راہل گاندھی آر ایس ایس کی سیاست کے خلاف بولتے رہے ہیں، اس لیے انہیں تباہ یا بے اثر کیے بغیر آر ایس ایس کا ہندوستان کو ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت ان پر پوری طاقت سے حملہ کر رہی ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت کے لیےراہل گاندھی کی سزا اور ان کی لوک سبھا رکنیت کے خاتمے کےمعنی و مفہوم انتہائی سنگین ہیں۔ اس لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس کا احساس کرتے ہوئے اس کی کھل کر مذمت اور تنقید کی ہے۔ہاں ، راہل گاندھی کے ساتھ اظہار یکجہتی سے یہ مطلب اخذنہیں کیا جا سکتا کہ تمام پارٹیوں نے انہیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا ہے، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کی صحت کے بارے میں راہل گاندھی کی رائے اب عام سیاسی رائے بنتی نظر آرہی ہے۔ یہ اطمینان کی بات ہے۔
پہلے راہل گاندھی کی رکنیت کی منسوخی پر بات کرلیں۔ کسی بھی ایم پی کو اگر 2 سال یا اس سے زیادہ کی سزا ہو تو اس کی رکنیت قانونی طور پر ختم کی جا سکتی ہے۔
بھگت سنگھ کی شہادت کے دن گجرات کے سورت کی ایک عدالت نے انہیں ہتک عزت کے ایک مقدمے میں ہتک عزت کے قانون کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے دو سال قید کی سزا سنائی۔ یہ ان کی رکنیت کو ختم کرنے کے لیے کافی تھا۔ بڑی تیزی سے کام کرتے ہوئے لوک سبھا سکریٹریٹ نے قانون کی پیروی کی اور راہل گاندھی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹس جاری کر دیا۔
راہل گاندھی کو دی گئی سزا پر ماہر قانون حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ 4 سال قبل ایک انتخابی جلسہ میں راہل گاندھی نے لاکھوں کروڑوں کی ہیرا پھیری اور غبن کرکے ملک سے فرار ہونے والے مجرموں کا نام لیتے ہوئے ان کا رشتہ نریندر مودی سے جوڑتے ہوئے طنز کیا تھاکہ ان سارے چوروں کے نام میں مودی کیوں ہے۔ اس کو لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سابق ایم ایل اے نے گجرات کی ایک عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔
کم لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً ایک سال قبل اس نے اپنے ہی کیس کو ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کے لیے گجرات ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی۔ یہ بہت عجیب تھا کیونکہ عام طور پر ملزمان مقدمے سے بچنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں مدعی چاہتے تھے کہ سماعت ملتوی کی جائے۔ لیکن اس پر ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ گجرات ہائی کورٹ نے اس عجیب و غریب مطالبے کو قبول کر لیا۔
ابھی سال پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ مدعی ایک بار پھر ہائی کورٹ پہنچ گیا اور کیس کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا۔ عدالت نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے ایک سال کا التواء مانگا تھا، جلدی کیوں؟ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے بی جے پی لیڈر کی بات مان لی۔
کیا ہمیں اس بات پرحیران ہونا چاہیے کہ اس سال فروری میں مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی اور اس بار جج بدل گئے تھے، یعنی وہ نہیں تھے جن کے سامنے تقریباً پورا ٹرائل ہوا تھا؟ کیااس پر بھی تعجب ہونا چاہیے کہ عدالت نے ایک ماہ کے اندر پورے کیس کی سماعت کر کے فیصلہ سنا دیا۔ ہم نے بہت کم کیس میں اس مختصر مدت میں مقدمے کی سماعت کومکمل ہوتے اوراس پر فیصلہ سنا تے دیکھا ہے۔ لیکن اب تو سب کچھ یا کچھ بھی ممکن ہے۔
اگر ان تمام حقائق کو چھوڑ بھی دیں تو ماہرین قانون کہہ رہے ہیں کہ یہ معاملہ کہیں سے ہتک عزت کا نہیں بنتا ہے۔ دراصل اپنے کئی فیصلوں میں سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں نے واضح کیا ہے کہ ہتک عزت کے معاملے میں یہ تسلی ہونی چاہیے کہ شکایت کرنے والے کی شخصی طور پرہتک ہوئی ہے۔ پھر حالات پربھی غور کرنے اور ارادہ دیکھنا لازمی ہے۔ یعنی کسوٹی بہت سخت ہے۔
ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے راہل گاندھی کا مذاقیہ بیان کہیں سے بھی کسی ایک فرد یا برادری کو بدنام نہیں کرتا ہے۔ اگر عدالت نے یہ مان بھی لیا تو اس کیس میں اس نے زیادہ سے زیادہ سزا کیوں سنائی؟
سمجھنے والے جانتے ہیں کہ راہل گاندھی کی پارلیامنٹ کی رکنیت دو سال سے کم کی سزا میں ختم نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے راہل گاندھی کو پارلیامنٹ سے باہر کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عوام کو یہ باور بھی کرانا ہے کہ اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں، یہ توقانون کی مجبوری ہے۔ لیکن اس فیصلے کو آج کے تناظر میں رکھے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا۔
پچھلے کچھ دنوں سے بی جے پی اور حکومت کے لوگ راہل گاندھی کو لوک سبھا میں بولنے نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے پارلیامنٹ میں راہل گاندھی پر الزام لگایا کہ انہوں نے لندن میں ہندوستان کے خلاف بات کی، ہندوستان کو بدنام کیا۔ انہوں نے لوک سبھا اسپیکر کو لکھا کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ انہیں ان الزامات کا جواب دینے کا موقع دیا جائے۔ لیکن یہ نہیں کیا گیا۔
پھر بھی راہل گاندھی کو کتنے دنوں تک پارلیامنٹ میں بولنے سے روکا جا سکتا تھا؟ اگر موقع ملتا تو وہ وہی باتیں دہراتے جو انہوں نے لندن میں کہی تھیں اور جو وہ پچھلے کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں۔ راہل گاندھی کا مائیک کتنے دنوں تک بند کیا جا سکتا تھا؟
راہل گاندھی کیا بول رہے تھے؟
یہی کہ ہندوستان میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے۔ پارلیامنٹ پر حکمران جماعت کا قبضہ ہے۔تمام جمہوری ادارے اپنی آئینی ذمہ داری چھوڑ کر بی جے پی اور حکومت کے ادارے بن کر کام کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ہو یا جانچ ایجنسیاں، سب اپوزیشن اور عوام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ حکومت کو جوابدہ بنانے والے میڈیا نے سرکار کے ترجمان کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ پرجوش طریقے سے حزب اختلاف اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے نت نئے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ عدلیہ نے اہم معاملات میں حکومت کا ساتھ دیا ہے اور شہریوں کی آزادی کے تحفظ میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔
حکومت عوام کے ووٹ سے بنی ہے لیکن وہ ملک کے تمام وسائل چند سرمایہ دار خاندانوں کے حوالے کر رہی ہے۔ خاص طور پر راہل گاندھی کا نریندر مودی کے گوتم اڈانی کے ساتھ تعلقات پر بار بار زور دینا مودی اور بی جے پی کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ اہم راہل گاندھی کا ہندوستان کو آئینی طریقے سے چلانے پر اصرار کرناہے۔
راہل گاندھی نے تہذیب، شائستگی، ہم آہنگی اور بات چیت کو ہندوستانی سیاست اور زندگی کی بنیاد کے طور پر دوبارہ قائم کرنے کے لیے بھارت جوڑو یاترا کی۔ کسی بھی طریقے سے الیکشن جیتنے کے بجائے کچھ سماجی اور انسانی اصولوں کو بحال کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اسی لیے راہل گاندھی نے اس تنقید کو نظر انداز کر دیا کہ وہ الیکشن پر توجہ نہیں دے رہے ہیں اور غیر ضروری سفر کر رہے ہیں، جس کا کوئی انتخابی فائدہ نہیں ملے گا۔
ہندوستان اپنے کروڑوں لوگوں کے درمیان جاری ایک مسلسل ڈائیلاگ ہے،ان کا آپس میں تال میل ہے۔ وہ کسی ایک گروہ سے اپنی تعریف وضع نہیں کرے گا، چاہے ان کی تعداد کتنی بھی ہو۔ یہ بات راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کے اکثریتی نظریے کے بالکل برعکس ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اس لیے غلط نہیں ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہندوؤں کاخیر خواہ بتاتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ ہندوؤں کو باقی ہندوستان یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں سے ڈراتے رہتے ہیں، اور اس طرح ان میں مستقل عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں، اور پھر خود کو ان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
وہ ہندوؤں میں ان برادریوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی سیاسی زبان خوف، دھمکی، تشدد سے بھری ہوئی ہے۔ یہ آخر کار مسلم اور مسیحی برادریوں کو دوسرے درجے کے شہری کا درجہ دینے کی سیاست ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران راہل گاندھی نے اس پرتشدد سیاست کے خلاف نرم، مہذب سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تنازع آر ایس ایس اور بی جے پی کی علیحدگی پسندی ، بالا دستی اور اسی وجہ سے پرتشدد سیاست کے درمیان ہے، جو تحریک آزادی کے دوران تیار ہوئی اور آزاد ہندوستان کی رہنما اقدار پر مبنی ہے جیسا کہ آئین نے تجویز کیا ہے، جو سب کے لیے برابری، سب کے لیے انصاف پر زور دیتی ہے، سب کی آزادی کے لیے بھائی چارہ کی بات کرتی ہے ۔راہل گاندھی نےبہادری کے ساتھ ہندوستان کو بار بار ریاستوں کا وفاق قرار دیا ہے۔ یہ بھی آر ایس ایس کے مرکزی نقطہ نظر کے خلاف ہے۔
تاریخی وجوہات کی بنا پر راہل گاندھی ان اقدار کے ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک علامت بھی بن چکے ہیں۔یہ بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ راہل گاندھی ہی ان سیاستدانوں میں سے ہیں جو آر ایس ایس کی سیاست کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ لہٰذا، انہیں تباہ یا بے اثر کیے بغیرہندوستان کو ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا آر ایس ایس کا خواب مکمل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور حکومت پوری طاقت سے راہل گاندھی پر حملہ آور ہیں۔
امیدکریں کہ یہ ایسا موقع بن جائے کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک ساتھ کھڑی ہوکر عوام کو بتائیں کہ راہل گاندھی پر حملے کا کیا مطلب ہے۔ تبھی ہندوستان کی جمہوریت کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)