
مرکزی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے 13 فروری کو استعفیٰ دینے کے چند دن بعد ریاست کو صدر راج کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ صدر راج کے نفاذ کے بعد ریاست کے باشندے 23 سال بعد براہ راست مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔

امپھال۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے ایک رسمی خط میں بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے جمعرات (13 فروری) کو استعفیٰ دینے کے چند دن بعدمنی پور کو صدر راج کے ماتحت کر دیاگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، صدر دروپدی مرمو کے دستخط شدہ گزیٹیڈ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ انہیں ریاست منی پور کے گورنر کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے اور رپورٹ اور دیگر معلومات پر غور کرنے کے بعد میں مطمئن ہوں کہ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس میں اس ریاست کی حکومت ہندوستان کے آئین کی دفعات کے مطابق نہیں چل سکتی۔
منی پور میں صدر راج کے نفاذ کے بعد ریاست کے باشندے 23 سال بعد براہ راست مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ آئین کے آرٹیکل 356 کے تحت مرمو ہندوستان کی صدر کے طور پر منی پور ریاستی حکومت کے تمام کاموں اور منی پور کے گورنر کے پاس موجود یا ان کے تمام اختیارات کی ذمہ داری لے سکتی ہیں۔
منی پور مقننہ کے اختیارات پارلیامنٹ کے ذریعے یا اس کے تحت استعمال کیے جا سکیں گے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما سمبت پاترا گزشتہ دو دنوں سے ریاست میں پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر راج کا نفاذ منی پور میں نسلی تشدد، جو تقریباً 21 ماہ سے جاری ہے، کے کے ساتھ جاری تنازعہ میں ایک اہم لمحہ ہے۔
صدر راج کے بارے میں اپنے پہلے ردعمل میں بی جے پی کے کُکی ایم ایل اے پاؤلین لال ہاؤکیپ نے کہا، ‘اس میں 260 لوگوں کی جان چلی گئی، 60000 سے زیادہ لوگ نقل مکانی کو مجبور ہوئے ہیں، 200 سے زیادہ گاؤں جل گئے، 7000 سے زیادہگھر جل گئے اور نسلوں کے لیے صدمہ پہنچا ہے۔’
ریاست نے کئی پرتشدد واقعات کا مشاہدہ کیا، جن میں فائرنگ اور ڈرون بمباری شامل ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی، جان و مال کا نقصان اور شدیدتفرقہ شامل ہیں۔
انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم (آئی ٹی ایل ایف) کی رہنما نے کہا،’ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے مقابلے صدر راج زیادہ بہتر ہے۔ کُکی زو اب میتیئی پر بھروسہ نہیں کرتے، اس لیے ایک نیامیتیئی چیف منسٹر اب بھی انہیں راحت محسوس نہیں کرا رہا ہے۔ صدرراج سے کُکی زو کو امید ملے گی اور ہمیں یقین ہے کہ یہ ہمارے سیاسی حل کے ایک قدم کے قریب ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ صدر راج کے ساتھ ہی تشدد کے خاتمے کے لیے زمینی کام شروع ہو جائے گا، جس سے سیاسی بات چیت کے لیے سازگار ماحول کی راہ ہموار ہو گی۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کی اتحادی نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) کے ایم ایل اے نور الحسن نے کہا کہ ریاست میں امن اور معمول ان کی ترجیحات ہیں۔
حسن نے کہا، ‘یہ دیر سے کی گئی کارروائی ہے اور ہم سیاسی پیش رفت کی نگرانی بند کر رہے ہیں اور ہماری ترجیحات منی پور میں امن اور حالات کومعمول پر لانا ہے۔
دریں اثنا، جمعرات کو بیرین سنگھ نے غیر قانونی دراندازی کے معاملے پر ایکس پر ایک پوسٹ لکھا، جس میں انہوں نے خود کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
Flashback to 2022: A Myanmar national with a fake Indian Aadhaar card. How many more remain undetected till today?
My Dear Indigenous Friends,
Our land and identity are under threat. With a small population and limited resources, we stand vulnerable. I monitored and detected… https://t.co/ivUX7gDvt9
— N. Biren Singh (@NBirenSingh) February 13, 2025
انہوں نے لکھا، ’ہماری زمین اور پہچان خطرے میں ہے۔ قلیل آبادی اور محدود وسائل کے ساتھ ہم کمزور پوزیشن میں ہیں۔ میں نے 2 مئی 2023 تک غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل نگرانی کی اور ان کاپتہ لگایا۔ لیکن 3 مئی 2023 کے المناک واقعات کے بعد ہماری سرکاری مشینری مؤثر جواب دینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔’
بیرین سنگھ کا استعفیٰ اپوزیشن جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور بی جے پی کے اندر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی وجہ سے ہوا۔ نیشنل پیپلز پارٹی، جو کہ بی جے پی کی ایک اہم اتحادی ہے، نے بحران سے نمٹنے کے لیے عدم اطمینان کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے ہی اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔ بیرین کے استعفیٰ کے بعد پارٹی نے یہ کہتے ہوئے پھر سے حمایت دے دی کہ وہ صرف بیرین سنگھ کے خلاف تھی۔
بی جے پی نے 10 کُکی ایم ایل اے (تین اس کے اتحاد سے اور سات بی جے پی سے) کی حمایت کھو دی ہے۔ اس کے علاوہ میتیئی کے کچھ ایم ایل اے بھی بیرین سنگھ سے کافی ناخوش تھے اور انہوں نے کئی بار مرکزی قیادت سے رابطہ کیا ، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
بیرین سنگھ کے خلاف برسراقتدار پارٹی کے اندر طویل عرصے سے جاری بغاوت کو مزید ہوا دینے والا سپریم کورٹ کا 3 فروری کا مقدمہ تھا، جس میں ا ٹروتھ لیب نے تصدیق کی کہ سنگھ کی آواز کے نمونے لیک آڈیو ٹیپ، جس میں ان کی طرف سے ریاستی تشدد کو بھڑکانے کا کریڈٹ لیا گیا تھا، میں مبینہ طور پران کی آواز سے ’93 فیصد’میل کھاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے منی پور میں نسلی تشدد میں ان کا کردار تحقیقات کے دائرے میں آگیا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ مرکزی حکومت کے براہ راست انتظامیہ کے تحت منی پور کی کارکردگی کیسی رہتی ہے۔
اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ایکس پر لکھا،’آخر کار وہ ہوا جس کا انڈین نیشنل کانگریس تقریباً 20 ماہ سے مطالبہ کر رہی تھی۔ منی پور میں صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاست میں آئینی مشینری مکمل طور پر خراب ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے 3 مئی 2023 سے اب تک 300 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 60000 سے زیادہ مرد، خواتین اور بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔’
Finally what the Indian National Congress has been demanding for almost 20 months has happened. President’s Rule has been imposed in Manipur.
This has come after what the Supreme Court called ‘the absolute breakdown of constitutional machinery in the state’ which saw the…
— Jairam Ramesh (@Jairam_Ramesh) February 13, 2025
انہوں نے کہا، ‘یہ اس وقت ہوا ہے جب منی پور کے معاشرے کے تانے بانے کو مکمل طور پر تباہ نہیں ہونے دیا گیا لیکن اسے شدید نقصان پہنچنے دیا گیا ہے۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب فروری 2022 میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو بھاری اکثریت ملی، لیکن ان کی سیاست کی وجہ سے یہ خوفناک سانحہ پندرہ ماہ بعد ہی پیش آیا۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب مرکزی وزیر داخلہ منی پور کو سنبھالنے میں واضح طور پر ناکام رہے ہیں، جسے وزیر اعظم نے انہیں سونپا تھا۔ یہ اس وقت ہوا ہے جبدنیا بھر کی سیر کرنے والے وزیر اعظم نے منی پور کا دورہ کرنے اور مفاہمت کے عمل کو شروع کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔’
اسی طرح، لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے اس اقدام کو ‘منی پور میں حکومت کرنے میں بی جے پی کی مکمل نااہلی کا تاخیر سے اعتراف’ قرار دیا۔