منی پور میں گزشتہ ماہ 3 مئی سے ہونے والے نسلی تشدد کے سلسلے میں منی پور ٹرائبلس فورم نے کہا ہے کہ این بیرین سنگھ کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ریاست میں پولرائزیشن کی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے۔فورم نے چیف منسٹر اور بی جے پی کے ایک راجیہ سبھا ایم پی کے مبینہ رول کی جانچ کی اپیل کی ہے۔
نئی دہلی: منی پور ٹرائبلس فورم، دہلی (ایم ٹی ایف ڈی) نے مرکزی حکومت سےگزشتہ 3 مئی کو منی پور میں میتیئی کمیونٹی اور کُکی-زومی برادری کے درمیان شروع ہوئے پرتشدد نسلی تنازعہ کو بھڑکانے میں چیف منسٹر این نے بیرین سنگھ اور بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی لشمبا سناجاؤبا کے مبینہ رول کی جانچ کی اپیل کی ہے۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، تشددکے کچھ دنوں بعد ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کرنے والے ایم ٹی ایف ڈی نے گزشتہ بدھ کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کیا تھا، جس میں کُکی-زومی کمیونٹی کی ریاست میں صدر راج نافذ کرنے اور ان کے لیے علیحدہ انتظامیہ کی تشکیل کے عمل کو شروع کرنے کے مطالبہ کو دہرایا۔
Even as Hon'ble Union Home Minister @AmitShah ji continues to reach out to communities in #Manipur searching for peace, ultra-right Meitei outfits are still engaged in ethnic cleansing against the tribals.
We seek immediate action by @adgpi @Spearcorps. @ANI@IndiaToday pic.twitter.com/dcWu7GJ7GP
— Manipur Tribals' Forum Delhi (@mtfdelhi) May 31, 2023
ایم ٹی ایف ڈی نے منی پور حکومت سے اس بات کو یقینی بنانے کی گزارش کی کہ میتیئی کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے قبائلیوں کی لاشیں، جو ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ریمس) اور جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پڑی ہیں، کو ویسے ہی رکھا جائے اور ترجیحی بنیادوں پر ان کی شناخت کا عمل شروع کیا جائے۔
فورم نے الزام لگایا کہ منی پور میں کُکی-زومی-میزو-ہمار برادریوں کے خلاف تشدد ارمبائی تینگ گول اور میتیئی لیپون جیسے انتہا پسند میتیئی گروپ کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جنہیں امپھال وادی میں ریاستی سیکورٹی فورسز کے دفاتر سے ہتھیار چرانے کی اجازت دی گئی۔
دوسری طرف،ایم ٹی ایف ڈی نے کہا کہ کُکی-زومی لوگ اپنے دفاع کے لیے ہاتھ سے بنے ہتھیار اور گولہ بارود اور کچھ لائسنسی بندوقوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایم ٹی ایف ڈی کے جنرل سکریٹری ڈبلیو ایل ہنج سنگھ نے کہا کہ این بیرین سنگھ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی منی پور میں پولرائزیشن کی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا،کُکی لوگ روایتی طور پر طویل عرصے تک وادی میں میتیئی کے قریب ترین جغرافیائی پڑوسی رہے ہیں۔ اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے دشمن کی تلاش کی یہ ایک بہترین مثال ہے۔
دی ہندو کے مطابق، چار پانچ سال قبل ہی کلچرل یوتھ فورم کے طور پر وجود میں آنے والےارمبائی تینگ گول اور میتیئی لیپن بالترتیب حکومت کے حامی ہیں اور ایم پی سجاناؤبا سے وابستہ ہیں۔ چیف منسٹر سنگھ نے پچھلے کچھ سالوں میں ان تنظیموں کی طرف سے منعقد کئی عوامی پروگراموں میں حصہ لیا ہے۔
ہنج سنگھ نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے میتیئی باغیوں کے وادی پرمشتمل گروپوں کو ارمبائی تینگ گول اور میتیئی لیپن میں جذب کیا جا رہا ہے۔
ایم ٹی ایف ٹی نے دعویٰ کیا کہ بدلے میں وہ ان لوگوں کاکُکی-زومی-میزو-ہمار کمیونٹیز کے خلاف تشدد میں ان کی رہنمائی کر رہے تھے اور یہ ریاستی حکومت کے ساتھ مہینوں سے کام کر رہی تھی۔
ایم ٹی ایف ڈی نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ مرکزی حکومت اور وزیر داخلہ سے اس بحران کو حل کرنے کی پوری امید کر رہی ہے۔
ہنج سنگھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت مسلسل اپنے بیان بدل رہی ہے۔
انہوں نے کہا،پہلے انہوں نے کہا کہ تشدد کے پیچھے افیون کے کاشت کاروں کا ہاتھ ہے، پھر انہوں نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن اور اب وہ عسکریت پسند اور دہشت گرد کہہ رہے ہیں، حالانکہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) نے تشدد کو عسکریت پسندی سے جوڑنے کے کسی بھی تصورکو مسترد کر دیا ہے۔
دریں اثنا، دہلی میں کُکی-زومی-ہمار طلبہ تنظیم بدھ کی سہ پہر جنتر منتر پر ایک احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئی، ساتھ ہی انہوں نے منی پور میں فوری طور پر صدر راج نافذ کرنے اور کُکی-زومی-ہمار برادریوں کے لیے ایک علیحدہ انتظامیہ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اپنے مطالبات ایک میمورنڈم کی صورت میں وزیر اعظم دفتر کوبھی سونپے۔
واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی کو ہونے والا نسلی تشدد تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے۔ اکثریتی میتیئی کمیونٹی کی طرف سے ایس ٹی کا درجہ دینے کے مطالبے نے ریاست میں کشیدگی کو جنم دیا تھا، جسے پہاڑی قبائل اپنے حقوق پر تجاوز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تشدد کے بعد اب قبائلی رہنما الگ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
میتیئی برادری کا مسئلہ ایک بار پھر اس وقت سامنے آیا، جب 27 مارچ کو منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ میتیئی برادری کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کے سلسلے میں مرکز کو سفارش پیش کرے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ اس فیصلے سے منی پور کے غیرمیتیئی باشندے جو پہلے سے ہی درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل ہیں،میں کافی بے چینی پیدا کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 3 مئی کو نکالے گئے ایک احتجاجی مارچ کے دوران نسلی تشدد دیکھنے کو ملا۔
گزشتہ 17 مئی کو سپریم کورٹ نے منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں میتیئی کمیونٹی کو شامل کرنے پر غور کرنے کی ہدایت کے خلاف ‘سخت ریمارکس’ دیے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو حقائق کی رو سے بالکلیہ غلط قرار دیا تھا۔
اس سے قبل 8 مئی کو ہوئی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے منی پور میں تشدد کو ‘انسانی مسئلہ’ قرار دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ کسی کمیونٹی کو شیڈول کاسٹ (ایس سی) یا شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس نہیں ہے، بلکہ صدر کے پاس ہے۔
منی پور میں میتیئی کمیونٹی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے اور زیادہ تر وادی امپھال میں رہتی ہے۔آدی واسی ، جن میں ناگا اور کُکی شامل ہیں، آبادی کا 40 فیصد ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں، جو وادی کے علاقے کے چاروں طرف واقع ہیں۔
ایس ٹی کا درجہ ملنے سے میتیئی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے حقدار ہوں گے اور انہیں جنگلاتی زمین تک رسائی کا حق حاصل ہوگا، لیکن ریاست کی موجودہ قبائلی برادریوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کے لیے دستیاب ریزرویشن کم ہو جائے گا اور صدیوں سے وہ جن زمینوں پر آباد ہیں ، وہ خطرے میں پڑ جائیں گی۔