الیکشن کمیشن نے آسام کو چھوڑ کر 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایس آئی آر کا اعلان کیا

الیکشن کمیشن نےبتایا ہے کہ اب گوا، پڈوچیری، چھتیس گڑھ، گجرات، کیرالہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، راجستھان، مغربی بنگال، تمل ناڈو، انڈمان اور نکوبار جزائر اور لکشدیپ میں ایس آئی آر کرایا جائے گا۔ آسام کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔ بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے ساتھ ساتھ آسام میں بھی اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

الیکشن کمیشن نےبتایا ہے کہ اب گوا، پڈوچیری، چھتیس گڑھ، گجرات، کیرالہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، راجستھان، مغربی بنگال، تمل ناڈو، انڈمان اور نکوبار جزائر اور لکشدیپ میں ایس آئی آر کرایا جائے گا۔ آسام کو اس عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔ بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے ساتھ ساتھ آسام میں بھی اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

سوموار کو پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی:  الیکشن کمیشن نے سوموار (27 اکتوبر) کو اعلان کیا ہےکہ 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹ کا ملک گیر اسپیشل انٹینسو ریویژن(ایس آئی آر) شروع ہوگا۔ اس کو اس عمل کا ‘دوسرا مرحلہ’ بتایا گیاہے۔ یہ عمل اس سے قبل بہار میں جون میں شروع ہوا تھا اور گزشتہ ماہ ختم ہوا  ہے۔

اب ایس آئی آر گوا، پڈوچیری، چھتیس گڑھ، گجرات، کیرالہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، راجستھان، مغربی بنگال، تمل ناڈو، انڈمان اور نکوبار جزائر اور لکشدیپ میں کرایا جائے گا۔ یہ عمل 4 نومبر کو شروع ہوگا اور مسودہ ووٹر لسٹ 9 دسمبر کو شائع کی جائے گی۔ حتمی ووٹر لسٹ اگلے سال 7 فروری کو شائع کی جائے گی۔

چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) گیانیش کمار نے کہا کہ کسی بھی الیکشن سے پہلے ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی جاتی ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے آسام کو اس میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ تاہم، دیگر انتخابی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، تمل ناڈو، اور کیرالہ میں ایس آئی آر ہوں گے، اور وہاں بھی 2026 میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ بہار میں ایس آئی آر کے متنازعہ عمل کے علاوہ جس بات کو لے کر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا وہ 11 دستاویزوں کی فہرست تھی جو ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے ثبوت کے طور پر دی جا سکتی ہے۔ تاہم اس بار الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ فارم جمع کرانے کی مدت کے دوران کسی بھی معاون دستاویز کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی کمیشن نے آدھار کو بھی ثبوت کے طور پر دیے جانے والے دستاویز کی فہرست میں 12ویں دستاویز کے طور پر شامل کیا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

آسام باہر کیوں ؟

ملک گیر ایس آئی آرکے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے آسام کو شامل نہ کرنے کی وجہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تاہم، میڈیا کے سوال و جواب کے سیشن کے دوران سی ای سی کمار نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شہریت کے مختلف معیارات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا،’ایس آئی آر کی ضرورت پر کافی بات چیت ہوئی ہے، تاہم، الیکشن کمیشن یہ بتانا چاہتا ہے کہ انتخابی قوانین کے تحت، ہر الیکشن سے پہلے انتخابی فہرست پر نظرثانی کرنا لازمی ہے، یا جب بھی الیکشن کمیشن اس کا تعین کرتا ہے، یہ ضروری ہے۔’

کمار نے کہا کہ ملک بھر میں ایس آئی آر کی ضرورت بار بار ہجرت اور انتخابی فہرستوں میں غیر ملکیوں کی غلط طریقے سے شمولیت سمیت دیگر وجوہات سے پڑی ، حالاں کہ ایسا کہتے ہوئے انہوں نے بہار ایس آئی آر میں پائے جانے والے ‘غیر ملکیوں’ کی تعداد کا ذکر نہیں کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ دنوں میں سیاسی جماعتوں نے ووٹر لسٹوں کے معیار کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے ساتھ مسائل اٹھائے ہیں۔ 1951 سے 2004 تک، ایس آئی آر کا عمل تقریباً آٹھ بار کیا گیا، آخری ایس آئی آر 21 سال پہلے، 2002 اور 2004 کے درمیان کیا گیا تھا۔

‘ان دو دہائیوں کے دوران ووٹر لسٹوں میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں بار بار نقل مکانی کی وجہ سے متعدد مقامات پر ووٹرز کا رجسٹرڈ ہونا، فوت شدہ ووٹرز کو حذف نہ کرنا، یا ووٹر لسٹوں میں غیر ملکیوں کی غلط شمولیت ۔ ان وجوہات کی بناء پر، الیکشن کمیشن نے ملک گیر ایس آئی آر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلا مرحلہ بہار میں کامیابی کے ساتھ منعقد کیا جا چکا ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

آسام کو اس عمل سے باہر رکھنے کے بارے میں گیانیش کمار نے کہا، ‘انڈین سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت آسام کے لیے الگ الگ اہتمام ہیں۔ دوسرا، آسام میں شہریت کی تصدیق سپریم کورٹ کی نگرانی میں مکمل ہونے کے قریب ہے۔ 24 جون کا ایس آئی آر حکم پورے ملک کے لیے تھا۔ اس کا اطلاق آسام پر نہیں ہوتا، اس لیے آسام کے لیے علیحدہ ترمیم کا حکم جاری کیا جائے گا۔’

غور طلب ہے کہ آسام کے شہریوں کی حتمی فہرست، اپڈیٹ شدہ این آر سی 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی، جس میں 31,121,004 افراد شامل تھے، جبکہ  1,906,657 افراد  کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، اس این آر سی کو ابھی تک مطلع نہیں کیا گیا ہے۔

بہار میں متنازعہ ایس آئی آر کو  دستاویزات کی فہرست کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بارے اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس سے ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کیا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی انتخابی فہرست کو مبینہ شفاف بنانے کا حوالہ دیتے ہوئے شہریت کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہوئے، پچھلے دروازے سے این آر سی کو لاگو کیا جا رہا ہے۔

فارم کے ساتھ دستاویز نہیں لیے جائیں گے

بہار کے عمل کے برعکس، الیکشن کمیشن نے اب کہا ہے کہ گھر گھر جا کر تصدیق اور فارم جمع کرنے کے دوران کوئی دستاویز پیش نہیں کرنا پڑے گا۔

اس کے بجائے، فارم میں سابقہ ​​ایس آئی آر کی تفصیلات دینے والا ایک باکس ہوگا، جہاں کوئی ووٹر اپنی تفصیلات درج کر سکتا ہے اگر وہ پچھلی ایس آئی آر (2002-04 میں) میں ووٹر تھا یا اپنے خاندان کے کسی فرد/رشتہ دار کی تفصیلات درج کر سکتا ہے جو اس وقت ووٹر تھے۔

گیانیش کمار نے وضاحت کی،’اگر کوئی ووٹر 2002-2004 کی ووٹر لسٹ میں نہیں تھا، لیکن ان کے والدین میں سے کوئی ایک فہرست میں تھا، تو کسی اور دستاویز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ لنکنگ اور میچنگ صرف بہار کے لیے اس وقت دستیاب تھی جب ہم نے ایس آئی آر کرایا تھا۔ لیکن اب ہمارے پاس پور ے ملک کے لیے 2002-2004 کی ایس آئی آر ووٹر لسٹ موجود ہے اور کوئی بھی ووٹر اس کو ووٹرزڈاٹ ای سی آئی ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان پرخود ں دیکھ سکتا اور ملان کر سکتاہے ۔’

قابل ذکر ہے کہ 24 جون 2025 کو بہار ایس آئی آر کی جاری کردہ ہدایات میں الیکشن کمیشن نے ووٹروں کو نام درج  کرانے کے لیے فارم کے ساتھ 11 معاون دستاویزات میں سے ایک جمع کرنے کو لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم، کمیشن نے بعد میں اپنا موقف تبدیل کیا اور فیصلہ کیا کہ پہلے فارم جمع کرائے جائیں اور دستاویزات بعد میں، جو کہ بہار ایس آئی آر کے دوران الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی متعدد تبدیلیوں میں سے ایک تھی ۔

بارہویں دستاویز کے طور پر آدھار کی شمولیت

بہار ایس آئی آر کے برعکس ایک اور تبدیلی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے آدھار کو ان دستاویزات کی فہرست میں 12ویں دستاویز کے طور پر شامل کیا ہے جسے ووٹر کی اہلیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

کمار نے مزید کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ آدھار کو شناخت کے ثبوت کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن شہریت کے ثبوت کے طور پر نہیں۔

واضح ہو کہ الیکشن کمیشن نے بہار ایس آئی آر میں آدھار کو قبول کرنے کی ہدایت عمل شروع ہونے کے 77 دن بعد جاری کی تھی ، اور یہ ہدایت سپریم کورٹ کے بار بار اس کو شامل کرنے کی تجویز دینے کے بعد ہی آئی، جس کے بعد 8 ستمبر کو ایسا کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔

متنازعہ بہار ایس آئی آر کے نتیجے میں ریاست میں رائے دہندگان کی تعداد میں تقریباً 6فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس سے نومبر کے اسمبلی انتخابات سے قبل 30 ستمبر کو شائع ہونے والی حتمی ووٹر لسٹ میں سے 47 لاکھ ووٹر باہررہ گئے۔ اس عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جس کی سماعت 4 نومبر کو دوبارہ شروع ہوگی — بہار میں انتخابات سے صرف دو دن پہلے۔

کمیشن نے 47 لاکھ ووٹروں کے ناموں کو حذف کرنے کی وجوہات نہیں بتائی ہیں اور نہ ہی یہ عام کیا ہے کہ فارم 6 کے ذریعے نئے ووٹروں کو شامل کیا گیا یا جنہوں نے دعویٰ دائر کیا اور کتنے لوگوں کو دستاویزات کی کمی کی وجہ سے فہرست سے خارج کر دیا گیا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)