ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ 23 جنوری کو کانگریس صدر راہل گاندھی نے اپنی بہن پرینکا گاندھی واڈرا کو پارٹی کا جنرل سکریٹری بناتے ہوئے مشرقی اتر پردیش کی کمان سونپنے کا اعلان کیا۔ سیاست کی اس سب سے زیادہ منتظر انٹری کے رسمی اعلان کے بعد میڈیا میں اس سے متعلق مضامین کا سیلاب آگیا۔زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا ماننا تھا کہ پرینکا کی انٹری ایک گیم چینجر ثابت ہوگی۔ ان میں سے زیادہ تر پیشن گوئی کی کوئی بنیاد نہیں تھی، کیونکہ اب تک پرینکا گاندھی نے کوئی ایسا قدم یا فیصلہ نہیں لیا ہے جس سے ان کی سیاسی سوچ-سمجھ یا ملک اور ان کی پارٹی کے برعکس موجود چیلنج کو حل کرنے کی ان کی صلاحیت کا کوئی احساس ہوتا ہو۔
پرینکا کی تعریف میں برپا شور-شرابے میں ایک خبر جو بحث میں آنے سے چوک گئی وہ انڈیا ٹوڈے-کروی انسائٹس کے سروے سے متعلق تھی۔ اس سروے کے مطابق اگر آئندہ لوک سبھا انتخابات میں یوپی میں ایس پی –بی ایس پی (اور راشٹریہ لوک دل) کا اتحاد قائم رہتا ہے تو بی جے پی-اپنا دل کی سیٹیں گھٹکر 18 پر آ جائیںگی، ایس پی –بی ایس پی اتحاد کے کھاتے میں 58 سیٹیں جائیںگی اور کانگریس محض 4 سیٹوں پر سمٹ جائےگی۔حالانکہ یہ سروے پرینکا گاندھی کی سیاست میں آنے کے اعلان سے پہلے کا تھا مگر اس میں ایک بات صاف دکھ رہی تھی کہ اتر پردیش میں ایس پی –بی ایس پی اور بی جے پی کے پولرائزیشن کے مقابلے کی صورت میں اکیلی اتری کانگریس کے پیر اکھڑ جانے کا زیادہ امکان ہے۔
ایس پی –بی ایس پی –آر ایل ڈی اتحادکی وجہ سے دلتوں، پچھڑوں اور مسلم ووٹروں کے ایک بڑے طبقے کے ایک ساتھ آنے کا قوی امکان ہے، جس کی منظم سیاسی طاقت ریاست کو ہلا سکتی ہے اور یہی بات تمام تجزیہ نگاروں کی نظر میں آنے سے چوک گئی۔ان کو لگا کہ صرف اور صرف پرینکا گاندھی کے کرشمہ کی وجہ سے کانگریس اتر پردیش میں اپنی سیاسی واپسی کرنے میں کامیاب ہو جائےگی۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے جب میڈیا کے سورماگاندھی فیملی کی کرشمائی قیادت کی چکاچوندھ میں زمینی سچائیوں کو نہیں دیکھ پائے۔
2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں بھی میڈیا پنڈتوں کی نگاہیں راہل گاندھی اور وزیراعلیٰ مایاوتی پر ہی ٹکی تھیں لیکن بہتر زمینی فارمولے کے ساتھ اکھلیش یادو نے سبھی کو چت کر دیا تھا۔اسی انتخاب کے دوران پرینکا گاندھی نے غیراعلانیہ طور پر ہی سہی لیکن سیاست میں قدم ضرور رکھ دیا تھا۔ ان کو اپنے بھائی اور ماں کی امیٹھی اور رائےبریلی لوک سبھا سیٹوں کے تحت آنے والی دسوں اسمبلی سیٹوں کا غیراعلانیہ صدر بنا دیا گیا تھا۔یوں 2009 لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی وہ تشہیر کے دوران اپنی ماں سونیا گاندھی کے ساتھ رہی تھیں، لیکن اس کے مقابلے یہ زیادہ رسمی ذمہ داری تھی۔
2012 انتخاب میں کانگریس کی تشہیری مہم راہل گاندھی کی ‘یووا گولبندی، گاندھی فیملی کے کرشمہ اور غریبوں کی سیاست ‘ کے گھال میل کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر ٹکی تھی۔کانگریسیوں کی تقریروں میں سارا زور نوجوانوں اور غریبوں کو مخاطب کرکے بےروزگاری اور غریبی مٹانے کے لئے کانگریس کو ووٹ دینے کی اپیل پر تھا۔ اس کی وجہ پوری مہم ایک مضحکہ خیز جارحیت سے لبریز ہو گئی جس میں ‘ کب جاگوگے لوگوں ‘ قسم کی اپیلوں اور طعنوں کی کثرت تھی، جو گھماکر یہی بات کہتے تھے کی ریاست کے لوگ اپنی بدحالی کے خود ذمہ دار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : پرینکا گاندھی کو آپ کتنا جانتے ہیں؟
اس مہم کو کسی ‘پرسنل ٹچ ‘کے ذریعے سادھنے یا بہتر بنانے کی جگہ پرینکا گاندھی نے پورے جوش و خروش سے اپنے بھائی کے نقش قدم کی تقلید کی۔ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، میرے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کے پاس سب سہولیات ہیں، آپ کے پاس کیا ہے؟ موجود عوام کو تھوڑا اور ہڑکاتے ہوئے انہوں نے کہا، اگر آپ کے بچّوں کا مستقبل ان حالات میں خراب ہے تو آپ اس کو بدلتے کیوں نہیں؟ ‘
ریاست کے کچھ تجزیہ نگاروں نے کانگریس رہنماؤں اور دونوں گاندھیوں کی تقریروں کی غیرضروری شدت پسندی اور مغروریت سے لگتے بیانات کی طرف دھیان مرکوز کرنے کی کوشش کی پر کانگریس پارٹی اپنا داؤں چل چکی تھی۔2007 کے انتخابات میں کانگریس نے امیٹھی کی پانچ میں سے چار اسمبلی سیٹیں جیتی تھیں۔ فروری 2012 میں پرینکا گاندھی نے اپنی ماں کو رائےبریلی-امیٹھی کے دسوں سیٹیں جتوا دینے کا وعدہ کیا، لیکن انتخابات میں کانگریس دونوں جگہوں پر 2 سیٹوں پر سمٹ گئی۔
اس لئے اگر تاریخ کی بات کریں تو کہا جا سکتا ہے کی پرینکا گاندھی کی کرشمائی قیادت امیٹھی-رائے بریلی جیسا گاندھی فیملی کے گڑھ میں بھی کوئی جادو کر پانے میں ناکام رہا ہے۔2012 انتخابات کے بعد ضلع کانگریس کے کچھ لوگوں نے ہارکی وجہوں کا تجزیہ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی کی ‘گھٹتی اپیل ‘ کو بھی ہار کی وجہوں میں شامل کیا۔ایک اور شکایت جو رائے بریلی-امیٹھی کے کئی کارکنان نے کی وہ اس بابت تھی کہ گیٹ کیپرکلچر کی وجہ سے کارکن اور رہنما گاندھی فیملی کے اپنے رکن پارلیامان سے مل بھی نہیں پاتے۔
یہ گیٹ کیپر فیملی کے کچھ وفادار کی ایک چھوٹی سی منڈلی سے تعلق رکھتے ہیں، جو گاندھی فیملی سے قربت اور ان کے بھروسے کی وجہ سے یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ان سے ملنے کا اپوائنٹمنٹ دیا جائے اور کس کو نہیں۔غور طلب ہے کہ اس پوزیشن میں آنے کے لئے سیاسی سمجھ بوجھ یا بنیاد کی نہیں، بلکہ صرف فیملی کے بھروسے اور قربت کی ضرورت پڑتی ہے۔آج ہر پارٹی میں پیر پسار چکے گیٹ کیپر کلچرکی شروعات اندرا گاندھی اور ان کے پی اے آرکے دھون کے زمانے میں ہوئی تھی، جو پہلے ان کے ٹائپسٹ تھے۔ جیسےجیسے اندرا گاندھی کا بھروسہ دھون میں بڑھتا گیا ویسے-ویسے دھون کا سیاسی قد بھی بڑھا۔
یہاں تک کی کئی وزیراعلیٰ یا کابینہ وزراء کو بھی جلدی اندرا گاندھی سے ملاقات کا وقت پانے کے لئے دھون سے التماس کرنا پڑتی تھی۔ رائے بریلی میں یشپال کپور لوک سبھا سطح پر اسی کردار میں کام کرتے تھے۔اندرا گاندھی کے بعد یہ تہذیب کانگریس میں قائم ہو گئی۔ راجیو گاندھی کی ‘دون اسکول کوٹری ‘ کا تذکرہ خاصے عام ہیں۔ جب سونیا گاندھی سیاست میں آئیں تو انہوں نے بھی پیش رو گاندھی کی تقلید کی۔قومی سیاست میں احمد پٹیل ان کے گیٹ کیپر بنے، وہیں لوک سبھا سطح پر یہ کام ایک پنجابی برہمن کشوری لال شرما کے ذمے آیا۔
یہ بھی پڑھیں : جب پرینکاگاندھی وزیر اعظم واجپائی اور سشما سوراج پر بھاری پڑیں
چونکہ یہ گیٹ کیپر رہنما تک اپنی غیر مانع پہنچ اور اس سے ملنے والوں کی آمد و رفت پر کنٹرول کرنے کی اپنی طاقتوں کو پورے زور سے استعمال کرتے ہیں، اس لئے کئی بار یہ اپنے ہی رہنما کو زمینی کارکنان، مسائل اور تبدیلیوں سے کاٹ بھی دیتے ہیں۔2012 انتخابات میں پارٹی کے خراب مظاہرے کے لئے گیٹ کیپر کشوری لال شرما کی ان حرکتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ یہ گیٹ کیپرکلچر بھی پرینکا گاندھی کی دقتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ کچھ ذرائع کی مانیں تو کبھی راہل گاندھی کے گیٹ کیپر رہے کنشک سنگھ آج کل پرینکا گاندھی کے ساتھ اس کردار میں ہیں۔
2014 انتخابات میں کراری ہارکے بعد راہل گاندھی نے کنشک سنگھ سے کنارہ کر لیا تھا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کی اپنی پوزیشن کے غلط استعمال کے چلتے بھی راہل اور کنشک میں ان بن ہوئی تھی، جس کے بعد وہ پرینکا کے ساتھ ہو لئے۔ایسے میں وہ پرینکا گاندھی کو کوئی بہتر صلاح یا حکمت عملی سجھا پائیںگے، اس پر بھی شبہ برقرار ہے۔
اس کے علاوہ ہمیشہ سے متنازعہ رہنے والے ان کے شوہر رابرٹ واڈرا بھی پرینکا گاندھی کے مسائل کو بڑھا رہے ہیں۔ 2012 انتخابات میں تشہیر کے دوران کا ایک واقعہ ہے۔ ایک بزرگ خاتون اپنے مسائل سے متعلق ایک خط پرینکا گاندھی کو دینا چاہ رہی تھی لیکن جب ان کے شوہر رابرٹ واڈرا نے اس کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا، تو اس نے یہ کہتے ہوئے خط واپس کھینچ لیا کہ اس کو ‘دوسروں ‘ کا بھروسہ نہیں ہے۔صاف ہے کہ عام لوگ پرینکا گاندھی کو تو پسند کرتے ہیں پر ان کے شوہر کو نہیں۔ اسی ماحول میں ایک افواہ بھی دہلی کے اداروں میں گھوم رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ دونوں گاندھی بھائی بہن کے تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے دکھتے ہیں۔
راہل گاندھی نے جان بوجھ کر اپنی بہن کو مشرقی یوپی کی مشکل ذمہ داری دی ہے جس میں ناکام ہونا تقریباً طے ہے۔ اگر پرینکا ریاست میں کانگریس کی لوک سبھا سیٹوں کی تعداد دہائی میں بھی نہیں پہنچا پائیں تو اس ناکامی کا ٹھیکرا انہی کے سر پھوٹےگا اور ان کا اثر کم ہوگا۔اس کے برعکس اگر ان کو آگے بڑھانے کی منشاء ہوتی تو مدھیہ پردیش، راجستھان یا گجرات جیسے کسی ریاست کی ذمہ داری ان کو دی جاتی جہاں پارٹی کی سیٹ تعداد سدھرنے کا امکان ہے اور تب اس کامیابی کا کریڈٹ پرینکا کو بھی ملتا۔
حالانکہ یہ صرف ایک افواہ ہے لیکن یہ ایک اہم امکان کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہے کہ اپنے پہلے ‘سرکاری ‘ ٹاسک میں پرینکا گاندھی کے ناکام ہونے کے آثار زیادہ ہیں۔کچھ ماہرین اور میڈیا پنڈتوں کو راہل اور پرینکا گاندھی سے بہت امیدیں ہیں، لیکن موجودہ حالات میں یہ زیادہ ممکن ہے کہ اپنے بھائی کی ہی طرح پرینکا گاندھی کو شروعاتی ذمہ داریوں میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں اور کانگریس کم سے کم ابھی تو یوپی میں ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
The post پرینکا گاندھی کا کرشمہ بھی یوپی میں کانگریس کو ہار سے نہیں بچا سکتا appeared first on The Wire - Urdu.