سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتےکہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رافیل ڈیل: دستاویز’چوری‘کے الزام کے بعد دی ہندو کے چیئر مین نے کہا-اپنے ذرائع کے تحفظ کے لئے پرعزم ہوں
این رام نے کہا ہے کہ وہ اپنے ذرائع کو لےکرسنجیدہ ہیں۔ اس کے بارے میں جاننے کی کوئی کوشش بھی نہ کریں۔سیکریٹ آؤٹ ہونے پر ہی گھوٹالہ آؤٹ ہوتا ہے۔ گھوٹالہ آؤٹ ہونے پر فائل کو سیکریٹ بتانے کا فارمولہ پہلی بار آؤٹ ہوا ہے۔ بوفورس سے لےکے 2 جی تک تمام گھوٹالے کی خبروں کو اسی طرح سے حاصل کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں منظور ہوا ہے اور ان کی بنیاد پر تفتیش آگے بڑھی ہے۔ حکومت رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔ فائل کی جانکاری کو سیکریٹ بتاکے وہ پھر سلامتی کے ہنگامے میں بچ نکلنا چاہتی ہے۔ ترجمان کی ہلاگاڑی لگاکرشور پیدا کر دےگی۔ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے نکل جائےگی۔دی ہندو کی ساری رپورٹ پڑھیں۔ اس میں رافیل سے متعلق ٹیکنیکل باتیں نہیں ہیں جو سیکریٹ ہوتی ہیں۔ وہ باتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کیسے وزیر اعظم دفتر تمام پروسیس کو درکنار کرتے ہوئے، وزارت دفاع کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے اپنی سطح پر دلچسپی لے رہا تھا۔ اگر حکومت کو واقعی لگتا ہے کہ رافیل کی تکنیکی جانکاری سے متعلق سیکریٹ آؤٹ ہوا ہے تو اس کو فوراً معاہدہ منسوخ کر دینا چاہیے۔سیکریٹ کی دلیل بوگس ہے، جیسے چوکیدار کا جاگتے رہو کہنا بوگس ہے۔ اٹارنی جنرل غضب کے وکیل اور تھانیدار ہیں۔ کاش اتنی صفائی سی اے جی کو آتی۔ جس نے عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے رافیل معاہدے کی قیمتوں پر رپورٹ دی ہے۔ نمبر کی جگہ ‘ا ب ج’ لکھکر پیسے کا حساب کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دی ہندو کی جانکاری کو سیکریٹ فائل کا حصہ بتاکر سی اے جی کی رپورٹ پر بھی سوال کر دیا ہے۔وزیر اعظم مودی کا رافیل معاملہ پیچھا کر رہا ہے۔ احساسِ جرم کی طرح۔ وہ ہر اس موقع کا استعمال کرتے ہیں جس میں وہ رافیل کو لےکر لگے الزامات سے پیچھا چھڑا سکیں۔ اس کے لئے جھوٹ کا دفاعی لبادہ اوڑھے گھومتے ہیں۔ پلواما کے بعد آپریشن بالاکوٹ کے ہوتے ہی کہنے لگے کہ رافیل ہوتا تو یہ ہو جاتا۔ ان کا یہ بیان جاگتے رہو سنڈروم کا تھا۔ آدھی ادھوری جانکاری کی بنیاد پر لوگوں کو جگائے رکھنے کی کوشش یہ چمتکاری بابا ہی کرتا ہے۔عام لوگوں کو کیا پتہ کہ ہوا میں طیاروں کی دفاعی قطارکیسے تیار ہوتی ہے۔ اس میں رافیل آگے ہوتا یا سکھوئی 30 آگے ہوتا۔ چوکیدار گاؤں کیا، فوج کیا، تھانے کا حفاظتی تظام نہیں جانتا ہے۔ وہ صرف رات بھر گھومنے کے لئے ہوتا ہے۔ وہ سلامتی کی آخری اور اعلیٰ ترین گارنٹی نہیں ہے۔ بنیادی گارنٹی ضرور ہے۔وزیر اعظم کو ہر بات میں خود کو چوکیدار نہیں کہنا چاہیے۔ خود کو چوکیدار اور پردھان سیوک کہتے کہتے بھول گئے ہیں کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ اس لئے جاگتے رہو، جاگتے رہو بولکر کچھ بھی بول جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس چوکیداری ماڈل سے باخبر رہیں۔ یہ ماڈل بوگس ہے۔ ویسے وزیر اعظم اب بھی ایک کام کر سکتے ہیں۔ ساتویں پاتال میں جاکر سیکریٹ فائل کھوج سکتے ہیں۔ جس پر وہی سب سیکریٹ باتیں ہیں جن کے بارے میں ان کو بتاتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہاتھ کب کانپتے ہیں۔ (یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)