ایک پروگرام کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ جب 1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا، تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ اصل ایجنڈہ کیا ہے۔ سب کو بتایا گیا کہ یہ ہندوؤں کو ایک چھت کے نیچے متحد کرنے کے ارادے سے تشکیل دیا گیا ہے۔ رام جنم بھومی جیسے معاملے تب ہی سامنے آئے جب ہم نے خاطرخواہ طاقت حاصل کر لی۔
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے 4 فروری کو کہا کہ اس کے کلچرل ونگ ‘سنسکار بھارتی’ کا ایجنڈہ سنگھ نظریہ کے حامیوں اور ناقدین کو شامل کرنا ہوگا۔
بنگلورو میں اکھل بھارتیہ کلاسادھک سنگم سے خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے اپنے نظریے سے وابستہ آرٹ ناقدین کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے مزید کہا، ‘جب بھی ہم (سنگھ پریوار) کام شروع کرتے ہیں، ہم ایک بار میں پورا ایجنڈا سامنے نہیں لاتے ہیں۔ اس کے بجائے ہم ترقی پذیر پیش رفت پالیسی کو اپناتے ہیں۔’
دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘جب ہم نے سنسکار بھارتی کی بنیاد رکھی، تو ہمارا مقصد آرٹ کا ایک بااثر ادارہ بننا تھا، جو اب ہم بن چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہم اس میدان میں مزید مضبوط ہوں گے۔ اب ہمیں آرٹ ناقدین کا ایک گروپ بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو ‘ستیہ’ اور ‘شیوتوا’ کو ایک ساتھ لانے کے لیے کام کریں گے۔’
انہوں نے کہا، ‘جب 1925 میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا ، تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ اصل ایجنڈہ کیا ہے۔ سب کو بتایا گیا کہ آر ایس ایس ہندوؤں کو ایک چھت کے نیچے متحد کرنے کے ارادے سے بنا تھا۔ رام جنم بھومی جیسے معاملے تب ہی سامنے آئے جب ہم نے خاطر خواہ طاقت حاصل کرلی۔’
فنکاروں کے ایک بڑے گروپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں سنسکار بھارتی کی کامیابی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے ایسے فنکاروں کو شامل کرنے کے آنے والے چیلنج پر روشنی ڈالی جو سنگھ کے نظریے کا اشتراک کرتے ہیں، لیکن ابھی تک اس میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی، اس وقت آرٹ کی تنقید ان مٹھی بھر لوگوں کے مضبوط اثر میں ہے جو معاشروں کو تقسیم کرنے اور غیر محفوظ معاشروں کی تشکیل میں یقین رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں ممالک کو عالمی سطح پر منقسم رہنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے۔ ہمیں اس ڈھانچے کو توڑنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ معاشرہ آرٹ کے ‘ستیہ’ اور ‘شیوتوا’ کو متحد کرکے ایک ہو جائیں۔’
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آر ایس ایس ملک میں گئو کشی پر جامع پابندی لگانے میں کامیاب نہیں رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔