بی جے پی کے اسٹارپرچارک اور مقامی رہنما راجستھان کے انتخابی میدان میں ہندو رائےدہندگان کی صف بندی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک آدھ سیٹ کو چھوڑکر اس کا اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
راجستھان میں پھر سے اقتدار کی واپسی کے لئے بی جے پی نے انتخابی میدان میں پوری طاقت جھونک دی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی کے دوسرے اسٹارپرچارک ریاست میں دھواں دھار جلسے کر رہے ہیں۔ تمام رہنما اپنی تقریروں میں مرکز ی اور ریاستی حکومت کی کامیابیوں اور کانگریس کو کوسنے کے علاوہ ہندو توا کے مدعے کو سب سے زیادہ ہوا دے رہے ہیں۔کوئی رہنما اشاروں میں تو کوئی سیدھے سیدھے ہندو رائےدہندگان کو سادھنے کی جد وجہد میں لگے ہیں۔ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی جلسہ میں بھارت ماتا کی جئے اور رام مندر کے مدعا کو اچھال رہے ہیں، وہیں بی جے پی صدر امت شاہ گھس پیٹھیوں کا معاملہ اٹھاکر پولرائزیشن کی زمین تیار کر رہے ہیں۔
گزشتہ سوموار جب نوجوت سنگھ سدھو کے جلسہ میں مبینہ طور پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو بی جے پی رہنماؤں کی باچھیں کھل گئیں۔ایک طرف کئی خبریا چینلوں پر یہ ویڈیو چلا، وہیں دوسری طرف وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے اپنی تقریروں میں اس معاملے کو زور شور سے اٹھایا۔ لیکن شام ہوتے ہوتے یہ ویڈیو فرضی ثابت ہو گیا۔
ویسے پولرائزیشن کی بی جے پی کے اس سیاسی کھیلکے سب سے بڑے کھلاڑی اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔انھیں بی جے پی نے حکمت عملی کے تحت ایسی سیٹوں پر تشہیر کے لئے اتارا جہاں مسلم رائےدہندگان کی تعداد زیادہ ہے۔وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کے بعد یوگی ہی ایسے رہنما ہیں، جنہوں نے ریاست میں سب سے زیادہ جلسے کیے ہیں۔یوگی نے اپنی تقریروں میں رام بھکت بی جے پی اور راون بھکت کانگریس کو ووٹ دیںگے، ان کے ساتھ علی اور ہمارے ساتھ بجرنگ بلی اور کانگریس دہشت گردوں کو بریانی کھلاتی تھی پر ہم گولی کھلاتے ہیں، بالکل جذباتی باتیں کہہکر لوگوں کو جذباتی طور پر بی جے پی کے ساتھ رہنے کی اپیل کی۔
ایک سینئر بی جے پی رہنما ‘آف دی ریکارڈ ‘بات چیت میں مانتے ہیں کہ یوگی تقریر تو اچھا کر رہے ہیں، لیکن ان کے کہنے میں اتنا وزن نہیں ہے کہ ہندو بی جے پی کی طرف مڑ جائیں۔ وہ اس کے لئے تقریروں میں مقامی مدعوں کی کمی کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ پارٹی کو اس کا افسوس ہے کہ اس بار انتخاب میں نہ تو کانگریس نے ایسا کوئی مدعا چھیڑا اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ ہوا، جس سے پولرائزیشن ہو سکے۔
جئے پور میں ایک انتخابی تشہیر کے دوران اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ(فوٹو : پی ٹی آئی)
بی جے پی کے پالیسی میکر پولرائزیشن کے لئے مقامی مدعا نہیں ملنے سے تو پریشان ہیں ہی، یوگی آدتیہ ناتھ کے جلسہ میں بھیڑ نہیں جمع ہونے سے بھی سکتے میں ہے۔غور طلب ہے کہ یوگی کے کچھ جلسے کو چھوڑکر زیادہ تر میں امید کے مطابق بھیڑ نہیں آئی۔ کئی جگہ تو لوگوں کے بیٹھنے کے انتظام کے مقابلے آدھے لوگ ہی جلسہ میں آئے۔ اجمیر میں ہوئے جلسہ میں تو 2 ہزار لوگ بھی نہیں پہنچے۔
بھیڑ کی کمی کی وجہ یوگی کا ایک متنازعہ تبصرہ بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔الور کے ایک جلسہ میں انہوں نے کہا، ‘بجرنگ بلی ایک ایسے لوک دیوتا ہیں جو خود جنگل باسی ہیں، گر باشندہ ہیں، دلت ہیں اور محروم ہیں۔’یوگی کی طرف سے ہنومان کو دلت بتائے جانے پر جس طرح سے رد عمل آ رہے ہیں، ان کو دیکھکر بی جے پی قیادت فکرمند ہے۔ پارٹی کو ڈر ستا رہا ہے کہ یوگی کا یہ بیان الٹا نقصان نہ کر دے۔
ریاست کی سیاست کے جانکاروں کی مانیں تو بی جے پی کی طرف سے پوری طاقت جھونکنے کے باوجود انتخابی میدان میں ابھی تک پولرائزیشن کی زمین تیار نہیں ہوئی ہے۔ ہاں، ایک آدھ سیٹ پر اس کا اثر ضرور دیکھا جا رہا ہے۔ جیسلمیر ضلع کی
پوکھرن سیٹ ان میں سے ایک ہے۔ بی جے پی نے یہاں سے مہنت پرتاپ پوری اور کانگریس نے صالح محمد کو میدان میں اتارا ہے۔
مہنت پرتاپ پوری باڑمیر ضلع میں پڑنے والے ناتھ فرقے کے تاراترا مٹھ کے مہنت ہیں جبکہ صالح محمد مشہور سندھی-مسلم مذہبی رہنما غازی فقیر کے بیٹے ہیں۔ پرتاپ پوری کھلےعام ہندو توا کی دہائی دےکر ووٹ مانگ رہے ہیں جبکہ محمد پولرائزیشن کے ڈر سے تشہیر کو مذہبی رنگ دینے سے بچ رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ 26 نومبر کو یہاں جلسہ کر چکے ہیں۔بی جے پی کی طرف کی جا رہی پولرائزیشن کی کوشش کو ناکام کرنے کے لئے کانگریس کے کئی امیدواروں نے تشہیر کی حکمت عملی بدل لی ہے۔ سوائی مادھوپور سے پارٹی کے امیدوار دانش ابرار کی ترکیب قابل ذکر ہے۔ وہ تشہیر کی شروعات ‘بھارت ماتا کی جئے ‘بولکر کرتے ہیں۔
بی جے پی راجستھان میں پولرائزیشن کیوں نہیں کر پا رہی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سنگھ کے ایک رہنما کہتے ہیں،’ہندوتوا کے لئے جینے-مرنے والے لوگ وسندھرا حکومت میں ہوئے کئی واقعات سے ناراض ہیں۔اس وجہ سے وہ ابھی تک انتخاب میں فعال نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی غیرفعالیت کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’راجستھان کا ہندو جئے پور میں میٹرو کی آڑ میں مندروں کو توڑنے، کابینہ میں یونس خان کو زیادہ توجہ دینے، ہنگونیا گئوشالہ میں ہزاروں گایوں کی موت اور مالپورا اور فتح پور میں کانوڑ یاترا پر کارروائی میں روک تھام کو بھول نہیں سکتا۔ سویم سیوک کس منھ سے ہندو مفادات کی حفاظت کی دہائی دےکر بی جے پی کے لئے ووٹ مانگے۔ ‘
جئے پور میٹرو کے روٹ میں آنے کے بعد شہر کے قدیم روزگاریشور مہادیو مندر کو ہٹایا جا رہا ہے۔ (فوٹو :اودھیش آکودیا/دی وائر)
غور طلب ہے کہ حکومت نے میٹرو کے روٹ میں آ رہے 132 مندروں کو زمین پرگرا دیا۔ ان میں تاریخی روزگاریشور مہادیو مندر بھی شامل تھا۔ کئی سماجی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی، لیکن سنگھ اور اس سے جڑی تنظیم خاموش رہی۔ حالانکہ سنگھ نے فضیحت سے بچنے کے لئے 9 جولائی، 2015 کو دو گھنٹے کے لئے جئے پور بند کرکےحکومت کے سامنے اپنی مخالفت درج کی۔
مندروں کو توڑنے کا مدعا جئے پور میں ابھی تک زندہ ہے۔ پرانے شہر کی کشن پول اور ہوامحل اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو اس معاملے میں خاموش رہنا بھاری پڑ رہا ہے۔ کشن پول سے انتخاب لڑ رہے بی جے پی امیدوار موہن لال گپتا کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان کا دستخط کیا ہوا ایک خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں انہوں نے مندر توڑنے پر اتفاق کیا ہے۔
کشن پول سیٹ پربھارت شرما کا آزاد امید وار کے طور پرتال ٹھوکنا بھی بی جے پی کے لئے پریشانی پیدا کر رہا ہے۔ سنگھ میں پچھلے سال تعلیم یافتہ بھارت شرما وہی شخص ہیں، جنہوں نے جئے پور میں مندر توڑنے کے خلاف منظم شکل سے تحریک چلائی۔ وہ کشن پول سے آزاد امیدوار کے طور پرانتخاب لڑ رہے ہیں۔ سنگھ اور بی جے پی کے کئی کارکن ان کی انتخابی تشہیر کر رہے ہیں۔
بھارت شرما بی جے پی کے ہندو پریم کو ریاکاری قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہے، ‘اگر بی جے پی ہندوؤں کی خیر خواہ ہے تو اس کی حکومت نے جئے پور میں132مندر کیوں توڑے؟ اتنے مندر تو اورنگ زیب نے بھی نہیں توڑے تھے۔جئے پور میں مندروں کو شفٹ کرنے کے نام پر بی جے پی کے رہنماؤں نے پیسے کھائے۔ ان کو اسمبلی کی بجائے جیل بھیجنا چاہیے۔ ‘
ہندوتواکی وجہ سے بی جے پی کی حمایت کرنے والوں کے درمیان یونس خان کو وسندھرا حکومت میں زیادہ توجہ ملنا بھی بات چیت کا موضوع رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یونس خان کے پاس عوامی تعمیر اور نقل وحمل جیسے دو بڑے محکمے کی ذمہ داری تھی۔ عام طور پر ان محکمہ جات کے دو الگ الگ کابینہ وزیر ہوتے ہیں۔
یونس خان دو بڑے محکمہ جات کے وزیر ہونے کی وجہ سے ہی نہیں، اپنی
سرکاری رہائش گاہ سے شیو مندر کو توڑکر سڑک پر قائم کرنے کی وجہ سے بھی ہندوادی تنظیموں کے نشانے پر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سنگھ ان کو اس بار ٹکٹ دینے کی حمایت میں نہیں تھا، لیکن وسندھرا راجے ان کے لئے اڑ گئیں۔ یونس خان کو اپنی روایتی سیٹ ڈیڈوانا سے تو ٹکٹ نہیں ملا، لیکن پارٹی نے ان کو ٹونک سے سچن پائلٹ کے سامنے میدان میں آخری دور میں اتارا۔
راجستھان کے ہندووادی فرقوں کی وسندھرا حکومت سے ناراضگی کی ایک وجہ فتح پور، مالپورا اور جیتارن میں ہوئے واقعات بھی ہیں۔ سیکر ضلع کے فتح پور اور ٹونک ضلع کے مالپورا میں اسی سال اگست میں کانوڑیوں پر حملہ ہوا تھا۔ ہندووادی تنظیموں کو شکایت ہے کہ حکومت نے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ہندوؤں پر ہی مقدمہ درج کروا دئے۔
وہیں، پالی ضلع کے جیتارن میں اسی سال مارچ میں دو کمیونٹی کے درمیان ہوئے تصادم کی کسک ابھی تک ہندووادی تنظیموں کے دل میں ہے۔ ہنومان جینتی کا جلوس جب قصبے کے نیاپورا علاقے سے گزر رہا تھا تو دو کمیونٹی کے درمیان دوکان کے باہر نعرےبازی کو لےکر بحث ہوئی۔دونوں طرف سے جم کر پتھراؤ اور آگ زنی ہوئی، جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔
ہندووادی تنظیموں کے مطابق پولیس نے اس واقعہ کے بعد یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے سنگھ اور اس سے جڑی تنظیموں کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ سنگھ اس کے لئے وزیر سریندر گوئل کو ذمہ دار مانتا ہے۔ جیتارن سے ان کا ٹکٹ کٹنے کی وجہ مارچ میں ہوئے اسی واقعے کو مانا جا رہا ہے۔ گوئل نے ٹکٹ کٹنے کے بعد اس بات کو دوہرایا۔ اب وہ آزادامیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، ان واقعات کی وجہ سے بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کی راہ مشکل ہونا طے ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
The post
کیوں پوری طاقت جھونکنے کے باوجود راجستھان میں بی جے پی پولرائزیشن کرنے میں ناکام رہی appeared first on
The Wire - Urdu.