راقم کی کام کاجی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے مرد و خواتین کے بارے میں لکھتے ہوئے گزرا، جنہوں نے اس ملک کی تعمیر کی۔ ایسے مرد و خواتین جنہیں اپنی خدمات کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی ‘دیش بھکتی’ کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔یہ ان کے کام تھے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہندوستان کے کیسے خدمت گزار سپوت تھے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے منہ سے کبھی کچھ نہیں کہا۔
جس ہندوستان میں ہم رہتے ہیں، اس میں انسان کسی بھی قماش کا ہو، وہ مادر وطن سے بے حد محبت کا دعویٰ ضرور کرے گا۔’راشٹرواد’، ‘دیش بھکتی’کے دعوے سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن اور خاص طور سے انتخابی ریلیوں میں زور شور سے کیے جاتے ہیں۔ کسی ایسے مباحثے کے اختتام پر جس میں جیتنا مشکل نظر آ رہا ہو، تو ایک فریق یہ راستہ اختیار کرتا ہے کہ وہ خود کو اپنے مقابل سے زیادہ بھارت ماتا سے پریم کرنے والا ظاہر کرے۔
راقم کی کام کاجی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے مرد و خواتین کے بارے میں لکھتے ہوئے گزرا، جنہوں نے اس ملک کی تعمیر کی۔ ایسے مرد و خواتین جنہیں اپنی خدمات کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی ‘دیش بھکتی’ کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔یہ ان کے کام تھے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہندوستان کے کیسے خدمت گزار سپوت تھے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے منہ سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ مجھے یہ اختصاص حاصل رہا کہ دیگر لوگوں کے علاوہ گاندھی، نہرو، پٹیل، امبیڈکر، کملا دیوی چٹوپادھیایے اور ایم اے انصاری جیسی شخصیات کی حیات و خدمات پر تحقیق و تالیف کا کام انجام دوں اور اسے سمجھ پاؤں کہ روایتی درجہ بندی میں جکڑے اور منقسم ملک کو کیسے انہوں نے ایک جمہوری ملک میں تبدیل کیا۔
یہ کالم بھی ان محب وطن لوگوں کے بارے میں ہے، جن سے میری دستاویزی نہیں، روبرو ملاقاتیں ہوئیں۔یہ 1980 کے اوائل کی بات ہے۔ اس وقت میں ‘چپکو آندولن’ کے نقطہ آغاز گڑھوال کے ہمالیائی علاقوں میں تحقیقی کام کر رہا تھا۔ اسی کے تحت کچھ فیلڈ ورک میں نے ‘بڈیار’ کی وادی میں بھی کیا۔ تجارت کے لیے جنگلات کی تخت و تاراج کے خلاف اس وادی میں زبردست ڈھنگ سے چپکو آندولن کیا گیا تھا۔ میں نے ان مرد و خواتین سے بات کی جنہوں نے اس آندولن میں حصہ لیا تھا اور اس بابت اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا بھی (جو بعد کو ناچیز کی پہلی کتاب کی شکل میں شائع ہوا)۔
چپکو پر اسی شائع شدہ اپنے کام میں سے میں نے دو گڑھوالی بزرگوں سے اپنی ملاقاتیں ڈھونڈ نکالی ہیں۔ ان میں سے ایک سابق فوجی بی ایس پنڈیر تھے، جنہوں نے 1947سے48 کی ہند و پاک جنگ میں ویر چکر حاصل کیا تھا۔ ہم ایک شادی میں شامل ہونے پیدل دوسرے گاؤں جا رہے تھے۔ جنگ میں زخمی ہو جانے کی وجہ سے وہ تھوڑا لنگڑا کر چلتے تھے، لیکن ان پہاڑی راستوں پر ان کا ساتھ دے پانا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ وہ بھی تب جبکہ میں ان سے کوئی تیس سال جوان تھا۔ پنڈیر جی اپنے جسم و روح کے ساتھ زندگی سے بھرپور تھے اور جنگ میں ملے زخم ان کا حوصلہ زیر نہیں کر سکے تھے۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ اپنے علاقے میں انہیں کیا مقام حاصل تھا اور لوگ کیسے ان کے تئیں عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کی تھی اور ریٹائر ہونے کے بعد اپنے گھر واپس آن پہنچے تھے۔ ویر چکر حاصل کرنے والے اس جانباز بزرگ سے میں نے ان کی مہمات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے میرے ایسے سوالات کو اڑا دیا اور اس کے بجائے میری تحقیق کے بارے میں بات کرنے لگے۔
میری دوسری ملاقات شاید اور زیادہ قابل ذکر تھی۔ ایک صبح مجھے مجاہد آزادی شیر سنگھ میواڑ کے گھر لے جایا گیا۔ وہ ناٹے قد کے کمزور سے انسان تھے اور شدید دمے کی وجہ سے لگاتار کھانستے رہتے تھے۔ اس کھانسی کی وجہ سے انہیں دیر تک بات کرنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ تب انہوں نے کہا کہ جب میں وہاں سے لوٹنے لگوں، تب ان سے مل کر جاؤں۔ دو دن بعد میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے ہاتھ سے لکھا ایک مسودہ سونپا۔ اس کا عنوان ‘ٹہری گڑھوال کا کرانتی کاری اتہاس’ تھا۔
حب الوطنی کی روح سے لبریز یہ 40 صفحات پر مشتمل ایک غیر معمولی دستاویز تھا، جسے تیار کرنے میں نہ عمر کا ضعف حارج ہو سکا، نہ ہی خرابی صحت مخل ہو پائی۔ ایک باہری شخص کی آمد نے ان کی یادداشت میں دفن تاریخ کے بیش بہا لمحات کو روشن کر دیا تھا۔ ایسے لمحات جنہیں یادگار بنانے میں وہ یعنی شیر سنگھ میواڑ خود شامل رہے تھے۔ دراصل 1946سے47 میں وہ کسانوں کے ذریعے کی گئی اس بغاوت کا حصہ تھے، جس کے بعد ٹہری گڑھوال ہندوستان کا حصہ بنا تھا۔یہ زمین پر کسانوں کے حق کو لے کر شروع کی گئی ایک تحریک تھی، جو آگے چل کر مہاراجہ کی حکمرانی کے خلاف ایک طوفانی آندولن میں بدل گئی۔ اس کا عروج راجدھانی ٹہری پر قبضے اور ایک ‘آزاد پنچایت’ کے قیام کی شکل میں سامنے آیا۔ اپنے محل کی طرف گاڑی سے جا رہے مہاراجہ کو بھاگیرتھی ندی کے پل پر روک دیا گیا۔ اس موقعے کے لیے شیر سنگھ میواڑ نے ‘اس طرف راجہ، اس طرف پرجا’ کے لفظ استعمال کیے تھے۔ ندی کے ایک طرف علاقے کا حکمراں تھا؛ جبکہ دوسری جانب عوام تھے، جو اب اس سے منحرف ہو چکے تھے۔ نوشتہ دیوار پڑھ کر راجہ نے فوراً حکومت ہند کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کر دیے۔
شیر سنگھ میواڑ نے جو مسودہ مجھے سونپا تھا، وہ عنان حکومت بادشاہت سے جمہوریت کو بنا تشدد منتقل کیے جانے کی بابت ایک سچے سپاہی کا تحریر کردہ دستاویز تھا۔ شیر سنگھ نے کسان آندولن اور اس کی قیادت، ٹہری گڑھوال کے باہر سے انہیں ملنے والی حوصلہ افزا مدد، مہاراجہ کے مغالطے اور ان کو دیے جانے والے صلاح مشوروں کی بابت لکھا تھا۔ اہم بات یہ کہ اس میں اپنے رول کی بابت انہوں نے بہت کم لکھا تھا۔ اسی طرح انہوں نے لیڈران کے یا ایک وادی سے دوسری وادی کو بھیجے جانے والے پیغامات کے بارے میں بھی کم لکھا تھا۔
وہ فوجی جس نے در اندازوں کو نکال باہر کیا، وہ ستیہ گرہ کرنے والے جنہوں نے بادشاہ کو جھکنے پر مجبور کر دیا، وہ اپنی حب الوطنی کا، اپنی دیش بھکتی کا ذرا بھی مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہاں توایک خاموش، زیریں حب الوطنی تھی۔ وہ نعرے بازی والی یا شیخی بگھارنے والی دیش بھکتی نہیں تھی۔ ان کی خدمات کے بارے میں جاننے والے ان کا بہت احترام کرتے تھے، جبکہ وہ اس کے خواہشمند نہیں تھے اور نہ ہی ان کی کوئی دیگر خواہشات تھیں۔
1980 کے اوائل میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ بی ایس پنڈیر اور شیر سنگھ میواڑ نے اپنی حب الوطنی عملی طور پر پیش کی، نہ کہ زبانی جمع خرچ کے ذریعے۔ اس بات کو 35 سال ہو گئے۔ ان کی یادیں میرے ذہن میں ابھی بھی محفوظ ہیں۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ پنڈیر جی اپنی چھڑی کے سہارے سنکرے پہاڑی راستوں پر، باوقار انداز میں تسلی سے میرے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے تنہا جا رہے ہیں۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ کھانستے ہوئے شیر شنگھ اپنی جھونپڑی سے نکل رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں میرے لیے مسودہ ہے۔ ایسی دو محب وطن شخصیات سے ملنا میرے لیے بہت ہی فخر کی بات تھی۔ اب ان کے بارے میں لکھنا مجھ پر فرض تھا۔ خاص طور سے ایسے وقت میں جبکہ ایک ایسے شخص نے ترنگے پر بہت بیہودہ ڈھنگ سے قبضہ جما لیا ہے، جسے اس کے بارے میں بہت کم علم ہے۔ اور وہ اس سے بھی کم اس کی قدر کرتا ہے کہ اس ملک کی تعمیر کیسے ہوئی اور کیسے اس کی حفاظت کی گئی۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)