رافیل سودے سے متعلق ان پانچ بڑے سوالوں کا جواب مودی حکومت  کو ضرور دینا چاہیے

مودی حکومت کے پاس داسو ایوی ایشن کے ساتھ سودے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ ثبوت تھے۔ ایسے میں یہ سودا کیوں ہوا؟ اگر پچھلی یو پی اےحکومت میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟

مودی حکومت کے پاس داسو ایوی ایشن کے ساتھ سودے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ  ثبوت تھے۔ ایسے میں یہ سودا کیوں ہوا؟ اگر پچھلی یو پی اےحکومت میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟

فرانس میں داسو ایویشن کی فیکٹری میں رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : رائٹرس)

فرانس میں داسو ایویشن کی فیکٹری میں رافیل ہوائی جہاز (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: مودی حکومت  کی متنازعہ رافیل ڈیل کو لےکر حال ہی میں ایک اور اہم انکشاف  ہوا ہے، جس میں پتہ چلا ہے کہ داسو ایوی ایشن کے ذریعےمڈل مین سشین گپتا کو سال 2007 سے 2012 کے بیچ 65 کروڑ روپے (سات ملین یورو)کی رشوت دی گئی تھی۔

گپتا وہی شخص ہیں، جن کے خلاف اس وقت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالے میں منی لانڈرنگ کی جانچ کر رہی ہے۔

اس کو لےکر پانچ بڑے سوال اٹھتے ہیں۔

اگر رشوت کا ثبوت تھا تو ڈیل سے اینٹی کرپشن کی شق کیوں ہٹائی گئی؟

مودی حکومت کی دلیل ہے کہ رافیل مڈل مین سشین گپتا کو یو پی اے کی مدت  کار میں کمیشن یا رشوت ملے تھے اور اس وقت یہ ڈیل مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ اگر ایسا ہے تو اس بات کے واضح ثبوت تھے کہ ڈیل کے لیے رشوت دی گئی تھی، لیکن مودی حکومت نے نئے رافیل سودے سے اہم اینٹی کرپشن کی شق کیوں ہٹا دی۔

کیا اسی مڈل مین  کے لیے ویسا ہی رویہ اپنایا گیا؟

فرانس کی تحقیقاتی  ویب سائٹ میدیاپار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسی مڈل مین سشین گپتا نے مودی حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعد بھی کام کیا تھا اور سال 2015 کے بعد داسو کو وزارت دفاع کےحساس  دستاویز بھی مہیا کرائے تھے۔

فرانس کی اینٹی کرپشن ایجنسی-ایجنس فرانکیسے اینٹی کرپشن (اایف اے)نے یہ بھی پایا تھا کہ داسو ایوی ایشن نے رافیل بنانے کےلیےایک ہندوستانی کمپنی کوایک ملین یورو کی ادائیگی کی تھی۔حالانکہ وزیرقانون روی شنکر پرساد نے 7.87 بلین یورو کے سودے میں مڈل مین کوادائیگی  کی خبروں کو ‘پوری طرح سےبے بنیاد’ بتاتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔

سال 2014 کے بعد داسو کے سال ڈیل میں سشین گپتا کا کیا رول تھا؟

ہندوستانی تفتیش کاروں کو ملے دستاویز بتاتے ہیں کہ سال 2015 میں،آخری بات چیت کے دوران سشین گپتا نے ہندوستانی مذاکرہ کاروں کے رخ اور طیارےکی قیمت کا انکشاف کرنے والے خفیہ دستاویزوں کو حاصل کیا تھا۔ نہ تو داسو اور نہ ہی سشین گپتا نے اس کو لےکر کوئی تبصرہ کیا ہے، لیکن شاید حکومت ہند یہ بتا سکتی ہے کہ کیسےیہ کاغذات بولی لگانے والے کے پاس پہنچ گئے۔

سی بی آئی جانچ کیوں نہیں ہوئی؟

میدیاپار نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح سی بی آئی اور ای ڈی  کو اکتوبر 2018 میں ہی اس بات کےثبوت مل گئے تھے کہ گپتا کو داسو نے 65 کروڑ روپے کی رشوت دی تھی،بالخصوص  یہ رافیل ڈیل سے جڑا ہوا تھا۔

سی بی آئی کو 11 اکتوبر 2018 کو ماریشس کے اٹارنی جنرل کے دفترسے کئی دستاویز ملے تھے، جس میں وہ ‘فرضی بل’بھی شامل تھا جس کے ذریعے سشین گپتا کو پیسہ دیا گیا تھا۔ ایسا جانچ ایجنسی کو رافیل معاملے میں بدعنوانی  سے متعلق  آفیشیل شکایت ملنے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوا تھا۔

رافیل سودے کو لےکر سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن اور بی جے پی کےسابق وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری نے شکایت دائر کی تھی۔

اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب شکایت گزاروں نے سال 2015 میں مشتبہ سرگرمیوں کے خدشے کا اظہار کیا تھیا تو ایسے میں داسو ایوی ایشن کے ساتھ ڈیل کیسے سائن کی گئی۔

قابل ذکر ہے کہ23 اکتوبر، 2018 کو، دستاویزوں کو حاصل کرنے کے صرف10دنوں کے اندر اس وقت  کےسی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کو راتوں رات ہٹا دیا گیا تھا۔

سی بی آئی نے ثبوت ملنے کے باوجود رشوت کے الزامات کی جانچ کیوں نہیں کی، کیا رافیل سے متعلق دستاویزوں نے ہی سی بی آئی ڈائریکٹر کو ہٹانے میں رول نبھایا؟

داسو ایوی ایشن کو بلیک لسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟

کیگ(سی اے جی)کی ایک رپورٹ میں پایا گیا تھا کہ انڈیپنڈنٹ ایکسٹرنل مانیٹرس کی ایک ٹیم نے 27 مارچ، 2015 کو کہا تھا کہ داسو کی پیش کش  متضاد، ادھورا اور مقررہ فارمیٹ میں نہیں تھی۔ ان نتائج کو شائع کرنے سے داسو کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا۔

مودی حکومت کے پاس داسو کے ساتھ سودے اور پسندیدہ شراکت دار کے روپ میں اسے بنائے رکھنے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ  ثبوت تھے۔ دو ہفتے بعد ہی پیرس میں رافیل ڈیل سائن کیوں ہوئی؟ اگر پچھلی یو پی اے سرکار میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔)

 

Next Article

دہلی کی عدالت نے کپل مشرا کے فرقہ وارانہ ٹوئٹ کی لاپرواہ جانچ پر پولیس کی سرزنش کی

دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ نے دہلی حکومت کے کابینہ وزیر کپل مشرا کے سال 2020 میں کیے گئے فرقہ وارانہ ٹوئٹ کی تحقیقات کےطریقے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی۔ ٹوئٹ میں مشرا نے سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں ہوئے پرامن احتجاج کا موازنہ ‘منی پاکستان’ سے کیا تھا۔

کپل مشرا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور دہلی کے کابینہ کے وزیر کپل مشرا کی جانچ کے طریقے کو لے کر دہلی پولیس کی سرزنش کی ۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، یہ معاملہ 2020 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر مبینہ طور پر فرقہ وارانہ طور پرپولرائزکرنے والے پیغامات پوسٹ کرنے کے لیے مشرا کے خلاف درج ایف آئی آر سے متعلق ہے۔

راؤز ایونیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ویبھو چورسیا نے کہا کہ عدالت نے 20 مارچ 2024 سے پچھلے ایک سال تک مشرا کے ایکس ہینڈل سے ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششیں بے سود رہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ انہوں نے پولیس سے 8 اپریل 2025 تک لگ بھگ 10 بار متعلقہ تفصیلات جمع کرنے کو کہا تھا۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق ، یہ معاملہ مشرا کے اس ٹوئٹ پر ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے شاہین باغ میں ایک ‘منی پاکستان’ بنایا ہے، جہاں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن دھرنا دیا جا رہا ہے، اور اس وقت کے اسمبلی انتخابات ‘ہندوستان اور پاکستان’ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

دہلی پولیس کی تنقید کرتے ہوئے جج نے کہا کہ پولیس کی طرف سے کوئی بھی اس کیس کے بارے میں معلومات دینے کے لیے موجود نہیں  ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا کہ، ‘عدالتی ہدایات کے حوالے سے جانچ ایجنسی کے لاپرواہ رویے پر کوئی سخت تبصرہ کرنے سے پہلے یہ عدالت معاملے کی حیثیت اور تفتیشی ایجنسی کی جانب سے دی گئی ناکافی وضاحت کے سلسلے میں پولیس کمشنر کے نوٹس میں لانے کے لیے مجبور ہے۔’

لائیو لا کے مطابق، مارچ میں دہلی ہائی کورٹ نے مشرا کے خلاف مقدمے میں ٹرائل کورٹ کی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا، مشراکی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پاکستان’ کا لفظ انھوں نے اپنے مبینہ بیانات میں نفرت پھیلانے کے لیے بہت مہارت سے استعمال کیا تھا، انتخابی مہم میں ہونے والے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے تئیں لاپرواہ ہوکر ، صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے۔

عدالت کے تازہ ترین تبصرے شمال -مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے کردار کی تحقیقات کے لیے مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیے جانے کے دو ماہ بعد سامنے آئے ہیں ۔ دہلی پولیس نے ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والی درخواست کی مخالفت کی تھی ۔

اس نے کہا تھا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں مشرا کے مبینہ کردار کی پہلے ہی جانچ کی جا چکی ہے اور اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔

Next Article

ششی تھرور کا دفاع کرتے نظر آئے کرن رجیجو، پاناما میں دیے بیان کے لیے کانگریس نے کی تھی تنقید

آپریشن سیندورکے بعد بیرون ملک بھیجے گئے کل جماعتی وفد میں شامل کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے کہا تھا کہ پہلی بار ہندوستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پار کرکے  کارروائی کی۔ جب کانگریس نے اس پر تنقید کی تو مرکزی وزیر کرن رجیجو تھرور کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور، جو ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، پاناما میں ہندوستانی برادری سے خطاب کر تے ہوئے۔تصویر: ایکس

نئی دہلی: مرکزی وزیر کرن رجیجو بدھ (28 مئی) کو اس وقت کانگریس لیڈر ششی تھرور کا بچاؤ کرتے نظرآئے جب ترواننت پورم کے ایم پی کو ایک بار پھر نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی حمایت کرنے پر اپنی ہی پارٹی – کانگریس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار تنقید کی وجہ ان کا ہزاروں کلومیٹر دور پاناما میں دیا گیا بیان تھا۔

پاناما میں وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ چار روزہ فوجی تنازعہ کے بعد ہندوستان کے اجتماعی عزم کو پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے بیرون ملک بھیجے گئے سات آل پارٹی وفدمیں سے ایک کی قیادت کر رہے تھے۔

پاناما میں ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے تھرور نے کہا، ‘حالیہ برسوں میں جو تبدیلی آئی  ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ پہلی بار ہندوستان نے ستمبر 2016 میں اڑی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کی خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ کچھ ایساتھا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘کارگل جنگ کے دوران بھی ہم نے لائن آف کنٹرول کو عبور نہیں کیا تھا، لیکن ہم نے اڑی میں ایسا کیا۔ پھر پلوامہ میں حملہ ہوا۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کو عبور کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی سرحد بھی عبور کی اور بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ اس بار (آپریشن سیندور میں) ہم ان دونوں سے آگے نکل گئے۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پار کی، بلکہ ہم نے پاکستان کے پنجابی گڑھ میں  حملہ کیا اور نو مقامات پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔’

کانگریس نے تنقید کی

کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ ادت راج، جو تھرور کے حالیہ بیانات پر باقاعدگی سے تنقید کر رہے ہیں،نے کہا کہ انہیں ‘بی جے پی کا سپر ترجمان’قرار دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا،’ کاش! میں وزیر اعظم مودی پر دباؤ ڈال کر آپ کو بی جے پی کا سپر ترجمان اعلان کروا سکتا، یہاں تک کہ آپ کے ہندوستان آنے سے پہلے ہی وزیر خارجہ اعلان کروا سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘آپ یہ کہہ کر کانگریس کی سنہری تاریخ کو کیسے بدنام کر سکتے ہیں کہ پی ایم مودی سے پہلے ہندوستان نے کبھی ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کیا۔ 1965 میں ہندوستانی فوج   کئی مقامات سے پاکستان میں داخل ہوئی، جس نے لاہور سیکٹر میں پاکستانیوں کو پوری طرح  حیران کر دیا تھا۔ 1971 میں ہندستان نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور یو پی اے حکومت کے دوران کئی سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں، لیکن سیاسی طور پر بھنانےکے لیے ڈھول نہیں پیٹا گیا۔ جس پارٹی نے آپ کو اتنا کچھ دیا، اس کے ساتھ آپ اتنے بے ایمان کیسے ہو سکتے ہیں؟’

اس کے بعد، کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیرا نے لاہور ضلع کے برکی میں ایک مقبوضہ پاکستانی پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑے چوتھی سکھ رجمنٹ کے افسران کی تصویر پوسٹ کی اور تھرور کو ٹیگ کیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا ، ‘یہ تصویر برکی کی لڑائی کی ہے (جسے لاہور کی لڑائی، 1965 کے نام سےبھی جاناجاتا ہے)،جو  1965 کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے دوران ایک اہم جنگ تھی، جو ہندوستانی انفنٹری یونٹس اور پاکستانی بکتر بند افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ برکی لاہور کے جنوب-مشرق میں ایک گاؤں ہے، جو  ہندوستان-پاکستان سرحد کے قریب ہے، لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو بمباوالی-راوی-بیدیاں (بی آر بی) نہر پر ایک پل کے ذریعے شہر سے منسلک ہے۔’

بعد میں بدھ کو کھیڑا نے اکتوبر 2016 کے ایک مضمون کا لنک بھی پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر، جو اس وقت خارجہ سکریٹری تھے، نے پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی سرحد پار سے حملے کیےگئےتھے۔

نیوز آرٹیکل کا ایک حصہ پوسٹ کرتے ہوئےکھیڑا نے کہا ،’ماضی میں بھی لائن آف کنٹرول کےپار پیشہ ورانہ طور پر ہدف بنا کر، محدود صلاحیت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کیے گئے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے اسے عام کیا ہے۔’

 جئے شنکر نے اکتوبر 2016 میں خارجہ امور کی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے یہ بات کہی تھی۔

اس کے بعد کھیڑا کی پوسٹ کا حوالہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور جنرل سکریٹری، میڈیا اور کمیونی کیشن انچارج جئے رام رمیش نے دیا۔

رمیش نے لکھا ، ‘اوہ، ہم کتنا پیچیدہ جال بنتے ہیں، جب ہم پہلی بار دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں…’

تھرور کو پاناما میں اپنے تبصروں کے لیے پارٹی کے ساتھیوں کی تنقید کا سامنا کر پڑ رہا ہے، جو بیرون ملک وفود کی تشکیل پر تنازعہ کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ تھرور، جنہیں مودی حکومت نے سات وفود میں سے ایک کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا، کانگریس کی طرف سے اس وفد کا حصہ بننے کے لیے فراہم کردہ چار ناموں کی فہرست میں شامل نہیں تھے ۔

تاہم، تھرور نے حالیہ واقعات پر ملک کا نظریہ پیش کرنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کرنے کی دعوت کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔

کانگریس کی طرف سے پیش کی گئی فہرست میں ان کا نام نہ ہونے کے باوجود، تھرور کو یہ دعوت اس وقت ملی جب ترواننت پورم کے ایم پی نے چند دن پہلے انٹرویو میں بی جے پی حکومت کے حق میں حمایتی تبصرہ کیا تھا۔ دی وائر کے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعہ کے بعد حکومت کے اقدامات کی تعریف کی تھی۔ کانگریس نے تب کہا تھا کہ تھرور کے بیانات کو ان کی ذاتی رائے سمجھنا چاہیے۔

اس تنقید کے بعد کرن رجیجو نے ایکس پر کہا ، ‘کانگریس پارٹی کیا چاہتی ہے اور انہیں ملک کی کتنی پرواہ ہے؟ کیا ہندوستانی اراکین پارلیامنٹ کو غیر ممالک میں جاکر ہندوستان اور اس کے وزیر اعظم کے خلاف بات کرنی چاہیے؟ سیاسی طور پر فریسٹریشن  کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!’

قابل ذکر ہے کہ تھرور حال کے ہفتوں میں بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت میں اپنے کئی بیانات بالخصوص پہلگام دہشت گردانہ حملے اور ہندوستان کی فوجی کارروائی کے بعد تنازعات کے مرکز میں ہیں۔

Next Article

ہریانہ: ٹوپی کو لے کر ہوئے جھگڑے میں مسلم نوجوان کی موت، پولیس نے کہا – کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں

گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا،  جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔

اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن  لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’

اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح  بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔

شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں  مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔

اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے  درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’

اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان  کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’

ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔

پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار

تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر  دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’

وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘  میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔

Next Article

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)

اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح  قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟

اس خدشے کی  وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔

کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت  کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’

کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال  بھی تھے۔’

یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول  میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔

اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟

اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔

یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ  اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟

علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا  مطلب کیاہے؟

ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔

جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں  رکاوٹیں پیداکرے گی۔

ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔

اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟

تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟

ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔

وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔

کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔

لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی  ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)