رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے مانگی گئی معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر لگائے گئے وزیر اعظم نریندر مودی کی فوٹو والے ہر مستقل سیلفی بوتھ کی لاگت 6.25 لاکھ روپے ہے، جبکہ ہر عارضی سیلفی بوتھ کی لاگت 1.25 لاکھ روپے ہے۔ یہ جانکاری سینٹرل ریلوے نے فراہم کی تھی، جس کے بعد بغیر کوئی نوٹس دیے اس کے ایک افسر کا تبادلہ کر دیا گیا۔
نئی دہلی: ریلوے اسٹیشنوں پر نصب سیلفی پوائنٹ کی لاگت پر تنازعہ کے بعد ریلوے نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت معلومات فراہم کرنے کے لیے زونل ریلوے کے لیے اصولوں کو سخت کر دیا ہے۔
نئے قوانین کے تحت، تمام جوابات کو زونل ریلوے کے جنرل منیجرز یا ڈویژنل ریلوے مینیجر کے ذریعے منظور کیا جانا چاہیے۔
بتادیں کہ حال ہی میں ایک آر ٹی آئی میں انکشاف ہوا تھا کہ ریلوے اسٹیشنوں پر لگائے گئے وزیر اعظم نریندر مودی کی فوٹو والے ہر مستقل سیلفی بوتھ کی لاگت 6.25 لاکھ روپے ہے، جبکہ ہر عارضی سیلفی بوتھ کی لاگت 1.25 لاکھ روپے ہے، جو وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت سینٹرل کمیونی کیشن بیورو کے ذریعے منظور کردہ لاگت ہے۔ یہ جانکاری سینٹرل ریلوے نے آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں فراہم کی تھی۔
دی ہندو کے مطابق، 28 دسمبر 2023 کو تمام زونل ریلوے کے جنرل منیجر کو بھیجی گئی ایک ایڈوائزری میں ریلوے بورڈ نے کہا کہ حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ‘زونل ریلوے اور دیگر فیلڈ اکائیوں کو موصول ہونے والی آر ٹی آئی درخواستوں کے جوابات کا معیار خراب ہو گیا ہے۔’
اس میں کہا گیا ہے، ‘کئی معاملات میں، آر ٹی آئی درخواستوں کو نمٹانے کی آخری تاریخ گزر چکی ہے، جس کے نتیجے میں فرسٹ اپیل اتھارٹی یا سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے سامنے بڑی تعداد میں اپیلیں دائر کی گئی ہیں، جس سے نہ صرف کام کا بوجھ بڑھتا ہے بلکہ تنظیم کی شبیہ بھی خراب ہو رہی ہے۔’
ایڈوائزری میں کہا گیا کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایکٹ میں دی گئی عرضی کو نمٹانے کے لیے مقررہ وقت کے اندر کامیابی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے، اب سے تمام آر ٹی آئی درخواستوں کے جوابات بالترتیب زونل ریلوے میں جنرل منیجر (جی ایم ) اور ڈویژن میں ڈویژنل ریلوے مینیجر (ڈی آر ایم ) کی سطح پر منظور کیے جائیں گے۔
مزید کہا گیا ہے، ‘اسی طرح آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت موصول ہونے والی پہلی اپیلوں کے جوابات متعلقہ جی ایم اور ڈی آر ایم کو دکھائے جانے چاہیے۔’
ریلوے نے عرضی گزاروں کی طرف سے مانگی گئی معلومات فراہم کرنے کے لیے آر ٹی آئی ایکٹ-2005 کی دفعات کے تحت ایک پبلک انفارمیشن آفیسر اور چیف پبلک انفارمیشن آفیسر کو نامزد کیا تھا۔ سدرن ریلوے کے ذرائع نے بتایا کہ ایکٹ کے مطابق جنرل منیجرز یا ڈویژنل ریلوے منیجرز کا اپیلٹ یا مجاز اتھارٹی کے طور پر کوئی کردار نہیں ہے۔
تنازعہ کے مرکز میں یہ جو جانکاری ہےوہ سینٹرل ریلوے کے ڈپٹی جنرل منیجر ابھے مشرا نے ریلوے کے سابق افسر اجئے بوس کی جانب سے دائر کی گئی آر ٹی آئی کے جواب میں انہیں فراہم کرائی تھی۔
مشرا کی جانب سے جانکاری شیئر کرنے کے بعد ان کے سینئر افسر سینٹرل ریلوے کے پبلک ریلیشن آفیسرشیواجی مانس پورے کا تبادلہ کر دیا گیا تھا، حالانکہ ان کو اس عہدے کو سنبھالے ہوئے صرف سات مہینے ہوئے تھے۔ عام طور پر یہ عہدہ دو سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے۔