ملک میں یادگاروں کے سلسلے میں کیے جارہے دعووں کے درمیان راجسمند سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ اور جے پور کے شاہی خاندان کی رکن دیا کماری نے تاج محل پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ معروف رائٹر اور بلاگر رعنا صفوی بتاتی ہیں کہ اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ تاج کی زمین کے بدلے شاہی خاندان کو چار حویلیاں دی گئی تھیں۔
کیا تاج محل کے بند کمروں میں ہندو مورتیاں ہیں؟ کیا وہ زمین جس پر یہ مقبرہ قائم ہے، وہ جے پور کے شاہی خاندان کی ملکیت ہے؟ حالیہ دنوں میں ان سوالات نے میڈیا کی خوب توجہ حاصل کی ہے اور ایک بار پھر 17ویں صدی میں شاہ جہاں کے ذریعے اپنی اہلیہ ممتاز محل کے لیے بنائے گئے مقبرے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔
دی وائر کے بانی مدیران میں سے ایک سدھارتھ بھاٹیہ نے معروف رائٹر اور بلاگر رعنا صفوی سے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے۔
بات چیت کے دوران رعنا صفوی نے تاج محل میں مورتیاں کیوں نہیں ہو سکتی ہیں اور اس زمین کی تاریخ کیا ہے، جیسے متعددسوالوں کے جواب دیے۔ صفوی نے علمی اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں تاج محل پر تفصیل سےلکھا ہے۔ غور طلب ہے کہ وہ ہندوستانی ثقافت کے بارے میں آٹھ کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔
تاج محل کے نیچے بند کمروں میں مورتیوں کے بند ہونے کے دعوے کے بارے میں صفوی نے بتایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پی این اوک کے اسّی کی دہائی میں یہ دعویٰ کرنے اور اس کا تمسخر بنانے کے بعد سے وقتاً فوقتاًاس طرح کے دعوے سامنے آتے رہتے ہیں۔اس وقت کسی نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، لیکن اب وہاٹس ایپ پر عوام اس کوہی سچ مان رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، چونکہ تحقیق وغیرہ صرف علمی حلقوں تک محدود ہوتے ہیں اور وہاٹس ایپ پڑھنے والے لوگ کتابوں میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس لیے یہ دعویٰ اکثر سامنے آتا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سامنے آتا ہے فالس سینس آف وکٹم ہوڈ، یعنی اپنے آپ کومظلوم ماننے کا بھرم، جو سب کے ذہن میں چلتا رہتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں جے پور کے شاہی خاندان کی رکن اور بی جے پی رکن پارلیامنٹ راج کماری دیا کماری کا تاج محل کی زمین کے بارے میں دعویٰ درست ہے، تاج محل کی زمین ان کے اجداد – راجہ مان سنگھ کی تھی۔ لیکن 1631-32 میں جب تاج محل بنا تو اس کا مالکانہ حق راجہ جئے سنگھ کے پاس تھا۔ اور آگرہ میں زمین دینے کے بدلے شاہ جہاں نے جے پور میں چار حویلیاں شاہی خاندان کو دی تھیں۔
آگرہ میں اس زمین کا انتخاب کیوں کیا گیا، اس کی وجہ کیا تھی، اس بارے میں صفوی نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ دریا کے قریب اس زمین کی موجودگی تھی۔ اس وقت کے بہت سے اشرافیہ اور معزز افراد کی حویلیاں ندی کے کھادر میں تھیں۔ اس (تاج محل) کے لیے زمین کے اس ٹکڑے کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر دریا کا بہاؤ بہت کم تھا اور چونکہ انہیں یہاں ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرنی تھی، اس لیے اس کا انتخاب کیا گیا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ شاہ جہاں کے فرمان میں واضح طور پر چار حویلیاں دینے کی بات موجود ہے اور ان کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ راجہ جئے سنگھ اس کی کوئی قیمت نہیں لینا چاہتے تھے، لیکن شاہ جہاں نے اس کا معاوضہ ادا کرنے پر اصرار کیا۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ زمین کے عوض کچھ نہیں دیا گیا سراسر غلط ہے۔
صفوی نے بتایا کہ اس کا ثبوت شاہ جہاں کا اس وقت کے مہاراجہ جے سنگھ کے ساتھ چار حویلیوں کے لیے زمین کے تبادلے کے سلسلے میں جاری کردہ فرمان ہے جو جے پور کے ایک میوزیم میں موجود ہے اور اگر دیا کماری چاہیں اس کو پڑھ سکتی ہیں۔
رعنا نے یہ بھی بتایا کہ یہ فرمان جس کلیکشن کا حصہ ہے، وہ کسی مقدمےکی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں سے بند ہے۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ دیا کماری کو اس فرمان کی نقل کی موجودگی کا علم بھی نہ ہو۔ اگر وہ مستند جانکاری چاہتی ہیں تو ان کو اس کلیکشن کو کھلوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ 2018 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تاج محل سے متعلق دعووں کو مسترد کرنے کے باوجود کیوں اس طرح کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، رعنا نے کہا، پچھلے چند سالوں میں اور خاص طور پر چند مہینوں میں، متعدد مذہبی یادگاروں کے بارے میں دعوے کیے گئے ہیں۔ یہ بھی اسی دعوے کا حصہ ہے۔ اور پی این اوک کی مہربانی سے یہ سب وہاٹس ایپ پر گردش کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ یہ کوئی مندر تھا۔ اس کی بنیاد 17 میٹر گہری ہے، اس کا گنبد 1200 ٹن کا ہے، ایسے میں کسی اور عمارت کے ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی عصری تاریخ حتیٰ کہ یورپی ریکارڈ میں کسی مندر کا ذکر نہیں ہے اور یہ خوش اسلوبی کے ساتھ درج ہے، کتابوں میں اس کا ذکر ہے۔
ممتاز کا انتقال برہان پور میں ہوا تھا، ایسے میں آگرہ میں محل کیوں بنایا جارہا تھا؟ صفوی نے بتایا کہ مکرانہ سے سنگ مرمر اور دیگر سامان برہان پور لے جانا مشکل تھا، اس لیے آگرہ کا انتخاب کیا گیا۔
تاج محل کے تہہ خانے میں بند کمروں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں رعنا نے بعض مصنفین کے حوالے سے کہا کہ وہ شاہی خاندان کے لیے تھے۔ کچھ عرصے تک وہ کھلے بھی تھے، شاید 70 کی دہائی تک، لیکن بعد میں بند کر دیے گئے۔ وہاں مورتیاں نہیں ہیں۔ اے ایس آئی نے عدالت میں بھی یہی بات کہی ہے۔ ہاں، وہاں کچھ کمرے سیل ہیں، لیکن وہ ساختی مسائل کی وجہ سے ہیں۔ 1652 کے آس پاس ہی انڈر گراؤنڈ کمروں میں دراڑیں نظر آئی تھیں، کمروں کو بند رکھنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہر چند سال بعد لوگ پوجا کرنے پہنچ جاتے ہیں، وہاں بھگوا جھنڈا لگانا چاہتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہاں کوئی مندر یا مورتی نہیں ہے، کم از کم مندر احاطے میں تو نہیں ہے۔ باہر گھاٹ کی طرف جانے پر چھوٹے چھوٹے مندر ضرور ہیں، لیکن اندر ایسا کچھ نہیں ہے۔
اس سوال پر کہ اتنے سالوں کے بعد بھی لوگ سچائی کو نہیں سمجھ رہے ہیں تو پھر انہیں کیسے اس بارے میں بتایاجائے، اس پر صفوی نے کہا کہ وہ لگاتاروہاٹس ایپ پر فارورڈ ہوکرآنے والی گمراہ کن باتوں سے لڑنے کے لیےکوشاں ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اپنے انسٹاگرام اور ٹوئٹر اکاؤنٹس پر تاج سے متعلق جانکاریاں شیئر کرتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عام لوگوں میں شاہ جہاں کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے کئی دعوے کیے گئے ہیں، جیسے کہ تاج بنانے والے مزدوروں کے ہاتھ کاٹ دیے گئے یا پھر مندر کو گرا کر کام شروع کیا گیا لیکن یہ دونوں باتیں جھوٹ ہیں۔ جن لوگوں نےتاج محل بنایا تھا، انہی لوگوں نے دہلی میں لال قلعہ اور جامع مسجد بنایا۔ اسی طرح ایک دعویٰ کالا تاج محل بنانے کے سلسلے میں بھی سننے کو ملتا ہے لیکن وہ بھی غلط ہے۔
کیا اس طرح کی باتوں اور افواہوں سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟ رعنا کہتی ہیں، بالکل، یہ یادگاروں کے لیے خراب بات ہے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ گزشتہ کچھ وقتوں سےتمام کاموں کو کنارے رکھ کروہ صرف تاج کے بارے میں بیداری پھیلانے کا کام کر رہی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اسکالر کسی اور تحقیق یا کام میں میں اپنا وقت اوراسکالر شپ لگا سکتے ہیں لیکن وہ تاج کے ہی ارد گرد ہی گھومتے رہ جاتے ہیں۔ عدالتوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ انہیں کتنے اہم مسائل کو چھوڑ کر بی جے پی لیڈر کی عرضی سننی پڑی۔
اس پوری بات چیت کو اس لنک پرملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔