بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں ٹوپی لگائے ایک مخصوص مذہب کے نوجوانوں کے ہجوم کی تصویر لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ، ایک دن یہ بھیڑ آپ کے گھر میں داخل ہوجائے گی، تب پولیس بچانے نہیں آئے گی۔ اس لیے خو دانتظام کر لیجیے۔
نئی دہلی: اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے اکثرسرخیوں میں رہنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے اب ہندوؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ‘جہادیوں’ سے نمٹنے کے لیے اپنے گھروں میں تیر اورکمان رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کی بھیڑ ‘جہاد’ کرے گی تو پولیس بچانے نہیں آئے گی۔
اتر پردیش کی اناؤ سیٹ سے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے اتوار کو اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ‘جہاد’ کرنے آئے لوگوں کی بھیڑ سے بچنے کے لیے پولیس پر بھروسہ نہ کریں۔
انہوں نے ٹوپی لگائے اور ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈےلیے نوجوانوں کے ہجوم کی تصویر لگاتے ہوئے پوسٹ میں لکھا، اگر یہ ہجوم اچانک آپ کی گلی یا آپ کے گھر پر آجائے تو آپ کے پاس اس سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے! اگر نہیں ہے تو کر لیجیے، پولیس بچانے نہیں آئے گی بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسی دربے میں چھپ جائے گی۔
وہ مزید لکھتے ہیں، ایسے مہمانوں کے لیے کولڈ ڈرنک کی ایک یا دوپیٹی ، اصلی والے کچھ تیر اور کمان ہر گھر میں ہونی چاہیے۔ یہ پیغام کسی ایک ریاست کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہے۔ جئے شری رام۔
پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ جب یہ لوگ جہاد کر کے واپس چلے جائیں گے تب پولیس لاٹھی ڈنڈا ٹھوکنے آ جائے گی اور کچھ دنوں بعد معاملہ انکوائری کمیٹی کے پاس جا کر ختم ہو جائے گا۔
اس بارے میں پوچھے جانے پر ساکشی مہاراج نے کہا کہ کہ یہ پوسٹ ان کے فیس بک پیج سے کی گئی ہے اور وہ اس سے پوری طرح سے متفق ہیں۔
بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ نے اس سوال کا کوئی سیدھا جواب نہیں دیتے ہوئے کہ اس پوسٹ کی ضرورت کیوں پڑی، الٹا یہ سوال کیا کہ کیا ہندو پٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔
اس سے قبل سال 2015 میں میرٹھ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ساکشی مہاراج نے کہا تھا کہ ہندو خواتین کو ہندوتوا کے تحفظ کے لیے کم از کم چار بچے پیدا کرنے چاہیے۔ اسی سال انھوں نے کہا تھا کہ مدارس دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو ‘لو جہاد’ کے لیے ترغیب دے رہے ہیں۔
سال 2017 میں ساکشی مہاراج نے بیان دیا تھا کہ ملک کی آبادی ان لوگوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے جو چار بیویوں اور 40 بچوں کی بات کرتے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)