پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی 2005 سے جس گھر میں رہ رہی تھیں، وہ ان سے خالی کرا لیا گیاتھا، جس کے بعد وہ 28 نومبر کو سری نگر سے کچھ فاصلے پر اپنی بہن کے گھر منتقل ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اس گھر کی سکیورٹی کا دو بار جائزہ لیا گیا، لیکن ان رپورٹس کے نتائج سے مفتی کوآگاہ نہیں کیا گیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کوسری نگر میں اپنی اعلیٰ سکیورٹی والی رہائش گاہ خالی کرنے کے لیے مجبور کیے جانے کے بعدانہیں جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ایک اور رہائش کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن انہوں نے اس میں جانے سے انکار کر دیا، جس نے سکیورٹی ایجنسیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
مفتی نے انہیں دی گئی متبادل رہائش گاہ کو ‘رہنے کے لائق نہیں’ قرار دیا ہے۔ سرکاری سکیورٹی ٹیموں نے شہر سے باہر ان کی موجودہ رہائش گاہ کو غیر محفوظ مانا ہے، لیکن زیڈ پلس زمرے کی شخصیت کی حیثیت سے پروٹوکول کے مطابق ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی 2005 سے سری نگر کے گپکر روڈ پر واقع دو منزلہ سرکاری لاج فیئر ویو میں رہ رہی تھیں۔ انہیں اس سال اکتوبر میں بے دخلی کے متعدد نوٹس بھیجے گئے تھے، جس میں ان سے 15 نومبر سے پہلے لاج خالی کرنے کو کہا گیا تھا۔
جب 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو ہٹا کر جموں و کشمیر سے خصوصی حیثیت چھین لی گئی تو اس نے جموں و کشمیر اسٹیٹ لیجسلیچر ممبرز پنشن ایکٹ 1984 کے تحت قانون سازوں کو حاصل مختلف مراعات کو بھی ختم کردیا۔ ان ہی میں ایک سابق وزرائے اعلیٰ کے لیے کرایہ کے بغیر رہائش کی سہولت تھی۔ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے اعلان کے بعد اس قانون کو ختم کر دیا گیا تھا۔
رپورٹس میں کیے گئے سرکاری دعووں کے مطابق، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت میں مرکزکے زیر انتظام علاقہ کی انتظامیہ نے مفتی کو تین متبادل رہائش گاہوں کی پیشکش کی تھی۔ سری نگر کے تلسی باغ اور چرچ لین میں دو رہائش گاہ کی پیش کش کی گئی تھی، جو جموں و کشمیر کے کچھ سابق وزراء اور قانون سازوں، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی رہائش گاہ رہے ہیں۔ جبکہ تیسرا آپشن سری نگر کے ٹرانسپورٹ یارڈ میں دیا گیا تھا۔
تاہم، مفتی کی بیٹی التجا نے ان رپورٹس میں کیے گئے دعووں پر دی وائر کو بتایا کہ ان کے خاندان کو متبادل کے طور پر صرف ایک رہائش گاہ —تلسی باغ میں ایم 5–کی پیشکش کی گئی تھی، نہ کہ تین کی ۔ لیکن ‘پرائیویسی’ اور دیگر وجوہات سے اسے ‘نا مناسب’ پایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ، ہمارا خاندان پرتعیش طرز زندگی کا عادی نہیں ہے، لیکن یہ جگہ خستہ حال ہے اور اس میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
دریں اثنا، پی ڈی پی صدر جو پہلے کہہ چکی ہیں کہ ان کے پاس کوئی رہائش نہیں ہے، سری نگر شہر سے تقریباً 34 کلومیٹر دور کھمبر میں اپنی بہن کے گھر منتقل ہو گئی ہیں۔
تاہم، ان کی روانگی سے چند ہفتے قبل جموں و کشمیر پولیس نے 3 نومبر کو مفتی کی بہن اور بہنوئی (جو وہاں نہیں رہتے) کی ملکیت والے نو تعمیر شدہ تین منزلہ مکان کی سکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
جموں و کشمیر پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے کیے گئے دو حفاظتی جائزے کو دی وائر نے کھنگالاہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ سری نگر کے حضرت بل علاقے کے مضافات میں ایک ‘سنسان’ علاقے میں واقع کھمبر کی رہائش گاہ ‘غیر محفوظ’ ہے کیونکہ وہاں سابق وزیر اعلیٰ پر ‘دہشت گردانہ حملے کا اندیشہ ‘ ہے۔
کمیٹی کی طرف سے دائر کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مکان ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں ‘حال ہی میں دہشت گردانہ حملوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے’، سڑکیں درست نہیں ہیں اور بجلی کا نظام قابل اعتما نہیں ہے اور موبائل کنیکٹیوٹی ناقص ہے، جو کہ ‘سکیورٹی کے نقطہ نظر سےسابق وزیر اعلیٰ اور ان کے خاندان کے لیے ‘خطرناک’ ہے۔
تاہم، 28 نومبر کو اپنی ماں اور بیٹی کے ساتھ گھر میں رہنے آئیں محبوبہ مفتی نے دی وائر کو بتایا کہ گھر میں شفٹ ہونے سے پہلے انتظامیہ کی طرف سے انہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ محفوظ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرےیہاں آنے کے بعد مجھے میڈیا سے معلوم ہوا کہ گھر کو سکیورٹی ایجنسیوں نے غیر محفوظ مانا تھا۔’
پہلی رپورٹ میں سنگین خدشات
جموں و کشمیر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے پہلا سیکورٹی جائزہ 4 نومبر کو کیا گیا تھا۔ رپورٹ 9 نومبر کو پیش کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گھر کا پچھلا حصہ گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا ہے اور دہشت گردانہ حملے/جنگلی جانوروں سے ڈر کا ہر ممکن اندیشہ ہے، اس کے علاوہ مذکورہ مکان کے پاس سے ایک ہائی ٹرانسمیشن پاور لائن بھی گزر رہی ہے۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سری نگر شہر سے گھر کا راستہ ‘گھنے جنگلات’ کی وجہ سے ‘انتہائی حساس ‘ ہے، جس کی وجہ سے یہ ‘ان کی نقل و حرکت کے لیے غیر محفوظ’ ہے۔
مفتی کو زیڈ پلس کٹیگری کی سکیورٹی حاصل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی حفاظت میں تعینات ایس ایس جی کے جوانوں کو روزانہ کھمبر سے سری نگر کے گپکر روڈ پر واقع اپنے بیس تک جانے میں عوامی مداخلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے سیکورٹی میں بڑی خرابی ہو سکتی ہے۔
احتیاطی اقدامات کے طور پر کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ گھر کے ارد گرد پانچ حفاظتی چوکیاں بنانے کی ضرورت ہے جس میں سیکورٹی گارڈز کے لیے ‘مناسب رہائش’ موجود ہو۔
یہ بھی کہا گیا کہ مجوزہ رہائش گاہ سے سری نگر تک پرسکون نقل و حرکت کے لیے سیکورٹی اہلکاروں کی چار سے پانچ کمپنیاں تعینات کرنی ہوں گی، جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بھاری اخراجات کا بوجھ بڑے گا۔
کمیٹی کی جانب سے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد جموں و کشمیر پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی سطح کے افسر کی سربراہی میں اعلیٰ سیکورٹی اہلکاروں کی ایک اور کمیٹی کے ذریعے گھر کا ‘جامع سیکورٹی جائزہ’ لیا گیا، جس نےکمیٹی کے بعض خدشات کو دہرایا۔
دوسرے جائزے میں مزید انتظامات کرنے کو کہا گیا
دوسری کمیٹی نے 11 نومبر کو جائزہ لیا۔ پہلی کمیٹی کی سفارشات میں اس نے گھر کی باؤنڈری وال کو آٹھ فٹ تک اونچا کرنے اور گھر کے گیٹ اور سکیورٹی اہلکاروں کی بیرکوں کے درمیان نئی باؤنڈری وال بنانے کی بات کہی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ گھر کی حفاظت کے لیے ضروری حفاظتی انتظامات کرنے کی تجویز بھی دی اور سکیورٹی اہلکاروں کی رہائش کے لیے بنیادی سہولیات کے انتظامات، سی سی ٹی وی نگرانی، پارکنگ وغیرہ کے انتظامات کرنے کی بھی سفارش کی۔
کمیٹی نے پایا کہ علاقے میں سکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ یہاں ہائی ٹرانسمیشن پاور لائن اور ‘گیلی اور کیچڑ’ والی زمین ہے ۔
‘انتظامیہ سکیورٹی اہلکاروں کے مفادات کے حوالے سے بے حس ہے’
گھرمیں منتقل ہونے کے پندرہ دن سے زیادہ کے بعد التجا مفتی نے 14 دسمبر کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر میں جاری غیر متزلزل صورتحال کے درمیان ان کی والدہ کے ساتھ تعینات سیکورٹی اہلکاروں کے مفادات اور ضروری بنیادی سہولیات کو لے کر انتظامیہ کا رویہ حیران کن اور یہ کہ انتظامیہ بے حس ہو چکی ہے۔
التجا مفتی نے انتظامیہ پر سیکورٹی اہلکاروں کو ‘ناسازگار حالات’ میں رہنے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا۔
خط میں کہا گیا ہے، ‘میں نے پہلے بھی اسی طرح کے خدشات کے بارے میں سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کو بتایا تھا۔ یہ افسوسناک ہے کہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی میری درخواست پر توجہ نہیں دی گئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے التجا نے کہا، ایجنسیوں نے اب اس علاقے کو عسکریت پسندوں کے ٹریک کے طور پر لیبل کیا ہے، جو میرے اندیشوں کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ سب میری والدہ کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور ان رپورٹس کو جان بوجھ کر خارج کر کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایس ڈی جام وال نے دی وائر کو بتایا کہ سیکورٹی ایجنسیوں نے گھر کو محفوظ بنانے کے لیے ‘متعدد اقدامات’ کیے ہیں، لیکن انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔
غورطلب ہے کہ حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر میں سیکورٹی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سال 2023 میں اب تک دو بچوں سمیت چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)