پیگاسس پروجیکٹ: ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی لیب میں کیے گئے فارنسک ٹسیٹ میں ترن تارن کے وکیل جگدیپ سنگھ رندھاوا کے فون میں پیگاسس سرگرمی کے شواہد ملے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لدھیانہ کے ایک وکیل جسپال سنگھ منجھ پور کا نام سرولانس کے ممکنہ ٹارگیٹ کی فہرست میں ملا ہے۔
سال 2019 میں پنجاب کے ایک انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی گئی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی لیب میں ان کی ڈیوائس کافارنسک ٹیسٹ کیا گیا، جس کودی وائر سے ساجھا کیا گیا ہے، میں یہ بات سامنے آئی ہے۔
ترن تارن کے وکیل جگدیپ سنگھ رندھاوا آپریشن بلیو اسٹار کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبراًگمشدگی کے معاملوں پر کام کرنے والے انسانی حقوق کے وکیلوں اور کارکنوں کے ایک گروپ خالرا مشن آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
ان کا نمبر پیگاسس پروجیکٹ کے تحت ٹیسٹ کیے گئے ہزاروں نمبروں کے لیک ڈیٹابیس میں تھا۔ دی وائرتصدیق کر سکتا ہے کہ ایمنسٹی کے ذریعے ان کے آئی فون ڈیٹا کی جانچ میں ان کے فون میں جولائی 2019 کے اکثر دنوں اور اگست 2019 میں پانچ دنوں کے لیے پیگاسس کے ہونے کا ثبوت ملا ہے۔
حالانکہ فارنسک تجزیے میں یہ پتہ نہیں چلا کہ رندھاوا کے فون کی ہیکنگ کا آرڈر کس نے دیا اور اسے ہیک کرنے کے بعد کیا کیا گیا۔
دی وائر اور ایک بین الاقوامی میڈیا اداروں نے سلسلہ وار رپورٹس میں بتایا ہے کہ ملک کے مرکزی وزیروں ،40 سے زیادہ صحافیوں ، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں و کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانی فون نمبر اس لیک ڈیٹابیس میں تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ ہوئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔
یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مشتمل تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
پیگاسس پروجیکٹ کے انکشافات شائع کرنے کے بعد سے کیے گئے ٹیسٹ میں رندھاوا سمیت تین ہندوستانی فون میں پیگاسس سے متعلق سرگرمیوں کے نشان پائے گئے ہیں، جس کے بعد ہندوستان میں ایسے فون کی مجموعی تعداد24-25 میں سے 13 ہو گئی ہے۔
اب تک حکومت ہند نے اس بات سے نہ انکار کیا ہے، نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے کہ اس کی کوئی بھی ایجنسی پیگاسس کی کلائنٹ ہے۔
رندھاواخالرا مشن آرگنائزیشن کی کور کمیٹی کے ممبر ہیں۔ 90کی دہائی کی شروعات میں اس کے بانی جسونت سنگھ خالرا نے پنجاب میں مبینہ فرضی انکاؤنٹر،خفیہ طریقے سے ہو رہی آخری رسومات اور پولیس کی بربریت کے معاملوں کی جانچ کے لیے آرگنائزیشن کا قیام کیا۔
اتفاق ہی تھا کہ سال 1995 میں ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ مشن کےقیام کے کچھ سال بعد ہی کھالرا کا پنجاب پولیس نے اغوا کیا اور پھر ان کا قتل کرکےخفیہ طریقے سے آخری رسومات کی ادائیگی بھی کر دی گئی۔ لیکن ان کے ساتھ ایسا ہونے کے بعد بھی آرگنائزیشن یا ان کے اہل خانہ ڈگمگائے نہیں۔
ان کی بیوی پرم جیت کور خالرا، جو خود انسانی حقوق کی کارکن ہیں، نے اس معاملے کو اٹھایا۔ ان کی مہم کی بدولت پنجاب پولیس کے چھ پولیس اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔ 2005 میں انہیں پٹیالہ کورٹ نے قصوروارٹھہرایا تھا اور 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
پیگاسس پروجیکٹ کے تحت ملی جانکاری کے مطابق، رندھاوا کا فون سال 2019 کے وسط میں ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا۔
یہ قدم رندھاوا سمیت خالرا مشن کے آٹھ افرادکی اس اپیل، جسے انہوں نے آپریشن بلیو اسٹار کے دوران پنجاب میں فوج اوراس وقت کی کانگریس سرکار کے ذریعےانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سنگینی کو دیکھنے کے لیے جون 2019 میں ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس(آئی سی جے) کو بھیجا تھا، سے جڑا ہو سکتا ہے۔
جون 2019 میں خالرا مشن آرگنائزیشن نے آئی سی جے کو اپنے خط کا مسودہ تیار کیا۔ رندھاوا نے دی وائر کو بتایا کہ یہ‘اس وقت ہیگ میں زیر التوا ہے’ لیکن ‘انسانی خدمات ’ کے لیےآرگنائزیشن کا کام جاری ہے۔
حالانکہ رندھاوا کے قدم کو ٹھیک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آئی سی جے اس طرح لوگوں کی شکایتوں کو قبول نہیں کرتا ہے – یہ ممکن ہے کہ خط نے کسی ہندوستانی ایجنسی کو نگرانی کے لیےمتوجہ کیا ہو۔
ممکنہ نشانوں کی فہرست میں نام آنے سے کچھ مہینے پہلے رندھاوا ایک الیکشن ایجنٹ کے طور پر پرم جیت کور خالرا کے لیےتشہیر کر رہے تھے، جنہوں نے کھڈور صاحب جسے پنجاب میں عسکریت پسندی کا مرکز مانا جاتا ہے، کی لوک سبھا سیٹ سے پنجاب ایکتا پارٹی کے ٹکٹ پر 2019 کا عام انتخاب لڑا تھا۔
پرم جیت کور نے اپنی مہم میں ماورائے عدالت قتل کے معاملوں اور سکھوں کی نسل کشی کےمعاملے کو مین اسٹریم میں واپس لا دیا۔ ان کی مہم کا اثر ہی تھا کہ کور کو 2 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے، بھلے ہی وہ کانگریس کے جسبیر سنگھ گل سے ہار گئیں۔
رندھاوا نے دی وائر کو بتایا کہ کور کے الیکشن ایجنٹ کے طور پر وہ ضلع مجسٹریٹوں ، پولیس کمشنروں سے ملا کرتے تھے اور انتخابی مہم کی حکمت عملیاں تیار کرتے تھے۔
ممکنہ سرولانس کی فہرست میں ایک وکیل کا بھی نام
لدھیانہ کے ایک دوسرےمعروف ہیومن رائٹس وکیل جسپال سنگھ منجھ پور، جنہیں پنجاب میں یواے پی اے سے متعلق معاملوں پر کام کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، کو 2018 کے وسط میں نگرانی کے ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا۔
دی وائر کے ذریعے رابطہ کیے جانے پر منجھ پور کو ممکنہ جاسوسی کے بارے میں سن کر حیرانی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا، ‘مجھے پتہ ہے کہ میں مرکزی حکومت کی دلچسپی والا کا شخص ہوں، میں ہمیشہ سے رہا ہوں۔’
منجھ پور کا فون فارنسک جانچ کے لیےدستیاب نہیں تھا اس لیے دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ یہ صرف نگرانی کی کوشش تھی یا پیگاسس ان کے فون میں پہنچ گیا تھا۔
جولائی 2018 سے اس کے بعد کے آٹھ مہینے سے زیادہ عرصےتک منجھ پورآر ایس ایس کے پانچ ممبروں ، ڈیرہ سچا سودا اور پنجاب میں ایک پادری ملزم ایک برٹش سکھ ملزم جگتار سنگھ جوہل عرف جگی کے معاملے کو دیکھ رہے تھے۔
یہ قتل اور قتل کی کوشش اپریل 2016 اور اکتوبر 2017 کے بیچ ہوئی۔ پہلا قتل اس وقت شروع ہوا جب شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی )اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیچ سیاسی گٹھ بندھن اپنے ڈھلان کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ بعد میں فروری میں ہوئے 2017 کے اسمبلی انتخاب میں گٹھ بندھن کو شکست ملی اور کانگریس اقتدار میں واپس آ گئی۔
قتل معاملوں نے پنجاب میں پنتھک سکھوں کے بیچ بڑھتی ناراضگی کی طرف اشارہ کیا، جن پر سکھ مذہب کو مٹانے کی کوشش، اسے ہندو مذہب میں شامل کرنے، مشنری سے بات چیت کرنے اورمتوازی مذہبی ڈیروں کے قیام کا الزام لگایا گیا تھا۔
مارے گئے لوگوں میں شیوسینا رہنمادرگا پرساد گپتا، آر ایس ایس کے ریاستی نائب صدر بریگیڈیئر(سبکدوش) جگدیش گگنیجا، ڈیرہ سچا سودا کے پیروکار ستپال شرما اور ان کے بیٹے رمیش، شری ہندو تخت کے ضلع صدر امت شرما، پادری سلطان مسیح، آر ایس ایس کی شاکھا کےرہنما رویندر گوسائیں اور ہندو سنگھرش سینا کے ضلع صدر وپن شرما شامل تھے۔
لدھیانہ کے آر ایس ایس شاکھا رہنما رویندر گوسائیں کے قتل معاملے کی جانچ اس وقت نیشنل جانچ ایجنسی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔قتل معاملوں میں اب تک جن گیارہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں33سالہ برٹش سکھ جگتار سنگھ جوہل ایک ہیں۔ جوہل ایک کارکن ہیں جو برٹن میں‘نیورفارگیٹ 1984’نام کی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔
مبینہ طور پر برٹن کے افسروں کے ذریعے پنجاب پولیس کو یہ بتانے کے بعد کہ اپنی شادی کے لیےہندوستان آئے ہوئے جوہل ممکنہ مشتبہ ہیں، انہیں 2017 میں پنجاب میں گرفتار کیا گیا۔
ان کے خلاف عدالت میں پیش کیا گیا ثبوت ان کا خالصتان لبریشن فورس کے ہرمندر سنگھ منٹو، جو اس وقت دہشت گردانہ الزاموں کے تحت جیل میں تھا، کو نقد میں 3000پاؤنڈ بھیجنا تھا۔ بعد میں2018 میں نابھا جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے منٹو کی موت ہو گئی تھی۔
اگست 2018 میں منجھ پور کا نام ٹارگیٹ کی ممکنہ فہرست میں جوڑے جانے اور جوہل کی گرفتاری کے ایک سال بعد انہوں نے جگی کے وکیل کے طورپر جوہل فیملی سے ملنے کے لیے دو بار برٹن کاسفر کیا۔
نگرانی کے لیےممکنہ نشانے کے طور پر منجھ پور کا چنا جانا وکیل اورموکل استحقاق کے قانون کی ممکنہ خلاف ورزیوں کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔
منجھ پور نے دی وائر کو بتایا کہ جولائی 2018 میں جب ان کا نمبر فہرست میں دکھائی دیتا ہے، تب ہی سی بی آئی اور ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را) کے عہدیداروں نے انہیں پوچھ تاچھ کے لیے نئی دہلی بلایا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیٹھک میں ان کی ذرائع کے ساتھ ہوئی کچھ نجی بات چیت خفیہ افسروں کے پاس دستیاب تھی۔ تبھی انہیں شک ہوا تھا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ اسے کیسے کر رہے ہیں، لیکن میں بالکل بھی حیران نہیں تھا۔’
منجھ پور نے دی وائر کو یہ بھی بتایا کہ دہلی میں خفیہ افسروں کے ذریعے پوچھ تاچھ کا مقصد انہیں ان کا کام کرنے کے لیے دھمکانا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘انہوں نے مجھ پر شدت پسند سکھ تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ مجھے گرفتار کریں گے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ اس وقت انہیں کیسا لگا، منجھ پور نے کہا، ‘اس طرح کی جاسوسی سے جمہوری عمل خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ عدالت میں کسی ملزم کی نمائندگی کرنے کے عمل سے یقینی طور پرسمجھوتہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کی جاسوسی بند ہونی چاہیے۔’