اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میں عوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کوہی اپنا مقصود بنالیں، تو یہ خطہ ایک بار پھر اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پلواما حملے کے بعد کشمیر کے اصلی مدعے کو پھر سے نظرانداز کیا جا رہا ہے
بلاک میڈیکل افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ کس بھی ناخوشگوار واقعے سے نپٹنے کیلئے اپنی Rapid Response Teamsکو تیار رکھیں۔ہیلتھ اداروں کے اعلیٰ حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں کی خود نگرانی کریں اور اپنے اپنے جگہوں پر جائیں۔اس دوران صوبائی انتظامیہ نے وادی میں پیٹرول کی فروخت محدود کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔ محکمہ خوراک ورسدات کی جانب سے ایک حکم نامہ میں راشن کی دکانوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ رات گئے تک مکمل راشن تقسیم کریں۔ ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر نے فون پر بتایا کہ ان کو حکم ملا ہے کہ تمام مجسٹریٹوں کو ڈیوٹی پر بلا کر ان کیلئے علاقوں کا تعین کریں اور اپنے تمام عملہ کی چھٹیاں بھی منسوخ کردیں۔ وہ معلوم کرنا چا ہ رہے تھے کہ کیا میڈیا کو کوئی اطلاع ہے کہ یہ ایمرجنسی حالات کیوں پیدا کئے جا رہے ہیں؟ضلع مجسٹریٹ تک کو بھی اعلیٰ حکام کچھ بھی بتانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ پورے دن بعد ہندوستانی وزارت داخلہ اور گورنر ستیہ پال ملک نے ایک بیان جاری کرکے افواہیں اور دہشت پھیلانے والوں کو متنبہ کیا ، اور تردید کی کہ اضافی فورسز وغیرہ کا خصوصی آئینی حثیت ختم کرنے یا جنگ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ انتخابی عمل کے آغاز کی تیاریا ں ہیں۔ اور گرفتاریا ں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ جمو ں سے کولکتہ تک اور دہرادون تا مدھیہ پردیش جس طرح کشمیری طلبہ اور تاجروں کو عدم تحفظ کا احساس کرایا گیا ا س کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ حملے کے فوراً بعد پاکستان کے خلاف حکومتی ہستیاں، سرکاری عہدیدار اور عام لوگ ایک ہی سر تال میں پاکستان سے بدلہ لینے کے جوشیلے نعرے لگا رہے ہیں۔ بالفرض عسکری کارروائی کی ذمہ داری جیش محمد قبول نہ بھی کر تی تو بھی اس کے نتیجے میں پاکستان کے تئیں رائے عامہ کا بر ہم ہونا طے تھا، کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا ، جب ہندوستان میں پاکستان کو’سبق سکھانے’کے لئے جنگ جنگ جنگ کی آوازیں زورو شور سے اْٹھائی گئیں۔ پارلیامنٹ پر 13/12/2001 کے فدائی حملے اور تاج ممبئی میں26/11/2008 کے وقت بھی پاکستان کے خلاف ایک طبقہ نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کی زوردار مہم چھیڑی تھی مگر اس وقت کی حکومتوں نے اس مانگ کو اپنے غیر معمولی سیاسی فہم وفراست اور بر د باری سے ڈیل کیا۔ مثلاً پارلیامنٹ پر دہشت گردانہ حملے کے فوراًبعد جب پاکستان کو اس ضمن میں موردِالزام ٹھہرایا گیا۔گو کہ مسلح افواج کو دس ماہ تک پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر حالتِ جنگ میں ایستادہ بھی رکھا گیا، مگر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اپنی شبیہ چوتھی ہند پاک جنگ کے ہیرو کے طور نہیں بنانا چاہتے تھے ، بجائے ا س کے وہ تاریخ میں اپنی شناخت بہ حیثیت ایک صلح پسند سیاسی مدبر کی بنانا پسندکر تے تھے ۔ یہ حکمت عملی ان کیلئے یقینی طور مفید ثابت ہوئی۔ ممبئی واقعہ کے دوران ڈاکٹر ممنوہن سنگھ کی حکومت نے بھی حملے کے لئے فی الفورلشکر طیبہ کو ذمہ دار ٹھہراکر پاکستان سے خوب احتجاج کیا ۔ ایک بار ایک مخصوص طبقہ جنگ کی صورت میں پاکستان سے انتقام لینے سے کم پر راضی نہ تھا مگر حکومت نے اعصابی قابو نہ کھویا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دونوں مواقع پر واجپائی اور من موہن سنگھ نے فوجی سربراہوں کو طلب کرکے جب جنگ کرنے کیلئے رائے لی ، تو بتایا گیا کہ فوج ایک ہفتہ تک بھر پور جنگ کر سکتی ہے اور اگر یہ طوالت اختیار کرتی ہے تو مشکل ہوگی۔ دونو ں بار طے ہو ا کہ سیاسی قیادت جنگ نہ کرنے کے فیصلہ کو اپنا کر ، یہ بھی باور کرے کہ فوج تو بالکل حالت تیاری میں ہے۔ فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان یہ تال میل بھارتی سسٹم کی ایک بڑی خوبی ہے۔ بتایا جاتا ہے تحمل مزاج کے من موہن سنگھ تو میٹنگ میں بحریہ کے سربرا ہ ایڈمرل سریش مہتہ پر خوب برسے، کیونکہ جس وقت ممبئی پر حملہ ہوا ، اسی وقت بحیرہ عرب میں بحریہ کی جنگی مشقیں جاری تھیں۔ من موہن سنگھ جاننا چاہ رہے تھے کہ اگر مشقوں کے وقت بھی بحریہ یہ حملہ نہیں ٹال سکی تو وہ کیا حفاظت کرسکتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: پلواما حملے سے حکومت ہند کو کیا سبق لینا چاہیے؟
ماضی کے برعکس ٹیلی ویژن چینلوں میں قوم پرستی کے نام پر ایک ایسے زہر یلے رحجان کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت میں کسی بھی ملک کیلئے مجموعی طور نحوست آمیز ہے۔ صورت حال اس قدر دگر گوں کے کہ خوف کے باعث ہندوستان کی سیکولر جماعتوں نے بھی کشمیری طالب علموں پر ہورہے حملوں پر خاموشی اختیار کیا الا ٹی وی چینل ا ن کو قوم دشمن نہ قرار دیں۔ ان نقار خانہ میں کوئی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ کسی اشتعال انگیز کارروائی کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں ۔ سیاسی مسائل کے حل کیلئے جنگ کے بعد بھی سیاسی آپشن ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ امن عالم کا مفا د بھی اسی میں ہے کہ کشمیر مسئلہ کے لئے ایک پْر امن مذاکراتی راہ پہ گامزن ہو کر حل کی منزل تلاشی جائے۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان کی اقتصادی صورت حال پاکستان سے کافی بہتر ہے اور کئی معنوں میں ہندوستان عالمی سطح پر بھی خود کوایک اقتصادی طاقت منوانے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں غربت، بے روزگاری ، مہنگائی ا ور بدعنوانی کا یہ حال ہے کہ یہاں کے کسان قرضوں میں مبتلا ہونے کے بہ سبب خو د کشیاں کر رہے ہیں،کیونکہ قرضے اْتارنے کیلئے اْن کے پاس پیسہ نہیں۔ پاکستان ا س وقت نازک اقتصادی صورت حال سے دو چار ہے۔اگر دونوں ممالک ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میں عوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کوہی اپنا مقصود بنالیں، تو یہ خطہ ایک بار پھر اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر نے پورے خطے کی سیاست ، معیشت، تجارت، معاشرت اور پرواز ترقی کو بری طرح بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کئی ایسی تجارتی شاہراہیں ہیں جو ترقی کی ضامن ہیں مگر صرف اس مسئلہ کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔ کشمیری چاہے اپنی وادی میں رہ رہے ہوں چاہے وادی کےباہر وہ ایک نرغے میں پھنس چکے ہیں جہاں نہ آرام سے جینے کی جگہ ہے نہ راحت و سکوں سے سانس لینے کا امکاں ہے۔ وادی میں کہیں تلاشیاں ہیں کہیں گھیراؤاور تلاشی کی صورت حال ہے۔اس کے علاوہ انکاونٹر زکم و بیش روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ مفاد پرست عناصر کو کشمیرمسئلے کا حل اچھا نہیں لگتا بلکہ جنگ کے میدان سجے دیکھنے میں مزا آتا ہے۔ ا س وقت دہلی کو خاص کر ایسے سیاسی مدبرین ، پالیسی سازوں اور سفارت کاروں کی ضرورت ہے جو امن کی پروائیاں چلاکر مسائل حل کر نے میں ہی کوشاں نہ رہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے عوام کو بھی راحت اور سکون کی سانس لینے کا موقع دینے کی مثبت پہل کریں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ مسائل کے دلدل کو اور زیادہ گہرا بنانے کی دیوانگی ہوتی ہے۔اگر جنگ سے کچھ حاصل ہوتا تو صدر ٹرمپ افغانستان اور شام سے واپسی کی راہیں تلاش نہ کر تے پھرتے۔ اس سلسلے میں بحالی اعتماد کے اقدام کے طور کشمیر کوکسی متشددانہ ڈاکٹرئین کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے یہاں کے نوجوان طبقے کے ساتھ نرم روی کا انداز اور دوستانہ اسلوب اختیار کیا جائے تاکہ یہ حساس طبقہ خود کو بے دست وپا دیکھ کر عادل احمد ڈار بننے پر مجبور نہ ہو۔ (مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)