات اکتوبر اور اپریل کے درمیان ہوں گے، جب اننت ناگ اور پونچھ کو ملانے والا مغل روڑ بند ہوتا ہے، تو امیدوار کو اگر ایک خطے سے دوسرے خطے میں انتخابی مہم کے لیے جانا پڑے گا تو  اننت ناگ سے بانہال، ڈوڈہ، ادھمپور اور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہی راجوری-پونچھ پہنچ سکتا ہے۔ یہ کیسی حد بندی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اتر پردیش کے حالیہ انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ اسی لیے وہ اب کشمیر میں انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ لگتا ہے کہ اسی سال کے آواخر میں گجرات اور ہماچل پردیش کے ساتھ ہی انتخابات کا انعقاد کیا جائےگا۔

لگتا ہے کہ ان کا پلان 2024کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں پہلی بار ایک ہندو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے اس کو پورے ہندوستان میں بھنایا جائے۔ اس سے وہ دنیا کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں میں گوجر اور پہاڑی کمیونٹی کو کشمیر ی بولنے والی آبادی سے متنفر کرنے اور ان کو بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لام بند کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ان سے وعدے کیے جا رہے ہیں۔

گوجر آبادی کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اسمبلی میں نشستیں مخصوص ہوگئی ہیں۔ پہاڑی آبادی جو گوجر آبادی کے ساتھ ہی رہتی ہے، کا مطالبہ ہے کہ ان کو بھی یہ درجہ دیا جائے۔

وفد نے میڈیا کے بارے میں لکھا ہے کہ صحافی ان سے ملنے سے کتراتے رہے۔ وہ خوف زدہ تھےکہ کہیں ان کو بعد میں تختہ مشق نہ بنایا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آرمی کے ایک جنرل نے ایک سینئر صحافی کو بتایا کہ ،اس سے قبل کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں یا آپ سے بات کروں وہ پہلے بتائے کہ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی تصور کرتا ہے کہ نہیں؟

 ایک دوسر ے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک سینئر افسر نے صحافیوں کو بتایا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل پانچ  ایم ایم کا معاملہ ہے۔ ان میں ماسیز، مسجد، مولوی، ملی ٹنٹ اور میڈیا ہیں۔ ہم نے مسجد، مولوی اور ماسیزکو تو کنٹرول کیا ہے۔ اب ملی ٹنٹ اور میڈیا کی باری ہے۔ ان کو کنٹرل کرنے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائےگا۔ میڈیا سے متعلق عوام کو اگر کوئی موہوم سی بھی امید ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ اس وفد کے مطابق کشمیر میڈیا کو زیر کرنے کی ایک لیبارٹری بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں، جب دیگر علاقو ں میں بھی اس کا اطلاق کیا جائےگا۔

رپورٹ کے مطابق ہندوستانی حکومت ہمیشہ سے ہی کشمیر میں وفاداریوں کو جیتنے کے بجائے ا ن کو مراعات و د ھونس دباؤ کے ذریعے  خریدنے پر مصر  رہی ہے اور موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے ہندوستان کی حکومتیں کشمیر کو انٹیگریٹ یعنی باقی ملک کے ساتھ انضمام کے لیے کوشاں ہوتی تھیں، مگر موجودہ حکومت اس کو ہضم کرنے اور اس کے وجود اور شناخت کو ہی مٹانے کے درپے ہے۔

اس لیے اگر  شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی نئی حکومت اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے کشمیر میں عوام کے لیے سانس لینے کی کوئی سبیل مہیا کروائے تو اس کا یہ قدم تاریخ میں رقم ہوسکتا ہے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے لیڈران بشمول نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری بھی مغربی دنیا میں اپنی پارٹی کی گڈول کا فائدہ اٹھا کر اگر کسی طرح مودی حکومت کو کشمیری عوام کے وجود اور شناخت کو بچانے پر قائل کرواسکیں تو وہ اپنے ناناذولفقار علی بھٹو کے صحیح جاں نشین کہلوانے کے حقدار ہوں گے۔ ورنہ تاریخ خاصی ظالم ہوتی ہے، ان دونوں پارٹیوں کو اس کا حساب دینا پڑےگا۔