مودی حکومت کے پاس داسو ایوی ایشن کے ساتھ سودے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ ثبوت تھے۔ ایسے میں یہ سودا کیوں ہوا؟ اگر پچھلی یو پی اےحکومت میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟
فرانس میں داسو ایویشن کی فیکٹری میں رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: مودی حکومت کی متنازعہ رافیل ڈیل کو لےکر حال ہی میں ایک اور
اہم انکشاف ہوا ہے، جس میں پتہ چلا ہے کہ داسو ایوی ایشن کے ذریعےمڈل مین سشین گپتا کو سال 2007 سے 2012 کے بیچ 65 کروڑ روپے (سات ملین یورو)کی رشوت دی گئی تھی۔
گپتا وہی شخص ہیں، جن کے خلاف اس وقت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالے میں منی لانڈرنگ کی جانچ کر رہی ہے۔
اس کو لےکر پانچ بڑے سوال اٹھتے ہیں۔
اگر رشوت کا ثبوت تھا تو ڈیل سے اینٹی کرپشن کی شق کیوں ہٹائی گئی؟
مودی حکومت کی دلیل ہے کہ رافیل مڈل مین سشین گپتا کو یو پی اے کی مدت کار میں کمیشن یا رشوت ملے تھے اور اس وقت یہ ڈیل مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ اگر ایسا ہے تو اس بات کے واضح ثبوت تھے کہ ڈیل کے لیے رشوت دی گئی تھی، لیکن مودی حکومت نے نئے رافیل سودے سے اہم اینٹی کرپشن کی شق کیوں ہٹا دی۔
کیا اسی مڈل مین کے لیے ویسا ہی رویہ اپنایا گیا؟
فرانس کی تحقیقاتی ویب سائٹ میدیاپار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسی مڈل مین سشین گپتا نے مودی حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعد بھی کام کیا تھا اور سال 2015 کے بعد داسو کو وزارت دفاع کےحساس دستاویز بھی مہیا کرائے تھے۔
فرانس کی اینٹی کرپشن ایجنسی-ایجنس فرانکیسے اینٹی کرپشن (اایف اے)نے یہ بھی پایا تھا کہ داسو ایوی ایشن نے رافیل بنانے کےلیےایک ہندوستانی کمپنی کو
ایک ملین یورو کی ادائیگی کی تھی۔حالانکہ وزیرقانون روی شنکر پرساد نے 7.87 بلین یورو کے سودے میں مڈل مین کوادائیگی کی خبروں کو ‘پوری طرح سےبے بنیاد’ بتاتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔
سال 2014 کے بعد داسو کے سال ڈیل میں سشین گپتا کا کیا رول تھا؟
ہندوستانی تفتیش کاروں کو ملے دستاویز بتاتے ہیں کہ سال 2015 میں،آخری بات چیت کے دوران سشین گپتا نے ہندوستانی مذاکرہ کاروں کے رخ اور طیارےکی قیمت کا انکشاف کرنے والے خفیہ دستاویزوں کو حاصل کیا تھا۔ نہ تو داسو اور نہ ہی سشین گپتا نے اس کو لےکر کوئی تبصرہ کیا ہے، لیکن شاید حکومت ہند یہ بتا سکتی ہے کہ کیسےیہ کاغذات بولی لگانے والے کے پاس پہنچ گئے۔
سی بی آئی جانچ کیوں نہیں ہوئی؟
میدیاپار نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح سی بی آئی اور ای ڈی کو اکتوبر 2018 میں ہی اس بات کےثبوت مل گئے تھے کہ گپتا کو داسو نے 65 کروڑ روپے کی رشوت دی تھی،بالخصوص یہ رافیل ڈیل سے جڑا ہوا تھا۔
سی بی آئی کو 11 اکتوبر 2018 کو ماریشس کے اٹارنی جنرل کے دفترسے کئی دستاویز ملے تھے، جس میں وہ ‘فرضی بل’بھی شامل تھا جس کے ذریعے سشین گپتا کو پیسہ دیا گیا تھا۔ ایسا جانچ ایجنسی کو رافیل معاملے میں بدعنوانی سے متعلق آفیشیل شکایت ملنے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوا تھا۔
رافیل سودے کو لےکر سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن اور بی جے پی کےسابق وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری نے شکایت دائر کی تھی۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب شکایت گزاروں نے سال 2015 میں مشتبہ سرگرمیوں کے خدشے کا اظہار کیا تھیا تو ایسے میں داسو ایوی ایشن کے ساتھ ڈیل کیسے سائن کی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ23 اکتوبر، 2018 کو، دستاویزوں کو حاصل کرنے کے صرف10دنوں کے اندر اس وقت کےسی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو راتوں رات ہٹا دیا گیا تھا۔
سی بی آئی نے ثبوت ملنے کے باوجود رشوت کے الزامات کی جانچ کیوں نہیں کی، کیا رافیل سے متعلق دستاویزوں نے ہی سی بی آئی ڈائریکٹر کو ہٹانے میں رول نبھایا؟
داسو ایوی ایشن کو بلیک لسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟
کیگ(سی اے جی)کی ایک رپورٹ میں پایا گیا تھا کہ انڈیپنڈنٹ ایکسٹرنل مانیٹرس کی ایک ٹیم نے
27 مارچ، 2015 کو کہا تھا کہ داسو کی پیش کش متضاد، ادھورا اور مقررہ فارمیٹ میں نہیں تھی۔ ان نتائج کو شائع کرنے سے داسو کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا۔
مودی حکومت کے پاس داسو کے ساتھ سودے اور پسندیدہ شراکت دار کے روپ میں اسے بنائے رکھنے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ ثبوت تھے۔ دو ہفتے بعد ہی پیرس میں رافیل ڈیل سائن کیوں ہوئی؟ اگر پچھلی یو پی اے سرکار میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔)