بنا چہرہ اعلان کئے میدان میں اترنے اور ٹکٹ بٹوارے میں کھینچ تان کی وجہ سے کانگریس یکطرفہ جیت سے چوک گئی، لیکن پارٹی نے حکومت بنانے لائق اکثریت حاصل کر لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیوں پوری طاقت جھونکنے کے باوجود راجستھان میں بی جے پی پولرائزیشن کرنے میں ناکام رہی
بی جے پی نے پارٹی کا گڑھ مانے جانے والے ہاڑوتی میں بھی نِسبتاً اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ بی جے پی نے یہاں کی 17 سیٹوں میں سے 10 سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔ حالانکہ 2013 میں یہاں سے پارٹی کو 16 سیٹوں پر جیت ملی تھی۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ نقصان مشرقی راجستھان، شیکھاواٹی اور میواڑ میں جھیلنا پڑا ہے۔ بھرت پور، کرولی اور سوائی مادھوپور ضلع میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ پر جیت نصیب نہیں ہوئی۔ بی جے پی میں 10 سال بعد ڈاکٹر کروڑی لال مینا کی گھر واپسی کے بعد یہ مانا جا رہا تھا کہ مشرقی راجستھان میں پارٹی کی کشتی پار لگائیںگے، لیکن ان کی بیوی گولما دیوی سپوٹرا اور بھتیجے راجیندر مینا مہوا سے انتخاب ہار گئے۔ مینا اکثریت والی کرولی، سوائی مادھوپور اور دوسا ضلعوں میں بی جے پی کا پتہ صاف ہو گیا۔جاٹ اکثریت شیکھاوٹی میں بھی بی جے پی کی حالت پتلی رہی۔ کانگریس نے یہاں سے یکطرفہ جیت حاصل کی۔ سیکر، جھنجھنوں اور چور ضلع کی کچھ سیٹوں پر ہی بی جے پی کو بہ مشکل جیت حاصل ہوئی۔ بی جے پی کا گڑھ مانے جانے والے جئے پور ضلع میں پارٹی کا مظاہرہ امیدوں کے مطابق نہیں رہا۔ 19 سیٹوں میں سے محض 6 سیٹوں پر پارٹی کو جیت نصیب ہوئی۔ میواڑ سے بھی بی جے پی کو جھٹکا لگا ہے۔ پارٹی کو 29 سیٹوں میں سے محض 5 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی ہے۔کانگریس نے بی جے پی کو پٹخنی تو دے دی، لیکن وہ یکطرفہ جیت حاصل کرنے سے چوک گئی۔ سیاسی مبصرین اس کے پیچھے وزیراعلیٰ کا چہرہ اعلان نہیں کرنے اور آپسی کھینچ تان کو ذمہ دار مان رہے ہیں۔ پارٹی نے الیکشن کا نقارہ بجنے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اجتماعی قیادت میں میدان میں اترےگی۔ راہل گاندھی کی ہدایت پر پارٹی کے رہنما ایک ساتھ ضرور نظر آئے، لیکن وزیراعلیٰ عہدے کے دعوے دار کے درمیان خوب رسہ کشی ہوئی۔کانگریس کی ٹکٹ تقسیم میں اشوک گہلوت، سچن پائلٹ اور رامیشور ڈوڈی کے درمیان زبردست کھینچ تان دیکھنے کو ملی۔ یہ طے ہونے کے بعد کہ گہلوت اور پائلٹ انتخاب لڑیںگے، ان دونوں رہنماؤں اور ڈوڈی نے اپنے-اپنے چہیتوں کو ٹکٹ دلوانے کے لئے زور لگا دیا۔ اس زور-آزمائش سے کئی سیٹوں پر ایسے امیدواروں کا انتخاب ہو گیا۔ گہلوت، پائلٹ اور ڈوڈی کے درمیان رسہ کشی اگر بند کمرے میں ہوتی تو پھوٹ جگ ظاہر نہیں ہوتی، لیکن کئی سیٹوں پر ان سورماؤں کا سر-پھٹول عوامی ہو گیا۔کھینچ تان کا عالم یہ رہا کہ سینٹرل سلیکشن کمیٹی کی بیٹھک میں راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کے سامنے سچن پائلٹ اور رامیشور ڈوڈی میں تصادم ہو گیا تھا۔ دونوں کے درمیان جئے پور ضلع کی پھلیرا سیٹ پر اپنی پسند کے رہنما کو ٹکٹ دینے کو لےکرتوتو-میں میں ہوئی۔ وزیراعلیٰ عہدے کے لئے دعوےداری جتا چکے حزبِ مخالف جماعت کے رہنما رامیشور ڈوڈی نے نوکھا سیٹ سے خود کی سیٹ سے جیت متعین کرنے کے لئے پچھلے انتخاب میں ان کے سامنے آزاد انتخاب لڑ چکے کنہیّا لال جھنور کو کانگریس کی رکنیت دلوائی، بلکہ ان کو محض آدھے گھنٹے بعد بیکانیر مشرقی سیٹ سے پارٹی کا ٹکٹ بھی دلوا دیا۔ دوسری طرف پانچ بار ایم ایل اے رہے ڈاکٹر بی ڈی کلہ کو بیکانیر مغرب سے ٹکٹ نہیں ملا۔کلا کا ٹکٹ کٹنے سے ناراض ان کے حامیوں نے بیکانیر میں تیکھی مخالفت کی تو پارٹی نے ان کو امیدوار بنا دیا۔ وہیں، بیکانیر مشرقی سے کنہیّا لال جھنور کی جگہ یشپال گہلوت کو امیدوار بنا دیا۔ اس تبدیلی سےحزبِ مخالف کے رہنما رامیشور ڈوڈی اکھڑ گئے۔ انہوں نے یہاں تک دھمکی دے دی کہ پارٹی نے کنہیّا لال جھنور کو ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑیںگے۔ڈوڈی کے اس ضد سے اعلیٰ کمان کے ہاتھ-پاؤں پھول گئے۔ پارٹی نے کنہیّا لال جھنور کو بیکانیر مشرقی سے امیدوار بنا دیا اور یشپال گہلوت کا ٹکٹ کاٹ دیا۔ بار بار امیدوار بدلنے کو بی جے پی نے مدعا بنا لیا۔حالانکہ اتنی اٹھا پٹک کرنے کے باوجود رامیشور ڈوڈی انتخاب ہار گئے۔ کنہیّا لال جھنور بھی بیکانیر مشرقی سے انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بیکانیر مغرب سے بی ڈی کلہ ضرور جیت گئے۔ آپسی کھینچ تان کی وجہ سے کانگریس کو 35 سیٹوں پر سیدھی بغاوت جھیلنی پڑی۔ اگر پارٹی ٹکٹ تقسیم سے پیدا ہوئی مخالفت کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی تو پارٹی تقریباً دو درجن سیٹوں پر اور جیت درج کر سکتی تھی۔حالانکہ پارٹی کے آدھا درجن باغی آزاد انہ طور پرانتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان میں بابو لال ناگر، مہادیو سنگھ کھنڈیلا،سئینم لوڈھا اور آلوک بینیوال بڑے نام ہیں۔کانگریس نے راجستھان میں فتح ضرور حاصل کی، لیکن پارٹی کے کئی بڑے رہنما انتخاب ہار گئے ہیں۔ ان میں حزبِ مخالف کے رہنما رامیشور ڈوڈی کے علاوہ ڈاکٹر گرجا ویاس، درّو میاں، ویریندر بینیوال، ڈاکٹر کان سنگھ یادو، ہرموہن شرما اور مانگیلال گراسیا بڑے نام ہیں۔ گرجا ویاس یو پی اے حکومت میں وزیر رہی ہیں جبکہ درّو میاں، ویریندر بینیوال، ہرموہن شرما اور مانگیلال گراسیا ریاستی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ وہیں، ڈاکٹر کرن سنگھ یادو الور سے رکن پارلیامان ہیں۔اس انتخاب میں ریاست میں تیسرے مورچے کے کھڑے ہونے کے امکانات پر بھی سکتہ لگا دیا ہے۔ آزاد ایم ایل اے ہنومان بینیوال نے انتخاب سے پہلے جئے پور میں بڑا جلسہ کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حمایت کے بغیر راجستھان کی اگلی حکومت نہیں بنےگی، لیکن ان کی راشٹریہ لوک تانترک پارٹی محض تین سیٹوں پر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے کئی سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے لیے معاملے ضرور خراب کئے۔ وہیں، بی جے پی سے ناطہ توڑ بھارت واہنی پارٹی کے بینر تلے کانگریس اور بی جے پی کو چیلنج دینے والے گھنشیام تیواڑی کا مظاہرہ بےحد پھیکا رہا۔ان کی پارٹی کو ایک سیٹ پر بھی جیت حاصل نہیں ہوئی۔ 6 بار ایم ایل اے رہے تیواڑی سانگانیر سیٹ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ (مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ ) The post راجستھان: وسندھرا حکومت سے عوام کی ناراضگی بی جے پی کو پڑی بھاری appeared first on The Wire - Urdu.