جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ، مدیران نے کہا – آزاد میڈیا کو چپ کرانے کی کوشش

جموں و کشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے)  نے جمعرات کو جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ اخبار کے مالکان نے اس چھاپے ماری  کو آزاد میڈیا کو چپ کرانے  کی کوشش قرار دیا ہے۔

جموں و کشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے)  نے جمعرات کو جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ اخبار کے مالکان نے اس چھاپے ماری  کو آزاد میڈیا کو چپ کرانے  کی کوشش قرار دیا ہے۔

جمعرات، 20 نومبر 2025 کو ایس آئی اے کے چھاپے کے دوران کشمیر ٹائمز کے دفتر کے باہر اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سری نگر: جموں و کشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی(ایس آئی اے)نے جمعرات (20 نومبر) کو جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ مارا ۔

اخبار کے مالکان نے اس چھاپے ماری کو ‘آزاد میڈیا کو چپ کرانے کی کوشش’ قرار دیا ہے ۔ وہیں،کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ سمیت آزادی صحافت کے دیگر حامیوں اور کچھ سیاسی گروپوں نے پولیس کے اس چھاپے ماری کی مذمت کی ہے۔

غور طلب ہے کہ یہ چھاپے ماری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ریونیو کی کمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اخبار کا وجود تقریباً ختم ہو گیا ہے، حالانکہ حالیہ مہینوں میں اس نے اپنے ڈیجیٹل مواد میں اضافہ کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق، کشمیر ٹائمز کے دفتر پر ایس آئی اے کی جانب سے ‘ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے’، ‘بے اطمینانی پھیلانے’ اور ‘علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے’ کے الزام میں درج کیے گئے ایک معاملے کے میں چھاپہ مارا گیا تھا۔

اگرچہ حکام نے ابھی تک معاملےکی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔ اس سلسلے میں اخبار کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر، انورادھا بھسین، جن کا مبینہ طور پر ایس آئی اے کی ایف آئی آرمیں درج ہے، نے الزام لگایا کہ انہیں ‘اقتدار کے سامنے سچ بولنے’ کے لیےنشانہ بنایا جا رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ میگزین  بھسین اور ان کے شوہر پربودھ جموال چلاتے ہیں، جو وہاں کے سینئر ایڈیٹر بھی ہیں، اور یہ دونوں ملک سے باہر رہتے ہیں۔

آزاد میڈیا کو ڈرانے کی کوشش

ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ ایس آئی اےکے الزامات جموں و کشمیر میں’آزادمیڈیا کو ڈرانے، اس کے جواز کو کمزور کرنے اور بالآخراسے چپ کرانے’ کے لیے لگائے گئے تھے۔

قبل ازیں رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ایس آئی اے کی ایک ٹیم نے جمعرات کو جموں میں اخبار کے مرکزی دفتر کے احاطے سے ‘اے-47کارتوس، پستول کی گولیاں اور تین گرینیڈ لیور’ برآمد کیے ہیں۔

ایک مقامی نیوز ایگریگیٹر نے نامعلوم عہدیداروں کے حوالے سے بتایا،’ تحقیقات کا مقصد اخبار کے مبینہ روابط اور سرگرمیوں کی جانچ کرنا ہے جو ہندوستان کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہیں۔’

اس رپورٹ کے لکھے جانے تک چھاپے ماری کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ بھسین کے والداور جموں و کشمیر کےسینئر صحافی وید بھسین نے 1954 میں اس اخبار کا اجرا کیا تھا۔ کشمیر ٹائمز کا صدر دفتر جموں میں ہے، لیکن 2019 سے پہلے، جب جموں و کشمیر ایک ریاست تھی، اسے سری نگر سے بھی شائع کیا جاتا تھا۔

تاہم، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا، اخبار کی قسمت ڈوبنے لگی۔ بھسین نے انٹرنیٹ کی طویل بندش کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ان کے معاملے نے سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ یقینی بنانے کے لیے تحریک دی کہ انٹرنیٹ کو غیر معینہ مدت تک بلاک نہیں کیا جا سکتا، یہاں تک کہ قومی سلامتی کے نام پر بھی، کیوں کہ یہ آزادی اظہار کے لیے بہت ضروری ہے۔

غور طلب ہے کہ بھسین  اے ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370  کی مصنفہ بھی ہیں، جس پر حال ہی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے 24 دیگر کتابوں کے ساتھ پابندی عائد کر دی تھی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئےبھسین نے کہا کہ 2019  کے بعدسے جموں و کشمیر میں سیاسی پیش رفت اور میڈیا پر پابندیوں کے بعد ان کا پرنٹ ایڈیشن ‘تقریباً بند’ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا،’مسلسل نشانہ بنائے جانے کے بعد 2021-2022 میں ہم نے اپنا پرنٹ ایڈیشن بند کر دیا تھا، لیکن ہم ڈیجیٹل طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔’

جموں و کشمیر حکومت سالانہ کروڑوں روپے اشتہارات کی مد میں مختص کرتی ہے، جو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اخبارات کے ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم کشمیر ٹائمز ان متعدد اخبارات میں سے ایک ہے جنہیں بغیر تحریری وجہ بتائے سرکاری اشتہارات حاصل کرنے  کی فہرست سے بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل 2020 میں بھسین نے الزام لگایا تھا کہ اس انگریزی اخبار کو پریس انکلیو، سری نگر میں واقع اس کے دفتر سے ‘بغیر کسی قانونی کارروائی کے’ بے دخل کردیا گیا تھا۔

سری نگر کے دفتر کے بند ہونے کے بعد اخبار کا جموں دفتر پرانے ہیریٹیج سٹی کی ایک عمارت میں تقریباً ایک سال تک چلتا رہا، جسے حکومت سے کئی سال پہلے لیز پر لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا،’ہم نے لیز کے معاہدے کی تجدید کے لیے درخواست دی، لیکن یہ برسوں سے زیر التواء ہے۔ دفتر 2021 تک کبھی کبھار کھلا  تھا،اس کے بع بند ہوگیا۔’

اس معاملے میں کشمیر ٹائمز سے وابستہ ایک سیکورٹی گارڈ کو مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔

اخبار آزاد صحافت کے ایک ستون کے طور پر کھڑا ہے: بھسین

بھسین نے کہا کہ اخبار ‘آزاد صحافت کے ایک ستون کے طور پر کھڑا ہے’ جس نے ‘خطے کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو مساوی گہرائی کے ساتھ دکھایا ہے’۔

بھسین اور ان کے شوہر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا،’ہم نے ان طبقات کو آواز دی ہے جن کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ جب دوسرے خاموش رہے تو ہم نے سخت سوال پوچھے۔ ہمیں اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے  کیوں کہ ہم یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب تنقیدی آوازیں بہت کم ہو رہی ہیں، ہم ان چند آزاد میڈیم میں سے ایک ہیں جو اقتدار کے سامنے سچ بولنے کے لیے تیار ہیں ۔’

بیان میں حکام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ‘فوراً اس ہراسانی کو روکیں، ان بے بنیاد الزامات کو واپس لیں اور آزادی صحافت کی آئینی ضمانت کا احترام کریں۔’

بیان میں مزید کہا گیا ہے، ‘ہم میڈیا کے اپنے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم سول سوسائٹی اور شہریوں سے اپیل کرتے ہیں جو یہ جاننے کے اپنے حق کی قدر کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ اس بات کا امتحان ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت کے ماحول میں صحافت زندہ رہ سکتی ہے یا نہیں۔’

انہوں نے مزید کہا،’صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔ احتساب کا مطالبہ کرنا غداری نہیں ہے۔ اور ہم ان لوگوں کو مطلع کرنا، تحقیقات  کرنااور ان کی وکالت کرنا جاری رکھیں گے جو ہم پر انحصار کرتے ہیں۔ ریاست کے پاس ہمارے دفاتر پر چھاپہ مارنے کا اختیار ہو سکتا ہے، لیکن وہ سچائی کےتئیں ہمارے عزم پر حملہ نہیں کر سکتی۔’