پلواما حملے کے بعد حالات ایسے ہیں کہ بی جے پی اس کا سیاسی فائدہ لینے کے لالچ سے بچ ہی نہیں سکتی۔ نریندر مودی کے لئے اس سے بہتر اور کیا ہوگا کہ نوکریوں کی کمی اور زرعی بحران سے دھیان ہٹاکر انتخابی بحث اس بات پر لے آئیں کہ ملک کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ اہل کون ہے؟
یہ بھی پڑھیں: ایسا کیا ہے جس نے کشمیر کو’جنازوں کا شہر‘ بنا دیا ہے؟
ایک جان کار سیاسی ماہر نے اس بات کو نشان زد کیا کہ پلواما خودکش حملہ آور کا پیغام، جس کے جیش محمد کے دماغ کی پیداوار ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہے، اہم طور پر بی جے پی کی گئو-سیاست کے تناظر میں ہندتووادی اکثریت کی بات کرتا ہے۔یہ کافی دلچسپ ہے، کیونکہ دہائیوں سے کشمیری مسلم اکثریت صرف زیادہ سے زیادہ خودمختاری یا آزادی کے سوال پر مرکوز رہا ہے اور ملک کے باقی حصوں میں، چاہے اتر پردیش ہو، بہار یا گجرات ہو، اقلیت مسلمانوں کو مسلسل پریشان کرنے والے سوالوں سے یا تو وہ خود کو جوڑ نہیں پایا یا اس کو سمجھ نہیں پایا۔ رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری، جو سرینگر میں ایک دہشت گرد کے ہاتھوں مارے گئے، نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ ماضی میں کشمیری مسلمانوں نے 2002 کے گجرات فسادات پر بھی زیادہ غصے کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔لیکن، شجاعت نے آگاہ کیا تھا کہ این ڈی اے حکومت کے دور میں حالات بدل رہے تھے اور نوجوان کشمیریوں نے ہندوستان کے باقی حصوں میں مسلمانوں کی گائے کے نام پر کی جانے والی لنچنگ جیسے مسائل پر خود کو پہلے سے زیادہ اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ شجاعت کی یہ بات اس فدائین انسانی بم کے ویڈیو پیغام کو دیکھکر یاد آتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بھی ہندوستان کے باقی حصوں میں اقلیت مسلمانوں کے متعلق نوجوان کشمیری کی ہمدردی کے بڑھتے مظاہرہ سے خوش ہے۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم اکثریت کشمیر، جو ان دہائیوں میں مکمّل خودمختاری یا آزادی کے خیال میں ڈوبا ہوا تھا، ہندو مذہب اور ہندوستان کے باقی حصوں، خاص کر ہندی پٹی کی اکثریت کی سیاست سے جڑی بحث میں شامل ہو رہا ہے؟ یہ ایک بےحد اہم سوال ہے، جس کی تہوں میں جانے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کے ذریعے اپنی ہندتووادی قوم پرستی کی سیاست کو ہوا دینے کے لئے کشمیر کے استعمال کا لالچ محض پلواما حملے کے بعد نہیں ہوا ہے۔پلواما کے بعد کی حالت چیزوں پر پڑے پردے کو اور اٹھا دیتی ہے۔ یہاں یہ یاد کیا جا سکتا ہے کہ کیسے اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے قریب آٹھ مہینے پہلے ایک کل جماعتی نمائندہ وفد مودی سے ملا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کشمیر ایک انکاؤنٹر میں برہان وانی کے مارے جانے سے پیدا ہوئے بحران سے جوجھ رہا تھا۔ ایسے میں جبکہ کشمیر کے ہاسپٹل پیلیٹ گن کے متاثرین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، ایک کل جماعتی نمائندہ وفد یہ مانگ لےکر وزیر اعظم سے ملا تھا کہ ہندوستان کے باقی حصوں میں، خاص کر اتر پردیش میں سیاسی فصل کاٹنے کے لئے کشمیر کی سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔مودی نے اس وفد کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر انتخاب سے پہلے مغربی اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی تقریروں کو سنیں، تو یہ صاف ہو جائےگا کہ وزیر اعظم نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ اگر انہوں نے اس وقت اپنے وعدے کو نہیں نبھایا، تو اس بات پر یقین کرنے کی کوئی پختہ وجہ نہیں ہے کہ وہ اب ایسا کریںگے۔ مودی اس طرح کے رہنما ہونے کا دکھاوا تک نہیں کرتے، جو اکثریت کی بھیڑ کے جذبات کے خلاف جانے کا خطرہ مول لےگا۔مودی نے اب تک صرف بھیڑ کے جذبات کو پڑھنے اور اس کو لےکر غیر جانبدار رہنے یا کبھی کبھی پالیسی لنگویج میں اس کو ہوا دینے کی اپنی بے چوک صلاحیت کا ہی ثبوت دیا ہے۔ اور کسی کو غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انتخاب سے پہلے کے اگلے دو مہینے میں وہ ایک بار پھر ایسا کریںگے۔ پچھلے قریب 70 سالوں سے کشمیر ایک حل سے پرے مسئلہ رہا ہے، لیکن اس نے کبھی بھی کسی عام انتخاب کے نتیجہ کو طے کرنے میں بڑا کردار نہیں نبھایا ہے۔ حالانکہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کی قومی سلامتی اور اکثریتی صف بندی کو لےکر بنی جا رہی حکمت عملی کے چلتے کشمیر کا مسئلہ اہم رجحان میں شامل ہو جائےگا۔ ہم اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ جیسے کسی آدمی کو اس کی قیادت کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جو غالباً بی جے پی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی ریاست ہے۔ خاص کر سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کے بعد۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستانی فوج کی زمین-سیاسی ماہرین اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو صلاح دینے والے ہندوستان میں بننے والے ان حالات کا استقبال کریںگے۔