مذہبی آزادی کے حق میں دوسروں کا مذہب تبدیل کرانے کا حق شامل نہیں ہے: مرکزی حکومت

سپریم کورٹ میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق یقینی طور پر کسی شخص کو دھوکہ دہی، زبردستی یا لالچ کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے کا حق نہیں دیتا۔ اس طرح کی روایات پر قابو پانے والے قوانین سماج کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےضروری ہیں۔

سپریم کورٹ میں ایک عرضی کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق یقینی طور پر کسی شخص کو دھوکہ دہی، زبردستی یا لالچ کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے کا حق نہیں دیتا۔ اس طرح کی روایات پر قابو پانے والے قوانین سماج کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےضروری ہیں۔

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: مرکز نے سوموار کو سپریم کورٹ میں کہا کہ مذہب کی آزادی کے بنیادی حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب میں شامل کرانے کا حق نہیں ہے۔ مرکز نے یہ بھی کہا کہ یہ یقینی طور پر کسی بھی شخص کو دھوکہ دہی، دھوکہ ، زبردستی یا لالچ کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے۔

مرکزی حکومت نے کہا کہ وہ ‘خطرے سے آگاہ ہے’  اور اس طرح کی روایات پر قابو  پانے والے قوانین  سما ج کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ ان طبقات میں خواتین اور اقتصادی  و سماجی طور پر پسماندہ افراد شامل ہیں۔

ایڈوکیٹ اور بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے کی عرضی کے جواب میں مرکز نے ایک مختصر حلف نامہ کے ذریعے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ عرضی میں ‘دھمکی’ اور ‘تحفے اور مالی فوائد’ کے ذریعے دھوکہ دہی سے ہونے والی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

اپادھیائے نے سپریم کورٹ کے سامنے کئی عرضیاں دائر کی ہیں – تقریباً سبھی مذہب سے متعلق ہیں – جن میں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرنا، عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ کی دفعات کورد کرنا اور وقف ایکٹ کی بعض دفعات کو چیلنج کرنا شامل ہیں۔

اپادھیائے کو 2021 میں جنتر منتر پر ایک مظاہرے کے دوران نعروں کی شکل میں مسلم مخالف دھمکیاں دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

وزارت داخلہ کے ڈپٹی سکریٹری کے توسط سے داخل کردہ حلف نامہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس عرضی میں مانگی گئی ریلیف پر حکومت ہند ‘انتہائی سنجیدگی کے ساتھ’ غور کرے گی اور وہ اس رٹ پٹیشن میںاٹھائے گئےمعاملے کی سنگینی سے واقف ہے۔

کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا کہ وہ تبدیلی مذہب کے خلاف نہیں ہیں،  بلکہ جبری تبدیلی کے خلاف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے مرکز سے کہا کہ وہ ریاستوں سے جانکاری حاصل کرنے کے بعد اس معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرے۔

بنچ نے کہا، آپ متعلقہ ریاستوں سے ضروری معلومات جمع کرنے کے بعد ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کریں۔ ہم تبدیلی مذہب کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن جبری تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

بنچ نے درخواست پر سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ بنچ نے اس عرضی کو قابل سماعت ہونے سے متعلق دی گئی عرضی پر شنوائی ٹال دی۔

قومی مسئلہ

سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت کو بتایا کہ جبری تبدیلی مذہب ایک’سنگین خطرہ’ اور ‘قومی مسئلہ’ ہے اور مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامے میں کچھ ریاستوں کی طرف سے اٹھائے گئے متعلقہ اقدامات کا ذکر کیا ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ امن عامہ ریاست کا موضوع ہے اور مختلف ریاستوں –  اڑیسہ، مدھیہ پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ، اتر پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک اور ہریانہ نے جبری تبدیلی مذہب  کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون پاس کیے ہیں۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب میں تبدیل کرانے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے۔ مذکورہ حق میں یقینی طور پر دھوکہ دہی، فریب، زبردستی، لالچ یا اس طرح کے کسی دوسرے طریقے سے کسی بھی شخص کو مذہب تبدیل کرانے کا حق شامل نہیں ہے۔

مرکزی حکومت نے حلف نامہ میں کہا کہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی ایک معاملے میں کہہ چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت لفظ ‘تبلیغ’ کسی شخص کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے حق کا تصور نہیں کرتا ہے، لیکن اپنے مذہب/عقیدہ کی وضاحت کرکےمذہب کی تبلیغ کا  حق ہے۔

یہ بھی کہا کہ مذہب تبدیل کرنے کا حق آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہے۔

درخواست گزار اپادھیائے نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اس معاملے میں ایک اضافی حلف نامہ داخل کیا ہے۔ حلف نامے میں انہوں نے مذہبی مبلغین اور غیر ملکی مشنریوں کے لیے ویزا قوانین پر نظرثانی، این جی اوز کے لیے غیر ملکی شراکت کے قوانین پر نظرثانی کرنے اور حوالہ فنڈنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایات کا مطالبہ کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں  عدالت عظمیٰ نے جبری تبدیلی مذہب کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مبینہ تبدیلی مذہب  کا مسئلہ، اگر یہ درست اور حقیقی  پایا جاتا ہے، تو یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے، جس کا تعلق بالآخر قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ شہریوں کے مذہب اور صواب دید  کی آزادی کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مرکزی حکومت اپنا موقف واضح کرے اور وہ/دوسری (ریاستی حکومتیں) ایک حلف نامہ داخل کرے کہ زبردستی، رغبت یا دھوکہ دہی کے ذریعے ایسی جبری  تبدیلی کو روکنے کے لیے مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

دائرعرضی  میں استدعا کی گئی ہے کہ لا کمیشن کو رپورٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ جبری تبدیلی مذہب پر قابو پانے کے لیے بل تیار کرنے کی ہدایت کی جائے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)