
کانگریس بیرین سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، جس میں حکمراں پارٹی کے کچھ ایم ایل اے کی حمایت کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں این بیرین سنگھ کے رول کی جانچ کی ہے۔

این بیرین سنگھ گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)
نئی دہلی: منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے اتوار (9 فروری) کی شام اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ راج بھون گئے اور گورنر اجئے کمار بھلا سے ملاقات کی اور انہیں اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
معلوم ہو کہ بیرین سنگھ نے اتوار کو ہی نئی دہلی میں وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ دہلی سے واپس آنے کے بعد وزیر اعلیٰ سنگھ اپنے کچھ ایم ایل اے کے ساتھ شام کو راج بھون پہنچے اور گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس دوران منی پور کے ریاستی صدر اے شاردا اور پارٹی کے رکن پارلیامنٹ سمبت پاترا بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے بتایا ہےکہ بیرین سنگھ کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی اور این پی ایف (ناگا پیپلز فرنٹ) کے 14 دیگر ایم ایل اے بھی راج بھون میں موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق ، کانگریس بیرین سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، جس میں حکمراں پارٹی کے کچھ ایم ایل اے کی حمایت کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔
اس سلسلے میں کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر معلومات شیئر کی ہیں۔
The Congress was all set to move a no-confidence motion against the Chief Minister and his Council of Ministers in the Manipur Assembly tomorrow.
Sensing the climate, the Manipur CM has just resigned. This was a demand that the Congress has been making since early May 2023,…
— Jairam Ramesh (@Jairam_Ramesh) February 9, 2025
معلوم ہو کہ عدالتی کمیشن نے ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد میں این بیرین سنگھ کے کردار کی جانچ کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ منی پور تشدد کے حوالے سے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیشن کو پیش کی گئی آڈیو ریکارڈنگ– جو 2023 میں بیرین کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی ایک میٹنگ کی ہے- کے بارے میں گزشتہ سال کے شروع میں دی وائر کی سنگیتا بروآ پیشاروتی نےرپورٹ کی ایک سیریز لکھی تھی۔
اگرچہ، دی وائر آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا کہ اس ریکارڈنگ میں موجود آواز واقعی بیرین سنگھ کی ہے، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں موجود کچھ لوگوں سے آزادانہ طور پراس میٹنگ کی تاریخ، موضوع اور مواد کی تصدیق کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے کاحوالہ دیتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتاتھا۔
آڈیو ریکارڈنگ اس نامہ نگار کو کچھ لوگوں نے دی تھی، جنہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اسے سنگھ سے منسلک سرکاری احاطے میں ریکارڈ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی ایک کاپی ریٹائرڈ جسٹس اجئے لامبا کو سونپی گئی تھی ، جو منی پور تشدد پر عدالتی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ یہ کمیشن وزارت داخلہ نے 3 مئی 2024 کو شروع ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد کُکی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس ٹرسٹ (کے او ایچ یو آر) نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرتے ہوئے آڈیو ٹیپ کی عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا۔
اس عرضی پر 8 نومبر کو سماعت کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے عرضی گزار سے کہا تھا کہ وہ آڈیو ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کرے اور اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے ۔
تاہم، ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے پیش ہوئےسالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے درخواست پر اس بنیاد پر اعتراض کیا تھا کہ عرضی گزار کو پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے 14 نومبر کو ٹروتھ لیب کی خدمات مانگی، جو ایک قابل اعتماد نجی لیب ہے،جسے اکثر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےمقرر کیا جاتا ہے، تاکہ ٹیپ کی صداقت کی تصدیق کی جا سکے۔ آڈیو ٹیپ کے ساتھ بھوشن نے ایک پریس کانفرنس سے لیے گئے وزیر اعلیٰ کی آواز کا نمونہ بھی پیش کیا – تاکہ آواز کا ملان کیا جا سکے۔
گزشتہ 18 جنوری کو بھوشن کو بھیجی گئی اور دی وائر کے ذریعے دیکھی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں ٹروتھ لیب نے تصدیق کی کہ آڈیو ٹیپ میں ‘ایک ریکارڈنگ پائی گئی جو بنیادی طور پر ایک مردکی آواز تھی، جس میں کچھ مداخلت کرنے والی آوازیں تھیں جو واضح طور پر ریکارڈنگ ڈیوائس کی ہلچل کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ پس منظر میں شور اور دیگر اسپیکرز کی آوازوں بھی تھیں۔’
رپورٹ میں بیان کیا گیا اہم نکتہ یہ ہے کہ، ‘…یہ پایا گیا کہ ‘کیو/ایم ‘ اور ‘ایس /ایم’ میں مرد اسپیکر کے ایک ہی شخص ہونے کا امکان 93 فیصد ہے۔’ یہاں لیب میں بھیجے گئے دونوں آواز کے نمونوں کی بات کی جا رہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے 22 جنوری کو سپریم کورٹ میں ایک ضمنی حلف نامہ داخل کیا، جس میں ٹروتھ لیب سرٹیفیکیشن رپورٹ کی ایک کاپی منسلک کی گئی۔
گزشتہ 3 فروری کو منی پور اور مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے ایس جی مہتہ نے سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) سے ٹیپ کی جانچ کروانے کے لیے تین ہفتوں کا وقت مانگا، کیونکہ یہ ایک سرکاری لیبارٹری ہے۔ مہتہ نے اپنی پچھلی بات کو بھی دہرایا – کہ کے او ایچ یو آر کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
سی ایم بیرین سنگھ کے دفاع میں دلیل دیتے ہوئے مہتہ نے درخواست گزار کو ‘مفاد پرست’ ‘شرپسند’ بھی کہا جو’ کچھ نظریاتی بوجھ لے کر چل رہے ہیں اورجو علیحدگی پسند ذہنیت رکھتے ہیں۔’
کیس کی سماعت کرتے ہوئےچیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے حکومت کو سی ایف ایس ایل رپورٹ کو سیل بند لفافے میں پیش کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دینے پر اتفاق کیا۔ کیس کی اگلی سماعت 24 مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔
واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی 2023 کو شروع ہونے والا نسلی تشدد اب تک 250 سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ اور 60000 لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
غورطلب ہے کہ این بیرین سنگھ 2017 میں پہلی بار منی پور کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ ریاست میں ان کی قیادت والی بی جے پی حکومت کی یہ مسلسل دوسری میعاد ہے۔
لیکن پچھلے کچھ مہینوں میں ریاست میں ہونے والے بڑے پیمانے پر تشدد نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ اپوزیشن نے بار بار ان پر تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا ہے۔