سی اے اے-این آر سی کے خلاف ہو رہے مظاہرے میں طویل عرصے کے بعدہندو-مسلم یکجہتی پھر سے نظر آ رہی ہے، جس سے حکمراں بی جے پی میں بےچینی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسی ہی بےچینی 1857 کی انقلاب کے بعد انگریزوں میں دکھی تھی، جس سےنپٹنے کے لئے انہوں نے پھوٹ ڈالو-راج کرو کی پالیسی اپنائی تھی۔
شہریت قانون (سی اے اے)، این پی آراوراین آر سی کے خلاف جاری مظاہرے میں طویل عرصے کے بعدہندو-مسلم یکجہتی پھر سےنظر آ رہی ہے۔ اس یکجہتی کو دیکھکے حکمراں بی جے پی میں بےچینی صاف دکھ رہی ہے۔ایسی ہی بےچینی 1857 انقلاب کے بعد انگریزوں میں دکھی تھی۔انگریزوں نے اس سے نپٹنے کے لئے پھوٹ ڈالو راج کرو کی پالیسی اپنائی تھی، دیکھیں بی جے پی کیا کر رہی ہے؟ اور جو وہ کر رہی ہے، وہ صرف دہلی جیسی چھوٹی سی ریاست کےانتخاب کے لئے بھی کر رہی تھی؟ جو میڈیا کے ذریعے پورے ملک کو پروسا جا رہا ہے؟وزارت داخلہ نے آرٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کےجواب میں بتایا کہ ملک میں کہیں بھی کوئی بھی ‘ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ کا وجود نہیں ہے۔
لیکن اپنے ہی وزارت کے جواب کو غلط بتاتے ہوئے امت شاہ اور ان کی پوری پارٹی جس طرح سے ایک کے بعد ایک شاہین باغ کے مظاہرین اور اس سے جڑےلوگو ں پر ‘ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ سے لےکر غدار وطن اور غدار ہونے کے الزام لگاتے ہوئے روزانہ جس بے شرمی سے ایک نیا بیان دے رہی تھی، اس سے صاف ہے کہ بی جے پی ہرقیمت پر ہندو-مسلم یکجہتی کو توڑکر ووٹ کا پولرائزیشن کرنا چاہتی تھی۔
انہوں نے شاہین باغ کے نام سے سیدھے سیدھے ایک کمیونٹی خاص کے خلاف کھلی مہم چھیڑ دی اور ان کو ملک توڑنے والا بتایا جا رہا ہے۔امت شاہ نے صاف صاف کہا کہ ای وی ایم کی بٹن اتنی زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ کپل مشرا نے پہلے دہلی انتخاب کو ہندوستان بنام پاکستان بتایا اور اب وہ انتخاب کے بعد شاہین باغ خالی کرانے کی بات کرکے آگ کواور ہوا دینے لگے۔
مودی حکومت کے میں وزیر انوراگ ٹھاکر نے تو اشاروں-اشاروںمیں غدار بتاکر گولی مارنے کے نعرے بھی لگوا دیے۔ ویسے بھی یہ ایک پرانا نعرہ ہےاور اس کا اشارہ کس طرف ہے، یہ سب جانتے ہیں۔اور اس اشارے کو سمجھکر دہلی میں پہلے شاہین باغ میں ایک آدمی پستول کے ساتھ پکڑا گیا اور پھر ایک 17 سال کے نوجوان نے جامعہ کے طالبعلموں پر فائر کیا اور پولیس تماشائی بنی رہی۔
دہلی سے بی جے پی رکن پارلیامان پرویش ورما نے تو اور آگے جاکریہاں تک کہہ دیا کہ شاہین باغ کے لوگ دہلی میں لوگوں کے گھروں میں گھسکرریپ کریںگے، ان سے بچنا ہے تو بی جے پی کو ووٹ کرو۔ اس کے علاوہ، انہوں نےسرکاری زمین پر بنی تمام مساجد کو توڑنے کا اعلان بھی کر دیا۔ووٹوں کے پولرائزیشن میں سب سے آگے رہنے والے اتر پردیش کےوزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اپنا پرانا راگ الاپا کہ کانگریس اور عآپ تو شاہین باغ والوں کو بریانی کھلا رہے ہیں مگر ہم پہلے ہم بولی سے سمجھاتے ہیں اور نہیں مانے توپھر ان کو ہماری فوج / پولیس گولی مارتی ہیں۔
دہلی کے انتخاب میں ایک بار پھر ہندو-مسلم کا مدعا چھیڑکر بی جےپی کے چانکیہ نے یہ صاف کر دیا ہے کہ میڈیا بھلےہی ان کی حکمت عملی کے کتنے ڈھول پیٹے، اور بھلےہی سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا دعویٰ کرے لیکن اس کی سیاست کا طریقہ پھوٹ ڈالوراج کرو ہی ہے۔ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کے جس شدت پسند نظریے سےآتی ہے، وہ تاریخ کو مسلم اور ہندو راجاؤں کےدرمیان مذہب کے نام پر ہوئی دشمنی کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔
جب بچپن میں سنگھ کی شاکھامیں کھیلنے کے لئے جاتا تھا، تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ کیسے مسلم راجاؤں نے ہندو راجاؤں اور ہندو مذہب کو ختم کرنےکا کام کیا۔ مگر یہ سچ نہیں ہے۔اگر آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیںگے تو آپ کو سمجھ آئےگا کہ نہ تو کسی بھی راجا نے مذہب کے نام پر آپس میں جنگ کی اور نہ ہی حکومت کی ؛ ساری جنگیں اقتدار کے نام پر ہوئیں۔
اقتدار کے لئے، ہندو راجا، ہندو راجا سے اور مسلم راجا، مسلم راجاسے لڑتے تھے اور ایک دوسرے سے بھی ؛ ہندو راجاؤں کے مسلم سپہ سالار اور مسلم راجاکے ہندو سپہ سالار بھی ہوتے تھے۔ اس کو اور طریقے سے سمجھنے کے لئے ہندوستانی راجاؤں کے اوپر ڈاکٹر رام پنیانی کا ویڈیو سریز دیکھ سکتے ہیں۔اصل میں پھوٹ ڈالو اورراج کرو کی پالیسی کے بیج انگریزوں نےبوئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان پر حکومت کرنا ہے تو ہندو-مسلم کو ایک نہیں ہونے دینا ہے۔ برٹش جنرل، سر چارلس نیپئر نے تو 1835 میں ہی کہا تھا،جس دن یہ بہادر اور اہل لوگ [ہندوستانی] ایک ساتھ آنا سیکھ گئے، اس دن یہ ہماری طرف دوڑیںگے اور ہمارا کھیل ختم ہو جائےگا۔
آدیواسی تو لمبے عرصے سے انگریزوں سے لڑتے آئے تھے۔ لیکن جب 1857میں ملک کے میدانی علاقے کے ایک حصے میں انگریزوں کے خلاف انقلاب ہوا، تو اس دوران ہندو راجاؤں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما بنایا اور ان کی قیادت میں ہندوستانی فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔انگریزوں کی فوج میں بھی بہادر شاہ ظفر نے اس کی قیمت مغلیہ نسل کےخاتمے سے چکائی۔ انگریزوں نے نہ صرف بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں اور پوتے کو دہلی میں واقع خونی دروازے (دہلی گیٹ کے پاس بنے) پر ننگا کر سرعام گولی مار کرمغل خاندان کو ختم کر دیا، بلکہ بہادر شاہ ظفر برما میں جلا وطن کر دئے گئے، جہاں وہ اپنے وطن ہندوستان واپس لوٹنے کی خواہش کرتے-کرتے مر گئے۔ جبکہ ہمیں بتایا گیا کہ مغلوں نےکیسے ہندوستان کو لوٹا۔
اس ہندو-مسلم یکجہتی کو دیکھ کر انگریز گھبرا گئے۔ انہوں نے فوج میں بغاوت کی وجہ کو سمجھنے کے لئے پیل کمیشن بنایا۔ اس کمیشن کے سامنے 47 برٹش افسروں نے اپنی بات رکھی، جس نے 7 مارچ 1859 کو نوآبادیاتی ہندوستان کی فوج کیسی ہو، اس بارے میں اپنی رپورٹ سونپی۔اس میں سب نے ایک سر میں کہا، جب الگ الگ مذہب اور ذات کے فوجی ایکدوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر لڑتے ہیں، تو ان کے درمیان کے تنازعہ، تعصب، اختلاف آہستہ آہستہ مٹ جاتے ہیں۔ ممبئی کے گورنر لارڈالفنسٹن نے 14 مئی، 1859 کو لکھا،’ ڈوائیڈ ایٹ امپیرا(divide et Impera) جو رومن حکمرانوں کا فارمولہ تھا، و ہی اب ہمارا بھی فارمولہ ہونا چاہیے۔’
اس کے بعد، انگریزوں نے سرکاری طور پر نہ صرف فوج میں بلکہ شہری انتظامیہ میں بھی ‘ پھوٹ ڈالو اور راج کرو ‘ کی پالیسی اپنائی۔ اس کا نتیجہ پہلے1905 میں، مذہب کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کے طور پر سامنے آیا۔بسمل، بھگت سنگھ، گاندھی، مولانا آزاد، سبھاش چندر بوس وغیرہ کی قیادت میں ہوئی آزادی کی تحریک میں ایک بار پھر ہندو-مسلم ایک ہوکر لڑے۔ لیکن اس دور میں مسلم اور ہندو دونوں میں کچھ تنظیم اور نظریہ ایسے بھی تھے، جو اس یکجہتی کے خلاف تھے۔ وقت وقت پر انگریز ان کو قوت دیتے تھے۔
جناح کی ٹو نیشن تھیوری کے کافی پہلے ساورکر بھی دو قومی نظریہ کےبار ے میں کہہ چکے تھے، جس کا نتیجہ اور 1947 میں ملک کی تقسیم کے طور پر دیکھنےکو ملا۔ ایسی ہی ایک طاقت کے نمائندہ ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کی جان لی۔90 کی دہائی میں رام مندر کے لئے شروع ہوئی رتھ یاترا سے گجرات میں ہوئے 2002 کے فسادات تک ہم نے ووٹ کے پولرائزیشن کاایک کھیل دیکھا۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہم ہر انتخاب میں ووٹ کے پولرائزیشن کےلئے کئے جا رہے نئے-نئے کھیل دیکھ رہے ہیں۔
یہ اب ہماری جوابداہی ہے کہ ہم گاندھی کی شہادت کو بےکار نہ جانےدیں اور ہندو-مسلم یکجہتی کو برقرار رکھیں اور اس پھوٹ ڈالو اورراج کرو کی پالیسی کو پوری طرح مسترد کریں۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )