
سرکاری انشورنس کمپنی ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس کو 15 سال کے لیے 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جس پر ہر سال 7.75 فیصد سود ملےگا۔ راہل گاندھی نے اسے عوام کے پیسے کا استعمال کرکے ایک پرائیویٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا اقدام قرار دیا ہے۔ خبروں کے مطابق، یہ ڈیل نجی طور پر اوپن مارکیٹ سے باہر کی گئی ہے۔

راہل گاندھی۔تصویر بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: سرکاری ملکیت والی لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون (اے پی ایس ای زیڈ) کے 5000 کروڑ روپے کے بانڈ کو مکمل طور پرسبسکرائب کر لیا ہے۔ یہ سودا 7.75فیصد کے کوپن ریٹ پر ہوا ہے۔
اس کے بارے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل (3 جون 2025) کو حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام کا پیسہ نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ایل آئی سی نے عام لوگوں سے انشورنس پریمیم کے طور پر اکٹھا کیا گیا پیسہ اڈانی گروپ میں لگایا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘پیسہ، پالیسی، پریمیم آپ کا۔ سیکورٹی، سہولت، فائدہ اڈانی کا!
पैसा, पॉलिसी, प्रीमियम आपका,
सुरक्षा, सुविधा, फायदा अडानी का! pic.twitter.com/7czlLG4pUd— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) June 3, 2025
راہل گاندھی نے اس پوسٹ کے ساتھ بلومبرگ کی ایک رپورٹ بھی شیئر کی ، جس میں کہا گیا ہے کہ ایل آئی سی نے اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈ کے ذریعہ جاری کردہ 5000 کروڑ روپے کے بانڈز اکیلے ہی خریدے ہیں۔ یعنی اس بانڈ کا صرف ایک خریدار تھا – ایل آئی سی۔
آسان لفظوں میں کہیں تو، اکیلے ایل آئی سی نے اڈانی کی کمپنی کو 5000 کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، جسے 15 سال بعد واپس کرنا ہوگا اور اسے ہر سال 7.75 فیصد سود ملے گا۔
رپورٹ کے مطابق، اڈانی پورٹس اس رقم کو اپنے کاروباری اخراجات کو پورا کرنے اور پہلے لیے گئے غیر ملکی قرضوں (ڈالر کے قرضوں) کی ادائیگی کے لیے استعمال کرے گی۔
اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکنامک زون لمیٹڈنے بھی گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اب تک کی سب سے بڑی گھریلو بانڈ فروخت کے ذریعے 5000 کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔ یہ رقم ایل آئی سی سے 15 سالہ مدت کے نان کنورٹیبل ڈیبینچرز (این سی ڈی) کے ذریعے جمع کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے بزنس اسٹینڈرڈ نے ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا، ‘اس بانڈ ایشو میں صرف ایک بولی ایل آئی سی کی طرف سےآئی تھی اور یہ پہلے سے طے شدہ اور نجی طور پر بات چیت کے ذریعےطے شدہ ڈیل تھی۔ کوئی اور بولی نہیں آئی۔ اور چونکہ اسے اوپن مارکیٹ میں جاری نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اس میں ‘گرین شو آپشن’ (اضافی سرمایہ کاری کا آپشن) نہیں تھا۔’
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کمپنی اسے اوپن مارکیٹ میں لاتی تو اسے اس سےبھی زیادہ شرح سود ادا کرنا پڑتی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔
‘پندرہ سال کی مدت کے بانڈ عام طور پر بینکوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر انشورنس کمپنیاں یا پراویڈنٹ فنڈ کے ادارے حصہ لے سکتے تھے، لیکن اڈانی نے اس لین دین کے لیے صرف ایل آئی سی سے رجوع کیا۔’