مقتدرہ جماعت نہ صرف ہیٹ اسپیچ پر خاموش ہیں، بلکہ اس کو بڑھاوا بھی دے رہے ہیں: جسٹس نریمن

سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نے لاء کالج کے ایک پروگرام میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سب سے اہم انسانی حق ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کل اس ملک میں نوجوان، طالبعلم، کامیڈین جیسےکئی لوگوں کی جانب سےحکومت کی تنقیدکیے جانے پر نوآبادیاتی سیڈیشن قانون کے تحت معاملہ درج کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نے لاء کالج کے ایک پروگرام میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سب سے اہم انسانی حق ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کل اس ملک میں نوجوان، طالبعلم، کامیڈین جیسےکئی لوگوں کی جانب سےحکومت کی تنقیدکیے جانے پر نوآبادیاتی سیڈیشن قانون کے تحت معاملہ درج کیا جا رہا ہے۔

 جسٹس آر ایف نریمن(فوٹو : یوٹیوب)

جسٹس آر ایف نریمن(فوٹو : یوٹیوب)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نےسیڈیشن قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئےحکومت کی تنقید کرنے والوں کے خلاف سیڈیشن کے تحت معاملہ درج کرنےپر تشویش کا اظہار کیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نریمن نے کہا، وقت آ گیا ہے کہ سیڈیشن کے قانون کو پوری طرح سے ختم کر دیا جائے اور اظہار رائے کی آزادی کی اجازت دی جائے، جب تک کہ اس سےکسی کو تشدد کے لیےاکسایانہ جا رہا ہو۔

جسٹس نریمن نے 14 جنوری کو ممبئی کے ڈی ایم ہریش اسکول آف لاءمیں ایک پروگرام کے دوران کہا، اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف سیڈیشن کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا رہا  ہے لیکن جو لوگ ہیٹ اسپیچ دے رہے ہیں ان سے نمٹا نہیں جا رہا۔

لائیو لاء کے مطابق، انہوں نے کہا، ہیٹ اسپیچ  نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ ایک مجرمانہ فعل بھی ہے۔ یہ آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 505(سی)کے تحت ایک جرم ہے۔ اصل میں اگر اسے عمل میں لایا جاتا ہے تو قصوروارپائے جانے والے شخص کو 3 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ کوئی کم از کم سزا مقرر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا، اگر آپ حقیقت میں ہمارے آئین میں بتائے گئے قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو میں مشورہ دوں گا کہ پارلیامنٹ ان قوانین میں کم از کم سزا کی دفعات میں ترمیم کرے، تاکہ اس طرح کے نفرت بھرے بیان دینے والوں  کو روکا جاسکے۔

جسٹس نریمن نے مزید کہا، آرٹیکل 19 میں ہماری جیسی جمہوریتوں اور جمہوریت کے لبادے میں چھپی تاناشاہی کے بیچ فرق شامل ہے۔ 19(1) سب سے اہم انسانی حقوق ہے، جواظہار کی آزادی کا حق ہے،  لیکن بدقسمتی سے آج کل اس ملک میں نوجوانوں، طلبا، اسٹینڈ اپ کامیڈین اور ان جیسے دیگرلوگوں کے ذریعےحکومت کی تنقید کرنے پر سیڈیشن کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کیاجا رہا ہے۔ جو بہت ہی نوآبادیاتی ہے اور اس کے لیےہمارے آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو ہیٹ اسپیچ دے رہے ہیں، لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور ایک پوری کمیونٹی کے قتل عام کی اپیل کر رہے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کی خواہش مند نہیں ہے۔بدقسمتی سے حکمراں جماعت میں اعلیٰ عہدوں پر ایسے لوگ موجود ہیں جو ہیٹ اسپیچ  پر نہ صرف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔

بتا دیں کہ سات سال کی مدت کار کے بعد جسٹس نریمن گزشتہ سال سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کے دیے گئے اہم فیصلوں میں شریا سنگھل بنام یونین آف انڈیا کا 2015 کا تاریخی فیصلہ شامل ہے، جس میں عدالت نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66اے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ من مانا اور غیر آئینی ہے۔

اس قانون کا استعمال لگاتارسوشل میڈیا پر کیے گئے تبصروں کے لیے لوگوں کے خلاف مقدمہ  درج کرنے کے لیےکیا جاتا  رہا ہے۔

اس سےقبل اکتوبر 2021 میں بھی جسٹس نریمن نے سیڈیشن کے قانون اوریو اے پی اے کوختم کرنے کی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان دونوں قوانین کو ردکر دینا چاہیے، تاکہ لوگ آزادی سے سانس لے سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ، سیڈیشن کا قانون نوآبادیاتی قانون ہے اور یہ ہندوستانیوں بالخصوص مجاہد ین آزادی  کو ہراساں  کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔اس کا  آج بھی  غلط استعمال ہو رہا ہے۔

اسی طرح یو اے پی اے کےبارے میں  انہوں نے کہا تھا، یہ ایک سخت قانون ہے کیونکہ اس میں کوئی پیشگی ضمانت نہیں ہے اور اس میں کم از کم پانچ سال کی قید ہے۔یہ ایکٹ ابھی جانچ کے دائرے میں نہیں ہے۔ اس کو بھی سیڈیشن کے قانون کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ جس کی وجہ سے بولنے کی آزادی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اگر آپ ان قوانین کے تحت صحافیوں سمیت تمام لوگوں کو گرفتارکر رہے ہیں تو لوگ اپنی بات نہیں کہہ سکیں گے۔