پنجاب کی تین درجن سے زیادہ جمہوری تنظیموں نے 21 جولائی کو جالندھر میں ایک مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے نئے فوجداری قوانین کے نفاذ اور دہلی کے ایل جی کی جانب سے ارندھتی رائے اور پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔
ارندھتی رائے اور پروفیسر شیخ شوکت حسین کی تصویر کے ساتھ کانفرنس میں شامل لوگ ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: پنجاب کی تین درجن سے زیادہ عوامی جمہوری تنظیموں نے 21 جولائی کو جالندھر میں ایک مشترکہ کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ کانفرنس میں نئے فوجداری قوانین کے نفاذ اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے ارندھتی رائے اور پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
تنظیموں نے مشترکہ طور پر خبردار کیا کہ ‘اگر فاشسٹ اقدامات کو واپس نہ لیا گیا تو مستقبل میں جدوجہد کا پیمانہ وسیع اور شدید ہو جائے گا۔’
صحافی اور جمہوری کارکن بھاشا سنگھ کانفرنس میں کلیدی مقرر کے طور پر موجود تھیں۔ انہوں نے کہا، ‘ہمیں موجودہ حکومت کے کمزور ہونے کے بارے میں کوئی وہم نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ اپنے پہلے اوتار کے مقابلے زیادہ جارحانہ انداز میں ہوگی۔ یو اے پی اے کے تحت معاملے کو منظوری دے کر حکومت یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ نہ صرف جدوجہد کو دبا سکتی ہے بلکہ من مانے طور پر سزا بھی دے سکتی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لوگ ظلم وجبر کے خلاف کتنا بولتے ہیں۔‘
بھاشا نے معروف ادیبہ ارندھتی رائے اور پروفیسر شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا، ‘ارندھتی رائے اس بات کی علامت ہیں کہ مشکل حالات میں بھی کس طرح لڑنا ہے، کیسے لکھنا ہے، کیسے بولنا ہے اور کس طرح مسکراتے رہنا ہے۔ ارندھتی رائے کی اسی مسکراہٹ سے حکومت ڈرتی ہے۔‘
کانفرنس سے خطاب کرتے مقرر اور سٹیج پر بیٹھے دیگر افراد۔
پارلیامانی اپوزیشن کی نوعیت پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ ناانصافی کے خلاف نہیں بولیں گے تو لوگ ان کی بات نہیں سنیں گے۔
عوامی جدوجہد کی اہمیت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ‘حکومت عوام کی جدوجہد سے ڈرتی ہے۔ ارندھتی رائے جدوجہد کی بلندترین آواز ہیں، حکومت ان کے قلم سے اور بھی زیادہ ڈرتی ہے۔ اس لیے انہیں مقدمے میں پھنسا کر ان تمام انصاف پسند لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ جو بھی حکومت سے سوال کرے گا اسے اسی طرح خاموش کر دیا جائے گا۔ لیکن حکومت کے منصوبے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر اقتدار میں یو اے پی اے ہے تو ہمارا جواب احتجاج اور مزاحمت ہے۔‘
کانفرنس سے بھاشا سنگھ کے علاوہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس کے صدر پروفیسر جگموہن سنگھ، ریشنلسٹ سوسائٹی کے آرگنائزیشن سکریٹری راجندر بھادور، ایڈوکیٹ این کے جیت اور دلجیت سنگھ نے بھی خطاب کیا۔
پروفیسر جگموہن سنگھ نے نئے فوجداری قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ‘نوآبادیاتی قانونی نظام کو ختم کرنے کے نام پر ایک نیا نظام بنایا گیا ہے۔ ملک کو پولیس ا سٹیٹ میں تبدیل کرنے کے لیے لائے گئے نئے قوانین نوآبادیاتی قوانین کو تقویت بخشتے ہیں اور اس رولٹ ایکٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، جس کو ختم کرنےکے لیے ہندوستان کے مجاہدین آزادی نے اپنا خون بہایا تھا۔’
انہوں نے مزید کہا ،’ ارندھتی رائے، پروفیسر شوکت، میدھا پاٹکر جیسے دانشوروں اور حقوق کے محافظوں کو خاموش کر کے شہریوں کی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے اور کالے قوانین نافذ کرنے کے فاشسٹ حملے کے پیچھے ملک کے اجارہ دار سرمایہ داروں کا ہاتھ ہے۔‘