مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد الیکٹورل بانڈ پر پارٹیوں اور عوام کی رائے لینے کے اہتمام کو ہٹایا گیا

آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب الیکٹورل بانڈ منصوبہ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا تو اس میں سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ صلاح اورمشورے کا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔

آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب الیکٹورل بانڈ منصوبہ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا تو اس میں سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ صلاح اورمشورے کا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔

(فائل فوٹو : رائٹرس)

(فائل فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد الیکٹورل بانڈ منصوبے پر سیاسی جماعتوں اور عوام کی رائے لینے کے اہتمام کوہٹا دیا گیا تھا۔آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج کے ذریعے حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے ڈرافٹ الیکٹورل بانڈ منصوبے پر سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ صلاح و مشورہ کا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی صلاح پر وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ ہوئی میٹنگ کے بعد اس اہتمام کو ہٹا دیا گیا۔

حاصل دستاویزوں کے مطابق اقتصادی معاملوں کے اس وقت کے سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے 21 اگست 2017 کو الیکٹورل بانڈ اسکیم پروزیر اعظم کے سامنے پریزنٹیشن دیا تھا۔ اس میٹنگ کے دوران چرچہ  کے لئے الیکٹورل بانڈ کے مختلف اہتماموں کے علاوہ اسکیم پر رائے لینے کا بھی اہتمام شامل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : مودی حکومت نے الیکٹورل بانڈ پر آر بی آئی کے تمام اعتراضات کو خارج کر دیا تھا : رپورٹ

حالانکہ مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد الیکٹورل بانڈ اسکیم پر سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ رائے کی بات کو ہٹا دیا گیا۔ وزارت خزانہ کی ایک فائل نوٹنگ، جو کہ سبھاش چندر گرگ کے نظریے کی بنیاد پر بنائی گئی اور اس پر وزارت کے جوائنٹ سکریٹری (بجٹ)پرشانت گوئل کے دستخط ہیں، سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

اوپر دی گئی فائل نوٹنگس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ الیکٹورل بانڈ پر مختلف طبقوں کے ساتھ  مشورے کے اہتمام کو قلم سے کاٹا گیا ہے اوروزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کے بعد بنائے گئے اہتماموں میں اس کو ہٹا دیا گیا ہے۔حالانکہ مئی 2017 میں وزارت خزانہ نے تمام ریاست اور قومی جماعتوں کو خط لکھ‌کر فروری 2017 میں اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی بجٹ تقریر میں بیان کردہ الیکٹورل بانڈ اسکیم پر ان کے تبصرے طلب کیے گئے تھے۔ اس پر صرف چار پارٹیاں-کانگریس، بی ایس پی،سی پی آئی اور شیرومنی اکالی دل نے جواب دیا، جن میں سے بیشتر نے مجوزہ اسکیم کا ڈرافٹ تیار کرنے کے لئے کہا تھا۔

لیکن بعد میں اگست، 2017 میں وزیر اعظم کی میٹنگ کے بعد اسکیم کے ڈرافٹ پر تبصرے طلب کرنے کے اختیار کو ہٹا دیا گیا اور اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے 23 اگست 2017 کو اس کو منظوری بھی دے دی۔واضح ہو کہ پچھلے کچھ دنوں سے الیکٹورل بانڈ کے تعلق سے کئی انکشاف سامنے آئے ہیں جس میں یہ پتہ چلا ہے کہ آر بی آئی، الیکشن کمیشن،وزارت قانون، آر بی آئی گورنر، چیف الیکشن کمشنر اور کئی سیاسی جماعتوں نے مرکزی حکومت کو خط لکھ‌کر اس اسکیم پر اعتراض کیا تھا۔

حالانکہ وزارت خزانہ نے ان تمام اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے الیکٹورل بانڈ اسکیم کو منظور کیا۔ اس بانڈ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کی پہچان بالکل مخفی رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : الیکٹورل بانڈ : وزارت قانون، چیف الیکشن کمشنر نے 1 فیصد ووٹ شیئر کی شرط پر اعتراض کیا تھا

آر بی آئی نے کہا تھا کہ الیکٹورل بانڈ اور آر بی آئی قانون میں ترمیم کرنے سے ایک غلط روایت شروع ہو جائے‌گی۔ اس سے منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی  ہوگی اور سینٹرل  بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائے‌گا۔وہیں، الیکشن کمیشن اور کئی سابق الیکشن کمشنر نے الیکٹورل بانڈ کی سخت تنقید کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا کہ الیکٹورل بانڈ پارٹیوں کو ملنے والے چندے کی شفافیت کے لئے خطرناک ہے۔

غور طلب ہے کہ الیکٹورل اصلاحات کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے حال میں الیکٹورل بانڈ کی فروخت پر روک کی مانگ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔ سی پی ایم  نے ایک الگ عرضی میں اس کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعت 30 مئی سے پہلے الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بانڈ سے متعلق تمام جانکاری ایک مہر بند لفافہ میں دیں۔ کورٹ نے کہا تھا کہ تفصیلی سماعت کے بعد اس معاملے میں آخری فیصلہ لیا جائے‌گا۔

Next Article

کانگریس نے جس یو اے پی اے قانون کو پاس کیا تھا، اب اسی کے ’غلط استعمال‘ پر اٹھائے سوال

کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس  نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔

کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں  اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں  کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’

کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔

کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔

کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’

‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔

سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔

اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے  کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’

انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔

جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔

کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’

Next Article

اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے پر جیل  رسید نہیں کیا جا سکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ایک ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سے  جیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ دو بالغ افراد کے آپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سےجیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست دو بالغ افراد کےآپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے ایک شخص کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے یہ حکم دیا، جنہیں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نےفروری 2025 میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

درخواست گزار کو اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018 اور انڈین جسٹس کوڈ 2023 کی دفعات کے تحت اپنی مذہبی شناخت چھپانے اور دھوکہ دہی سے ہندو رسم و رواج کے تحت خاتون سے شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایک حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا، ‘مدعا علیہ-ریاست کو اپیل کنندہ اور ان کی بیوی کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے اپنے والدین اور خاندانوں کی مرضی کے مطابق شادی کی ہے۔’

بنچ نے مزید واضح کیا کہ جاری فوجداری کارروائی جوڑے کی اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کی راہ میں آڑےنہیں آئے گی۔

عدالت نے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت دی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے خلاف چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔ بنچ نے کہا،’ریکارڈ پر موجود حقائق کو دیکھتے ہوئے ہمارے خیال میں ضمانت کا معاملہ بنتا ہے۔’

عدالت نے درخواست گزار کے سینئر وکیل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر بھی غور کیا، جنہوں نے استدلال کیا کہ کچھ افراد اور تنظیموں کی جانب سے بین المذاہب شادی پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ شادی دونوں خاندانوں کی مکمل معلومات اور موجودگی میں ہوئی اور صدیقی نے شادی کے اگلے دن حلف نامہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرے گا اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

جوڑے نے 10 دسمبر کو شادی کی تھی، جس کے صرف دو دن بعد متعلقہ ایف آئی آر اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر ضلع کے رودر پور تھانے میں 12 دسمبر 2024 کو درج کی گئی تھی۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے پہلے صدیقی کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے مذہب سے متعلق حقائق مبینہ طور پر اس کے خاندان کو ظاہر نہیں کیے گئے تھے اور شادی سے پہلے اس کے خاندان کو نہیں بتایا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 28 فروری کو ضمانت مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے استغاثہ کی اس دلیل کو قبول کیا کہ اس شخص کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے پایا کہ شادی ہندو رسم و رواج کے تحت کی گئی تھی، لیکن درخواست گزار اور اس کے خاندان نے شادی کے بعد تک اپنی مسلم شناخت ظاہر نہیں کی۔

شکایت خاتون کے ایک چچازاد کی طرف سے درج کروائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خاندان کو دولہے کے مذہبی پس منظر کے بارے میں دہلی میں اس کے گھر جانے کے بعد ہی معلوم ہوا جہاں انہوں نے دیکھا کہ ‘زیادہ تر لوگ دوسری برادری کے تھے۔’ 11 دسمبر کو صدیقی کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ کے باوجود اگلے ہی دن ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے اور ان کی مذہبی خودمختاری کا احترام کریں گے۔

جبکہ صدیقی کے وکیل نے اس بات پرزور دیا کہ ان کی والدہ ہندو ہیں اور وہ ہندو ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ہائی کورٹ کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ جوڑے نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی نہیں کی تھی، جو کہ ہندوستان میں بین مذہبی شادیوں کو کنٹرول کرتا ہے، اور یہ کہ اہم حقائق مبینہ طور پر خاتون کے خاندان سے چھپائے گئے تھے، حلف نامے کو ثبوت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ ‘صحیح حقائق کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔’

اس دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ باتیں دونوں فریقوں کو معلوم تھیں، ہائی کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا، ‘درخواست گزار ضمانت کا حقدار نہیں ہے۔’

اس کے برعکس، سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ذاتی آزادی اور ازدواجی خود مختاری کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاست مذہبی اختلافات کی بنیاد پر بالغ افراد کے ساتھ رہنے کے حق کو سلب نہیں کر سکتی۔

بنچ نے کہا، ‘یہ ایک موزوں کیس ہے جس میں ضمانت کی راحت ملنی چاہیے۔’ بنچ نے عرضی گزار کی دلیل کو نوٹ کیا کہ جوڑے اپنے خاندانوں سے الگ رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سکون سے رہ سکتے ہیں۔

Next Article

ڈرائنگ رومز اور وہاٹس ایپ جرنیلوں کے نام

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے  ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

مئی کے مہینے میں، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگیں،  سرحدوں پر فوجیں صف آرا تھیں اور میزائل سرحد پار کر رہے تھے،  تو اصل لڑائی شہروں، محلوں، چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں لڑی جا رہی تھی۔ نہ وردی کی ضرورت تھی، نہ تربیت کی۔ ہر شخص وہاٹس ایپ پر جرنیل بنا بیٹھا تھا۔ ہر دوسرا فرد اسٹریٹجک تجزیہ کار بن کر عسکری مشورے دے رہا تھا۔

جیسے کرکٹ میچ کے دوران ہر شائق ماہر کوچ بن جاتا ہے، ویسے ہی مئی کی اس کشیدگی کے دوران ہر فرد اپنی رائے دے رہا تھا—کب، کہاں، اور کیسے حملہ ہونا چاہیے۔

دہلی کی ہماری رہائشی سوسائٹی گروپ میں ایک آنٹی نے بیلسٹک میزائل ٹکنالوجی پر ایک لمبی پوسٹ شیئر کی ۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ معلومات انہیں اپنے کزن سے ملی، جو فضائیہ میں کام کرتا تھا۔

بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ کزن دراصل تنخواہوں والے اکاؤنٹس سیکشن میں تھا، اور اس کا میزائلوں سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایک اکاؤنٹنٹ کا میزائل لانچر سے ہو سکتا ہے۔

اسی گروپ میں ایک انکل جو جنگی مشورہ دے رہے تھے سے پوچھا گیا کہ ان کی عسکری قابلیت کیا ہے؟، تو انہوں نے اعلان کیا ؛’میں نے ‘بارڈر’ اور ‘اوڑی’ فلمیں دس بار دیکھی ہیں، مجھے جنگ کی باریکیاں بخوبی معلوم ہیں ‘ اعتراضات کرنے والوں پر انہوں نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر چپ کروادیا۔

دہلی کے ایک پوش علاقے کے وہاٹس ایپ گروپوں میں گویا جنگ چھڑ گئی تھی ،جب پاکستان پر ہندوستان نے میزائلوں سے حملے کیے ،ٹی وی پر جب وہ جگہیں دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک آنٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’ارے بھئی، عمارت تو جوں کی توں کھڑی ہے! مرنے والے بھی وردی میں نہیں تھے۔’

ان کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ میزائل نے عمارت پر عمودی حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ قوس کی شکل میں گرا۔’یہ کیا طریقہ ہوا؟ میزائل تو اوپر سے سیدھا مارنا چاہیے تھا!’ انہوں نے لکھا تھا۔

ابھی دفاعی ترجمان کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکمت عملی طے ہونے لگی تھی۔ ایک پان والے نے پوسٹ کیا تھا،’بھائی صاحب، وہ ہدف درست نہیں تھا۔ ہمیں ان کا تیل کا ذخیرہ ملتان میں اڑا دینا چاہیے تھا!’

ایک خاتون نے ٹوئٹر پر مشورہ دیا کہ انڈین ایئر فورس کو ملتان میں تھوکر نیاز بیگ کو نشانہ بنانا چاہیے، کیونکہ وہاں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر موجود ہیں۔ بعد میں جب کسی نے ان کی تصحیح کی کہ تھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہے، تو انہوں نے خاموشی سے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی—اور اگلے دن اسٹریٹجک خاموشی اختیار کر لی۔

ہندوستانی نیوز چینلوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا گویا گلیڈیئیٹرز کا میدان ہو۔ ایک خود ساختہ جنرل صاحب میز پر بیٹھے فرما رہے تھے؛

‘اگر میرے مشورے پر حملہ ہوتا، تو آج دشمن ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔’

ایک شادی کی تقریب میں، دولہا ابھی ہال میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماموں صاحب نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا؛

‘یہ جو حملہ ہوا ہے نا، یہ الیکشن اسٹنٹ ہے۔ اصل حملہ تب ہوتا جب ہم ان کا ریڈار سسٹم تباہ کرتے۔’

دلہن کی خالہ نے کان میں سرگوشی کی؛

‘ارے چھوڑو حملہ، یہ بتاؤ، لڑکا کس رجمنٹ میں ہے؟’

جنوبی دہلی کے لاجپت نگر علاقے کے شرما جی، جو دن بھر لائف انشورنس کی پالیسیاں بیچتے ہیں، شام کو عسکری ماہر بن جاتے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کو جیسلمیر کے قریب تعیناتی کی اسٹریٹجی سمجھا رہے تھے؛

‘اگر میں جنرل ہوتا، تو میں برہموس میزائل شمال مشرق سے چلاتا، مغرب سے نہیں۔ پھر دیکھتے وہ کیا کرتے!’

پھر فرمایا؛’ہائپرسانک میزائل استعمال کرنے چاہیے، جیسا روس نے کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے ڈرون ہیک کرو۔ میرے بیٹے کو ہیکنگ آتی ہے۔ ایرفورس کو اس کی خدمات لینی چاہیے !’

جب حقیقی جرنیل خطرات کا حساب لگا رہے تھے، تب وہاٹس ایپ کے سِم کارڈ جرنیل مشورے دے رہے تھے؛

‘بھائی، کراچی پر ایٹم بم پھینکو اور کھیل ختم کرو!’

ایک بابو نے مشورہ دیا؛

‘ریورس میزائل استعمال کرو، اگر انٹرسیپٹ ہو جائے تو واپس آ جائے گا!’

ایک خاتون نے صبح جھاڑو دیتے ہوئے دوسری سے کہا؛

‘بی بی، رات کے حملے کی آواز سنی؟’

جواب آیا؛

‘وہ میزائل نہیں تھا، میرا شوہر خراٹے مار رہا تھا!’

مگر سچ یہ ہے کہ سرحدوں پر جب گولیاں چلتی ہیں، جب لاشیں گرتی ہیں، تب صرف سپاہی نہیں، انسانیت بھی مرتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کے بعد ایک معروف چینل کے ایڈیٹر جو خود کو اسٹریٹجک امور کے ماہر سمجھتے ہیں، کیونکہ ماضی میں پتہ نہیں کیوں پاکستان نے ان کو قبائلی علاقوں میں ڈاکو مینٹری بنانے کی اجازت دی، نے سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے میں لائن آف کنٹرول کھینچ کر ایک کرنل کے ساتھ ایک گھنٹے کا لائیو شو کیا۔

وہ کرنل سے پوچھ رہے تھے کہ مظفر آباد تک پہنچنے میں فوج کو کتنا وقت لگے گا۔ ان کا جواب تھا کہ بس سترہ گھنٹوں میں قبضہ ہو جائےگا اگر راستہ میں ٹریفک جام نہ ہوا۔

ایسے ماحول میں، جہاں جوش کو حب الوطنی سمجھا جائے، وہاں اگر کوئی تجزیہ کار احتیاط کا مشورہ دے، تو اسے دشمن کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ سفارت کار اگر جنگ سے بچنے کی بات کریں تو انہیں بزدل، اور صحافی سوال کریں تو غدار قرار دیا گیا۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے ایک قتل نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی؟

کیا ہم بھول گئے کہ نازی جرمنی کے فالس فلیگ حملے سے دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تھی، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے؟

اور کیا ہم یاد رکھتے ہیں کہ جب واجپائی کو مشورہ دیا گیا کہ نیپال سے دہلی آنے والے اغوا شدہ طیارے کو لاہور میں تباہ کر دیں، تو انہوں نے انکار کیا؟ انہوں نے تین سو جانوں کو بچانے کو ترجیح دی، محض سفارتی پروپیگنڈے کی خاطرانہوں نے جانیں قربان کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

تب ہمیں احساس ہوگا کہ میزائل صرف پاکستان پر ہی نہیں، ہمارے شعور پر بھی گرے تھے۔

Next Article

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر محروم طبقات کے طلبہ کے ہاسٹل اور اسکالرشپ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا

راہل گاندھی نے 10جون کو لکھے اپنے خط میں پی ایم مودی سے کہاہے کہ دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے   ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/انڈین نیشنل کانگریس سے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں دلت، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی’قابل رحم’حالت کی جانب  توجہ مبذول کروائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، راہل گاندھی نے اپنے خط میں محروم طبقات کے طلبہ کو پوسٹ میٹرک اسکالرشپ فراہم کرنے میں تاخیر کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے ان اہم مسائل پر توجہ دینے کی گزارش  کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ان طبقات کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ راہل گاندھی نے یہ خط 10 جون کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے، ‘پہلا مسئلہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے رہائشی ہاسٹل کی قابل رحم حالت ہے۔ بہار کے دربھنگہ میں امبیڈکر ہاسٹل کے حالیہ دورے کے دوران طلبہ نے شکایت کی کہ وہاں ایک کمرہ ہے، جس میں 6-7 طلبہ کو رہنے پر مجبور  ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء گندے ہیں، پینے کا پانی صاف نہیں ہے، میس کی سہولت نہیں ہے اور لائبریری یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔’

راہل گاندھی نے مزید کہا، ‘دوسرا مسئلہ محروم طبقات کے طلبہ کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں تاخیر اور ناکامی ہے۔’

بہار کی مثال دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہاں کا اسکالرشپ پورٹل تین سال سے بند ہے اور 2021-22 میں کسی بھی طالبعلم کو اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔

گاندھی نے خط میں لکھا، ‘اس کے بعد بھی اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جو مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ یہ ‘مسئلہ’ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پی ایم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ہر ہاسٹل کا آڈٹ کرائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے اچھا انفراسٹرکچر، صفائی ستھرائی اور خوراک اور تعلیمی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اسکالرشپ کی بروقت تقسیم، اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم مودی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ محروم طبقات کے نوجوان آگے نہیں بڑھتے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے مثبتردعمل کی توقع ظاہر کی ہے۔

Next Article

مہاراشٹر: اسی فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے کے رہائشی لگاتار نگرانی کی اذیت میں مبتلا

مہاراشٹر کی دارالحکومت سے محض 55 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اسی فیصد سے زیادہ کی مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

علی الصبح 3 بجےسعیدہ* کے دروازے پر دستک اب کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ عام طور پر، اس وقت دستک کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کی ایک بڑی نفری ان کی زندگی کو تباہ کرنے آن  پہنچی ہے۔ 1 اور 2 جون کی درمیانی شب کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی قیادت میں ممبئی اور تھانے کی مقامی پولیس سمیت 350 سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ممبئی سے 55 کلومیٹر دور بوریولی-پڑگھا گاؤں کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ ایک مربوط آپریشن میں، عدالتی سرچ وارنٹ کے ساتھ  ٹیموں نےبیک وقت 22  لوگوں کے دروازے پر دستک دی اور چھاپے ماری  کی کارروائی شروع کر دی۔

سعیدہ کہتی ہیں،’چھاپے ماری میں صرف 22 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا (جن میں تین بھائی ایک ساتھ رہتے تھے)، لیکن پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا گیا، اور پولیس نے ایسی صورتحال بنا دی جیسے یہاں خوفناک دہشت گرد چھپے ہوئے ہوں۔’

سعیدہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں گاؤں میں یہ دوسری  بڑی  چھاپے ماری تھی۔ دسمبر 2023 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی پچھلی چھاپے ماری اور گرفتاریوں میں، ان کے شوہر ان 15 لوگوں میں سے ایک تھے، جنہیں علاقےمیں  کالعدم دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے مبینہ طور پر ‘نوجوانوں کو متاثر’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ‘پچھلی بار، تقریباً اسی وقت، وہ میرے شوہر کو لے گئے اور میرے بچوں کے اسکول پروجیکٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک سب ضبط کر لیے ،’ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

پچھلی چھاپے ماری فلسطین میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہوئی تھی۔ سعیدہ کے اسکول جانے والے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے گاؤں میں ہونے والےاحتجاج کے لیے فلسطینی پرچم خریدا تھا۔ جھنڈے ضبط کر لیے گئے، اور بعد میں این آئی اے نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق ‘عسکریت پسند گروپ حماس’ سے تھا۔ چھاپے اور گرفتاریوں کے دوران اکثر کیے جانے والے یہ دعوے میڈیا میں سنسنی پیدا کرتے ہیں اور عدالت میں ابتدائی حراستی ریمانڈ کو یقینی بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم، ان کے قانونی جواز کو عدالت میں ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ تب تک فوجداری نظام انصاف کے اندر طویل عرصے تک انصاف کے حصول میں الجھی  نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی  ہیں۔

اس بار اے ٹی ایس ان کے ایک اوربیٹے کے خلاف جاری سرچ وارنٹ کے ساتھ پہنچی تھی۔ اے ٹی ایس نے مقامی عدالت سے اس بنیاد پرسرچ وارنٹ حاصل کیا تھا کہ ان کے گھروں میں ‘غیر قانونی/اینٹی نیشنل’ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ‘مجرمانہ دستاویز/مواد’ جمع تھے۔ تقریباً 10 گھنٹے تک جاری رہنے والی چھاپے ماری میں پولیس نے 19 موبائل فون، ایک تلوار اور ایک چاقو ضبط کیا۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور میڈیا نے جسے ’مہلک ہتھیار ‘ بتایا ہے وہ دراصل باورچی خانے میں استعمال کیا جانے والا چاقو ہے۔

‘کیا واقعی کسی گھرکے باورچی خانے میں، خصوصی طور پر مچھلی اور گوشت کھانے والے گھروں میں بڑی، تیز دھار چھریوں کا ملنااس قدر غیر معمولی واقعہ ہے؟’ جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، ان میں سے ایک نے سوال کیا۔

چھاپے ماری میں تلوار اور ایک چاقو کی ضبطی کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پولیس نے ابھی تک گاؤں میں کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔

سال 2023 میں کی گئی آخری چھاپے  ماری میں، پولیس نے اور بھی بڑے دعوے کیے تھےکہ بڑی تعداد میں چاقو ضبط کیے کیے گئے ہیں۔’اس کے بعد، تقریباً ہم سب نے بڑے چاقوپھینک دیے اور کچن میں چھوٹی چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ پولیس کب ہمارے گھر میں داخل ہو گی اور ہمارے برتنوں کو گولہ بارود میں بدل دے گی،’ ایک نوجوان خاتون نے کہا، جس کے گھر پر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا، حالانکہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

چھاپے کے دوران مقامی پڑگھا پولیس اے ٹی ایس کے ساتھ تھی۔ ایک مولانا کے گھر میں، پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو گائے ضروری کاغذی کارروائی کے بغیر رکھی گئی تھی۔ پڑگھا پولیس نے مولانا کو مہاراشٹر اینیمل پریزرویشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا  تھا۔ انہیں ایک دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں

بوریولی-پڑگھا ممبئی-ناسک ہائی وے پر واقع ہے۔ 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ گاؤں تقریباً چار دہائیوں سے تنازعات کے مرکز میں ہے۔ یہ سب 1980 کی دہائی کے اوائل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سابق فائربرانڈ اسٹوڈنٹ لیڈرثاقب ناچن کے واسطہ پڑنے کےبعدسے شروع ہوا تھا۔ ناچن کی طرح کئی دوسرے لوگوں پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ایک ایسی تنظیم جو بعد میں 2001 کے اوائل میں کالعدم قرار دی گئی ۔

ثاقب ناچن۔ تصویر: ایکس

ناچن، جس نے دہشت گردی کے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے، قصوروار ٹھہرائے گئے، اور انہوں نےکئی سال جیل میں گزارے ہیں، ان پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی سربراہی کا الزام ہے۔ وہ اور ان کا چھوٹا بیٹا شمیل 2023 سے حراست میں ہیں۔ ناچن فی الحال دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں، جبکہ شمیل کو ممبئی کی تلوجا جیل میں رکھا گیا ہے۔

اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چھاپے ماری انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی  گئی تھی کہ ناچن خاندان ابھی بھی گاؤں پر کنٹرول رکھتا ہے۔ تقریباً 10000 کی آبادی والے بوریولی-پڑگھا گاؤں میں زیادہ تر کونکنی مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہیں، وہ ممبئی-ناسک ہائی وے کے پاس  زمینوں کے مالک ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران، یہاں زمین کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہےاور کئی  گودام بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ روایتی طور پر ماہی گیری، ریت یا تعمیراتی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کے مسلسل چھاپوں نے ان کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔

زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کا موضوع ناچن کے ساتھ ان کی ‘وابستگی’ کے اردگرد گھومتا ہے۔ ‘ہم میں سے اکثر لوگ براہ راست یا دور سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،جس میں ناچن خاندان بھی شامل ہے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک ہی مسجد میں جاتے ہیں؛ ہم رابطے میں ضرور رہتے ہیں، اسے غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟’ اس بار کی چھاپے ماری میں شامل 22 افراد میں سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے ۔

اس بار جب اے ٹی ایس آئی تو انہوں نے ناچن کے ایک اور بیٹے عاقب کو نشانہ بنایا۔ وارنٹ میں اس کا نام تھا، اور پولیس نے اس کا فون ضبط کر لیا۔ چھاپے کے وقت گھر میں موجود ایک رشتہ دار نے بتایا کہ جیسے ہی پولیس اندر داخل ہوئی، شمیل کا پانچ سالہ بیٹا خوف سے چیخنے لگا۔ اس نے کہا، ‘بچے نے اتنی سی چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھا ہے۔

چھاپے بچوں کو کس طرح  متاثر کرتے ہیں

بوریولی-پڑگھا گاؤں میں بڑا ہونا اور زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔ گزشتہ برسوں میں چھاپے اور گرفتاریاں اس قدر معمول  کا حصہ بن چکی ہیں کہ اب یہ بچوں کے درمیان ایک عام ساکھیل بن گیا ہے۔ ایک ماں نے بتایا،’یہاں کے بچوں نے اپنے خودکے کھیل ایجاد کرلیے ہیں۔ وہ چھاپے، جیل ملاقات اور گرفتاری کھیلتے ہیں،’، جبکہ اس کے چھوٹے بچے اور چند پڑوسی بچے تجسس کے ساتھ ہماری بات چیت سن رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس طرح کی  بات چیت سے دور رکھنا فضول ہے۔حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے والی لڑکی نے پوچھا،’جب پولیس وقت کا خیال کیے بغیر ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے اور صرف ایک یا دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’پولیس اس بار اس کے بڑے بھائی کی تلاش میں آئی تھی۔ ‘انہوں نے میرا فون بھی لے لیا، اور رابطے کی فہرست اور ایپس کو اسکرول کیا۔ جیسے ہی انہوں نے  میری فوٹو گیلری دیکھنا شروع کی، میں نے طے کر لیا کہ بہت ہوگیا۔ مجھے اپنا فون چھیننا پڑا اور سختی سے کہنا پڑا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور وہ غیر قانونی طور پر ایک نوجوان لڑکی کی فوٹو گیلری تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔’

تلاشی کے 22 وارنٹ میں سے کم از کم دو افراد حج پر گئے ہوئے تھے۔ تاہم سرچ ٹیم ان کے گھروں میں بھی داخل ہوئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھاپے کے وقت صرف ان کی دو نوعمر بچیاں گھر پر تھیں۔ ایک رشتہ دار نے سوال کیا،’اے ٹی ایس نے دعویٰ کیا ہےکہ ان کے پاس ٹھوس انٹلی جنس معلومات  تھیں۔ انہیں یقیناً معلوم رہا ہوگا کہ بچیاں  گھر میں اکیلی ہیں، پھر بھی انہوں نے چھاپے ماری کی۔ کیا یہ بھی قانونی ہے؟’

چھوٹی عمر کے کچھ لڑکوں نے شکایت کی کہ پولیس نے انہیں کئی بار اٹھایا اور پوچھ گچھ کی ۔ ایک 22 سالہ نوجوان نے کہا،’وہ ہم سے ہماری پیدائش سے پہلے کی باتیں پوچھتے ہیں۔ جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم 80 اور 90 کی دہائی کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔’

’میڈیا ہمارا موقف سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیا یکطرفہ خبریں دے کر پولیس کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے، اور پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں کے کمیونٹی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی چھاپہ پڑتا ہے تو میڈیا کا عملہ بڑی تعداد میں پہنچ جاتا ہے۔ سعید* کا دعویٰ ہے کہ ،’انہیں ہماری کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،  بلکہ وہ مسلم مخالف بیان بازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔’

وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں، جب ٹی وی رپورٹروں کی ایک ٹیم نے خفیہ طور پر ایک کار سے گاؤں کی فلم بندی شروع کر دی تھی۔ سعید کہتے ہیں، ‘میں حیران تھا کہ انہیں کارسے اس قدر دھندلے مناظر کیوں لینے پڑے۔ میں نے ان میں سے ایک کو باہر نکل کر مقامی لوگوں سے ملنے اور ان کا انٹرویو کرنے کو بھی کہا۔ لیکن انہوں نے منع  کر دیا۔’ ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، تاکہ گاؤں کو صحافیوں کے لیے بھی ‘خطرناک’ جگہ کے طور پر پیش کیا جا سکے ۔

پولیس اور میڈیا دونوں کی دشمنی نے گاؤں والوں کوحددرجہ شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو وہ بات کرنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی کی تصویر نہ لیں یا اسٹوری میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘وہ تمام لوگ جو آخری چھاپے کے بعد آواز اٹھا رہے تھے، اب انہیں تلاشی کے وارنٹ مل چکے ہیں۔’

پولیس کی طرف سے پیش کی گئی متعدد تھیوریوں  میں سے، جس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، وہ یہ ہے کہ ناچن نے گاؤں کو ایک ‘آزاد اسلامی اسٹیٹ’بنا دیا اور اس کا نام بدل کر’الشام’ رکھ دیا، یہ اصطلاح دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس کے علاقائی عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ مقامی لوگ اس دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیل میں رہ چکے ایک بزرگ شخص کہتے ہیں۔’ہمارے گاؤں میں مسلمانوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا گھر ہے،جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کا تہوار مناتے آئے ہیں۔’ وہ پوچھتے ہیں،’ہم اجتماعی طور پر ایک سالانہ گنپتی جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘ وہ پوچھتے ہیں ،’ایک ‘اسلامی اسٹیٹ’ میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟’

دی وائر نے ایک 65 سالہ خاتون وسیمہ ملا کے گھر کا دورہ کیا جو پولیس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس نے ان کی بیٹی کے گھر پر چھاپے ماری کی تو خاتون گھبرا گئی تھیں۔ایک پڑوسی نے بتایا، ‘وہ چیخنے لگیں اور پھر فرش پر گر گئیں۔’ پڑوسی نے دعویٰ کیا کہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ ان کی موت ہو گئی ہے، پولیس نے ان کے داماد کو انہیں دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی۔

گاؤں والوں کا خیال ہے کہ چھاپے ماری، اگر اتنی اہم تھی، تو اس کو دن کے وقت بھی انجام دیاجا سکتا تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے کہا، ’وہ چاہتے تھے کہ ہم گھبرا جائیں، وہ چاہتے تھے کہ لوگ حیران ہو جائیں، وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کوئی بھی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔‘

*رازداری کے لیے نام  تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔