اتر پردیش کےتین دن کےدورے کے دوران گزشتہ25 جون کو کانپور میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی اسپیشل ٹرین کے گزر نے کے لیے روکے گئے ٹریفک سے لگے جام میں پھنس کر انڈین انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے کانپور چیپٹر کی صدروندنا مشرا کی جان چلی گئی تھی۔اسی دن صدر جمہوریہ کی سلامتی کے لیے جا رہے سی آر پی ایف کی تیز رفتار گاڑی نے ایک بائیک کو ٹکر مار دی ، جس سے ایک تین سالہ معصوم کی موت ہو گئی۔
ہندی کے اپنے وقت کے نامورادیب سرویشور دیال سکسینہ نے کبھی اپنی بے حد معروف نظم‘دیش کاغذ پر بنا نقشہ نہیں ہوتا’میں لکھا تھا؛
اس دنیا میں آدمی کی جان سے بڑا
کچھ بھی نہیں ہے
نہ ایشور
نہ گیان
نہ چناؤ
کاغذ پر لکھی کوئی بھی عبارت
پھاڑی جا سکتی ہے
اور زمین کی سات پرتوں کے بھیتر
گاڑی جا سکتی ہے
جو وویک
کھڑا ہو لاشوں کو ٹیک
وہ اندھا ہے
جو شاسن
چل رہا ہو بندوق کی نلی سے
ہتیاروں کا دھندہ ہے…
لیکن کورونا وائرس کے ڈھائےقہر کے بیچ آدمی کی اس جان کی قیمت کتنی کم ہو گئی ہے، اس کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کےاتر پردیش کےتین دنوں کےگزشتہ دورے پرایک طائرانہ نظر ڈال کر بھی سمجھا جا سکتا ہے،جس میں ان کے اپنے آبائی گاؤں کا دورہ بھی شامل ہے۔
ان کے اس دورےکی گاؤں میں ظاہر کیے گئے جذبات کےتناظر میں تو بھرپور چرچہ ہوئی ہی،تنخواہ سے ہو رہی مبینہ بھاری ٹیکس کٹوتی کو لےکر بھی کچھ کم چرچہ نہیں ہوئی۔
صوبے کے انتخابی سال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کی جانب سے خالص انتخابی فائدے کے لیے ان کے ہاتھوں باباصاحب امبیڈکرمیموریل اینڈ کلچرل سینٹر کی سنگ بنیاد کے موقع پر ان کی تقریر کی تو ابھی تک ‘میمانسا’ ہوتی آ رہی ہے۔
لیکن اس دورے کے شروع میں ہی گزشتہ25 جون کی شام کانپور میں ان کی اسپیشل ٹرین کے ایک اووربرج کے نیچے سے گزر نے کے دوران روکے گئے ٹریفک سے لگے جام میں پھنس کر انڈین انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے کانپور چیپٹر کی صدر وندنا مشرا کی جان چلی جانے کا کہیں کوئی چرچہ نہیں ہے۔
اس کو لےکر ایسا جتایا جا رہا ہے کہ صدر جمہوریہ کی طرف سےشائستگی کے ساتھ وندنا کےاہل خانہ سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ اسے بھول جانے میں ہی بھلائی ہے۔
یہ آدمیت کے ہی نہیں، اس لحاظ سے بھی بہت عجیب لگتا ہے کہ یو پی اے سرکار کے وقت سال2009 میں وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ کے چنڈی گڑھ دورے کے وقت ایک ایمبولینس جام میں پھنس گئی، جس کی وجہ سے اسپتال پہنچنے میں دیری سے اس میں لے جائے جا رہے مریض کی موت ہو گئی، تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا تھا۔
معزز حضرات اور عزت مآب لوگوں کی آمدورفت سے اس قدر عام لوگوں کی جان پر آ بنے اور وی آئی پی کلچر اس طرح سر چڑھ کر بولتا رہے کہ کوئی سوال تک نہ پوچھا جائے؟
اس بار کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ایک وقت وی آئی پی کلچر کی علامت بتاکر عزت مآب حکمرانوں کی گاڑیوں کی لال بتیوں تک پر اعتراض کیا جاتا تھا اور آج وندنا کے لیے کسی معاوضے کی مانگ تک سے پرہیز کیا جا رہا ہے۔
ٹھیک ہے کہ صدر جمہوریہ نے وندنا کی جان جانے کے ذمہ دارافسروں کی سرزنش کرتے ہوئے کانپور ضلع مجسٹریٹ آلوک تیواری اور پولیس کمشنر اسیم ارون کو اپنی طرف سےاظہار تعزیت کے لیے ان کے گھر بھیجا، جو ان کے آخری رسومات میں بھی شامل ہوئے۔
بعد میں پولیس کمشنر نے ٹوئٹ کرکے، جو کچھ ہوا، اس کا سارا ٹھیکرا ٹریفک سسٹم کی خامیوں پر پھوڑتے ہوئے معافی بھی مانگ لی۔
حالانکہ ان کی یہ معافی ‘کیسی’ تھی، اسے سمجھنے یا سمجھانے کے لیے خبروں میں آئی وہ ایک تصویر ہی کافی ہے، جس میں وندنا کے آخری رسومات کے وقت ان کے اہل خانہ پولیس افسروں کے سامنے بے بس سے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔
یہ سطورلکھنے تک مذکورہ ٹریفک خامیوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر چار پولیس اہلکاروں کومعطل کر دیا گیا ہے، لیکن کیا اس سلسلے میں اتنا ہی کافی ہے؟
نہیں،یہ محض ٹریفک سسٹم کی خامی نہ ہوکر عزت مآب کے قافلے کو بنا کسی رکاوٹ کےگزر نے دینے کے نام پر دیر تک ناحق ٹریفک روکے رکھنے اورشدید طور پر بیمارشہری کے اسپتال پہنچنے کے راستے کو محفوظ رکھنے میں مجرمانہ کوتاہی کا معاملہ ہے۔
ساتھ ہی سپریم کورٹ کے ان ہدایات کےبنیادی جذبے کی خلاف ورزی بھی، جن میں وہ کسی بھی سڑک کو زیادہ دیر تک بند رکھنے یا اس پر یاٹریفک روکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ احتجاج کے دوران بھی وہ انہیں بلاک نہ کرنے کو ہی کہتا ہے۔
معافی مانگنے والے پولیس کمشنر کا یہ کہنا سہی ہے کہ انہیں وندنا کے جام میں پھنسنے کی اطلاع پہلے مل جاتی تو وہ انہیں وقت سے اسپتال بھجوا دیتے، تو یہ اورسنگین بات ہے۔ ایسا ہے تو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ پولیس کاہائی ٹیک مواصلاتی نظام اس جان لیوا ٹریفک جام کے دوران بھی اس حالت میں کیوں تھا کہ اس کے داہنے ہاتھ کو پتہ نہیں تھا کہ اس کا بایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔
خبر تو یہ ہے کہ وندنا کے شوہر اور اہل خانہ ٹریفک روک رہے پولیس اہلکاروں کے سامنے باربار روتے اور گڑ گڑاتے رہے، لیکن نہ پولیس نے بیمار وندنا کے لیے سڑک خالی کرائی اور نہ اس بابت اپنے افسروں سے کوئی ہدایت لینا ہی گوارہ کیا۔
بیمارعام شہریوں کی جان کے لیے اتنے بےرحم تو وہ مظاہرین بھی نہیں ہوتے جو اپنی مانگوں کے لیے سرکاروں پر دباؤ بنانے کے لیے سڑکیں و ہائی وے وغیرہ جام کرتے ہیں۔ اسی لیے سات مہینے پرانے کسانوں کی تحریک کے دوران ایک بھی ایسی شکایت نہیں آئی ہے کہ اس کی وجہ سےکسی ضرورت مند یا بیمار کو اسپتال پہنچنے کے لیے راستہ نہیں ملا یا اس کی جان چلی گئی۔
پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ مذکورہ وی وی آئی پی موومینٹ کے وقت دو سے تین منٹ تک ٹریفک روکنے کی ہی ہدایت تھی، لیکن اس کے برعکس اسے کئی گنا دیر تک روکا گیا۔ پھر چھوڑا گیا تو بھی یاآمدورفت کو معمول پرلانے میں آدھا گھنٹہ لگا دیا گیا۔
یہ تاخیر کووڈ ہونے کی بعد کی پریشانیوں سے جوجھ رہیں وندنا کی جان پر آ بنی اور انہوں نے دم توڑ دیا۔ کیا صرف پولیس کمشنر کے معافی نامے اور چار پولیس اہلکاروں کی برخاستگی سے اس کی بھرپائی ہو سکتی ہے؟
پولیس کمشنر سے یہ کیوں نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ ایسے مواقع پر ہدایت دینے محض کے لیے ہیں؟ تب یہ دیکھنا کس کی ذمہ داری ہے کہ ان ہدایات پر عمل بھی ہو رہا ہے یا نہیں؟
یوں،یہ صدر جمہوریہ کے پروٹوکال، ٹریفک سسٹم کی خامی یا اعلیٰ حکام کی ہدایت کی تعمیل نہ ہونے کا معاملہ کم، سرکاری سسٹم کے ذریعے وی وی آئی پی یعنی عزت مآب کے مقابلے عام لوگوں کی اس حد تک بےقدری کرنے، یہاں تک کہ اس کی جان کی قیمت بھی نہ سمجھنے کا معاملہ زیادہ ہے۔
اسی سمجھ کا المیہ ہے کہ عزت مآب لوگوں کے سامنے بچھے بچھے اورعام لوگوں کے لیے اکڑے رہنے والے ہمارے نہ صرف پولیس بلکہ پورے سرکاری نظام کا آئین کی حکومت کے سات دہائیوں بعد بھی یہ سمجھنا باقی ہے کہ اس کا سارا تکیہ‘ہم بھارت کے لوگ’ پر ہے اور وہ انہی لوگوں کے ذریعے اور انہی کے لیے ہے۔
شاید اسی لیے اس تین سال کی بچی کے اہل خانہ اس سسٹم سے وندنا کے اہل خانہ جتنی ہمدردی بھی نہیں حاصل کر پائے۔ 25 جون کی ہی صبح صدر جمہوریہ کی سلامتی کے لیے جا رہےسی آر پی ایف کی تیز رفتار گاڑی نے بائیک سے جا رہے اس کے اہل خانہ کو زوردارٹکر مار دی تھی۔ اس سے وہ بچی بائیک سے نیچے گر گئی تو فورس کی گاڑی اس پر سے گزر گئی تھی، جس سے اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔
لیکن ملک کے دیگر بہت سے ملعون شہریوں کی طرح یہ بچی اپنی جان دےکر بھی پوری خبر نہیں بنا پائی۔ ابھی تک اس کی موت کو لےکر نہ صدر جمہوریہ نے دکھ کا اظہار کیا ہے، نہ سی آر پی ایف نے۔ نہ ہی ان کے آگے ایسا جتانے کی کوئی امید دکھتی ہے۔
یہاں ایک پل کو رک کر اپنی جمہوریت کے ایک اور المیہ پر سوچئے۔ ہم راج شاہی یعنی راجاؤں کے راج میں رہتے تھے تو جہاں پناہوں کے آنے سے پہلےعوام کو اس لیے کہ شہری تو تب ہوتے ہی نہیں تھے، ‘باادب، باملاحظہ، خبردار اور ہوشیار’ ہو جانے کو وارننگ دینے والی منادیاں ہوا کرتی تھیں:‘باادب، باملاحظہ، خبردار، ہوشیار، جہاں پناہ تشریف لا رہے ہیں۔’
ان منادیوں کے بعد عوام جہاں بھی اور جیسے بھی ہوتے تھے، اپنا ‘دھرم’ نبھاتے ہوئے جہاں پناہ احترام میں سر خم کر لیتےتھے۔ وہ یہ اپنی خواہش کریں یا زبردستی، اسےاختیار کر لینے کے بعد کسی حکم کی عدولی یا گستاخی سے پرہیز رکھنے تک انہیں جان کی امان ملی رہتی تھی۔
لیکن اب جب ملک میں کسی شخص کی نہیں بلکہ قانون کی حکومت ہے اور ہم اپنے شہری ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف احکامات کی تعمیل کرنے کے لیے نہیں ہیں،ریاست کی خواہشات کےتعین میں بھی ہمارا رول ہے، تب کیاعزت مآب کے قافلے کو گزر نے دینے کے لیے کی گئی ٹریفک سسٹم تک کو اس قدر ہماری جان پر بھاری پڑ سکنے کی اجازت ہے؟
بلاشبہ، نہ صرف وندنا بلکہ بچی کی موت بھی اس سسٹم اور اسے ملی اس اجازت کے خلاف زوردارتبصرہ ہے۔ اس تبصرے کی شرم کو، جتنی جلدی ممکن ہو، محسوس کرنا اور اس نامرادسسٹم کو بدلنا اب اس لیے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ سرکاری نظام کے ذریعےشہریوں کی یہ بےقدری جب تک رہےگی، ایسی تباہیاں پیدا کرتی ہی رہےگی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)