ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں ریپ کے معاملوں میں عدالت کی شنوائی ملزم کے بجائے متاثرہ خاتون کے لئے زیادہ مشکلوں بھری ہوتی ہے، وہیں کچھ نمایاں معاملوں میں سزاسخت کر دینے سے کسی اور کو ایسا کرنے سے روکنا مشکل ہے۔ ایسے زیادہ تر معاملے یاتو عدالتوں کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں یا شواہد کے فقدان میں خارج کر دیے جاتےہیں۔
نئی دہلی: گزشتہ کچھ دنوں سے جنسی تشدد، ریپ اور خواتین کے تئیں تشددکے معاملوں کی خبریں ہندوستانی میڈیا کی سرخیوں میں ہیں،اور ان معاملوں کے ساتھ ایک بات جو لگاتار سنائی دے رہی ہے وہ ہے ‘ریپ کرنے والے کو پھانسی پر لٹکا دو۔ ‘اس بار تو پارلیامنٹ میں بھی یہ سنائی دیا۔ اور تو اور راجیہ سبھاکی ایک رکن پارلیامان چاہتی ہیں کہ ریپ کرنے والوں کی سرعام لنچنگ کردی جائے، وہیں دہلی وومین کمیشن کی صدر منگل سے تب تک کے لئے غیر معینہ مدت بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی ہیں، جب تک تلنگانہ میں ویٹنری ڈاکٹر کے ریپ اورقتل کے ملزمین کو سزائے موت نہیں مل جاتی۔
لیکن کیا واقعی میں موت کی سزا کوئی حل ہے؟ تانیثی مفکرین ، ماہر تعلیم اور کارکن لمبےعرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کی سات اہم وجوہات یہ ہیں؛
اعداد و شمار سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سزائے موت ریپ کو کم کرنے کا مؤثر طریقہ ہے
دنیا بھر میں مختلف قسم کے جرائم کے لئے، کوئی بھی فیصلہ کن طورپر یہ کہنے کا اہل نہیں ہے کہ سزائے موت بچاؤ کا ایک مکمل طریقہ ہے۔ اس معاملے میں ہوئی تحقیق ملے جلے اشارہ فراہم کرتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ موت کی سزا کا مطالبہ ایسے حالات میں تبدیلی کے لیے کیے گئےکسی شدیدغور و فکر کا نہیں بلکہ غصے کا نتیجہ ہے۔ جو حکومتیں یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ وہ ‘ جرم کے تئیں سخت ‘ ہیں، وہ ایسے مطالبے پر فوراً رد عمل دیتی ہیں۔
خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں سزا ملنے کا امکان نسبتاً کم ہے،جہاں عدالت کی سماعت ملزم کے بجائے متاثرہ کے لئے زیادہ مشکل بھری ہوتی ہیں (جہاں اکثر ان کے ذریعے مقدمہ واپس لے لیا جاتا ہے)، وہاں کچھ نمایاں معاملوں میں سزا سخت کر دینے سے کسی اور کو ایسا کرنے سے روکنا مشکل ہے کیونکہ ایسے زیادہ تر معاملے یاتو عدالتوں کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں یا شواہد کے فقدان میں خارج کر دئے جاتےہیں۔
یہاں تک کہ 2012 میں دہلی میں ہوئے نربھیا گینگ ریپ اور قتل معاملے کے بعد بنائی گئی جسٹس جے ایس ورما کمیٹی بھی یہ نہیں مانتی ہے کہ ریپ کے معاملوں میں موت کی سزا دینا ہندوستان کی خواتین کو محفوظ کرنے کا طریقہ ہے۔
حال ہی میں پروفیسر اور لیگل ریسرچر پربھا کوٹسورن نے دی وائر سے بات کرتےہوئے کہا،
‘موجودہ قانون کی پیروی ہی یقینی طور متاثرین کے مفادات کے تحفظ کا سب سےمحفوظ طریقہ ہے۔ جب قوانین کی پیروی نہیں ہوتی، تب اور سخت قوانین کی مانگ بڑھتی ہے،جس کا عمل اور کم ہوتا ہے۔ اور اس طرح مطالبہ کرتے وقت آئین کے ذریعے دی گئی غیرجانبدارانہ سماعت کے حق کی بات نہیں ہوتی اور ایسے وقت میں جب جنسی تعلقات کی صورت تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے، تب رضامندی سے بنائے گئے جنسی تعلقات کو غیرضروری طورپر مجرمانہ بنا دیا جاتا ہے۔ ‘
کم معاملے سامنے آئیںگے
ریپ کے زیادہ تر معاملوں میں ملزم متاثرہ کی جان-پہچان والا ہوتا ہے۔این سی آر بی کی سال 2016 کی رپورٹ کے مطابق94.6 فیصد معاملوں میں ایسا ہوا تھا۔ ایسے میں مان لیجئے ملزم متاثرہ لڑکی کا چچا ہے، تب موت کی سزا ملنے کے ڈر سےہو سکتا ہے کہ متاثرہ جنسی تشدد کے معاملوں کو سامنے ہی نہ لائے یا پھر معاملے کواپنے تک محدود رکھنے کے لئے اس کو اہل خانہ کے دباؤ کاسامنا کرنا پڑے۔
قتل/زیادہ تشدد کا امکان
ایک بار جب یہ واضح ہو جائےگا کہ ریپ کے معاملوں میں موت کی سزاکا امکان زیادہ ہے، تواس کا الٹا اثر ہو سکتا ہے-ریپ سے بچاؤ کے بجائےایسا ہو سکتا ہے کہ ملزم متاثرہ کو مار دے یا ایسی حالت میں پہنچا دے جہاں وہ شکایت کرنے یا مجرموں کو پہچاننے کی حالت میں ہی نہ رہے۔
ججوں کے درمیان اتفاق نہیں
سال 2000 سے 2015 کے درمیان کے 16 سالوں میں 30 فیصد معاملوں میں ٹرائل کورٹ کے ذریعے دی گئی پھانسی کی سزا وپری عدالت میں اپیل کرنے کے بعد الزام سے بری ہونے میں بدل گئی۔پروجیکٹ 39 اے (ایک ریسرچ تنظیم)نے پایا کہ دیگر 65 فیصد معاملوں میں موت کی سزا کم کر دی گئی۔ ایسی کشمکش کی حالت میں جہاں یہ صاف نہیں ہے کہ صحیح سزا کیا ہے-ملزم شخص قصوروار ہے بھی یا نہیں-لوگوں کو پھانسی کے پھندے تک بھیجنے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
‘ سخت ‘ مجرمانہ قانون کمزور طبقوں کونشانہ بنا سکتے ہیں
ملک اور دنیا بھر سے آئی کئی رپورٹس دکھاتی ہیں کہ مجرمانہ عدلیہ نظام میں وہی تعصب دیکھنے کو ملتے ہیں، جو سماج میں ہوتے ہیں-خاص طور پر ان نسبتاً کمزورطبقوں کے تئیں، جو مہنگے وکیل کے پاس نہیں جا سکتے یا اپنے معاملے کو لےکر اوپری عدالت میں اپیل نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر، اس سال کی شروعات میں کئے گئے مطالعے میں پایا گیا کہ ہندوستانی جیلوں میں ایس سی –ایس ٹی کمیونٹی کے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی-ہرتین میں سے ایک آدمی ایس سی –ایس ٹی سے تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک دیگر مطالعے میں پایا گیا کہ ملک میں سزائے موت پائے قیدیوں میں تین-چوتھائی’پسماندہ کمیونٹی ‘ سے ہیں یا ان کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہے۔
مثلاًمدھیہ پردیش میں فروری 2018 سے، جب سے ریاست میں نابالغ سے ریپ کے لئے موت کی سزا کے نئے قانون کی اجازت دی گئی، تب سے زیادہ تر قصوروار پائے گئے لوگ غریب پس منظر کے تھے اوراپنے بچاؤ میں انہوں نے حکومت کے ذریعے اسپانسر کی ہوئی قانونی مدد کا استعمال کیا۔
بدلہ لینے والے انصاف کے مسائل
کئی لوگ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ریپ جیسےجرائم میں قصوروار پائے گئے لوگوں کے خلاف سماج کے بدلے رویے کی حمایت کرے، لیکن ایسا کرنے سے کئی طرح کے جرائم کے لئے موت کی سزا دینے کی اجازت مل جائےگی، جوٹھیک نہیں ہوگا۔بدلہ لینےوالے انصاف کے خلاف، اور کیوں یہ ایک مستقل حل نہیں ہے، کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔
جیسا کہ دی وائر پر اپنے ایک مضمون میں تلسی بھنڈاری نے کہا ہے، ‘اس طرح کی[بدلہ لینے والی] تھیوری میں حکومت کے کردار کو کافی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایسی حالت میں حکومت خود بھی عوامی رائے کے الٹ جانے کا جوکھم نہیں لینا چاہتی اور اس بات کونظرانداز کرتی ہے کہ آزاد سماج ہرایک آدمی کے وقار اور زندگی کو اہمیت دیتا ہے۔ ‘
ریپ کا موازنہ موت سے نہیں کیا جاسکتا
ریپ کے ملزمین کے لئے پھانسی کی مانگ کرتے ہوئے یہ دلیل دی جاتی ہےکہ انہوں نے جو جرم کیا ہے وہ موت کے برابر ہے۔ سشما سوراج نے زندگی اور موت کےدرمیان جھول رہی 2012کے دہلی ریپ معاملہ کی متاثرہ کو‘زندہ لاش ‘ کہا تھا۔تانیثی مفکرین اور کارکن اس تصور کے سخت خلاف ہیں، جہاں عورت کی ‘عزت ‘ کو اصل میں اس کی جنسیت سے جوڑا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہی وہ جینےکے لائق ہے۔
2018 میں خاتون گروپوں نے ملکر بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا؛
‘ریپ کرنے والے کو موت کی سزا دینے کی دلیل اس یقین پر مبنی ہے کہ ریپ موت سے بھی بدتر ہے۔ ‘عزت/ وقار’ کی پدری تعریف ہی ہمیں یہ یقین دلاتی ہےکہ ریپ سے برا ایک عورت کے لئے کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس ‘عزت کھو چکی بربادعورت ‘اور ‘جنسی تشدد کا شکار ہونے کے بعد اس کے لیے سماج میں کوئی جگہ نہیں ‘جیسی دقیانوسی سوچ کو سخت چیلنج دینے کی ضرورت ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ریپ پدری نظام کا ہی حصہ ہے، تشدد کا ایک طریقہ ہے اور اس کا اخلاقیات، کردار اور برتاؤسے کوئی لینا-دینا نہیں ہے۔ ‘