وزارت داخلہ نے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سی اے اے کے ’مثبت پہلو‘ جاری کرنے کے بعد ڈیلیٹ کیے

پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر 12 مارچ کو شام 7 بجے کے قریب جاری ایک ریلیز میں کہا گیا تھا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ 'ہراسانی کے نام پر اسلام کی شبیہ کو داغدار ہونے سے بچاتا ہے'۔ بعد میں اسے ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ معلوم نہیں ہے۔

پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر 12 مارچ کو شام 7 بجے کے قریب جاری ایک ریلیز میں کہا گیا تھا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ‘ہراسانی کے نام پر اسلام کی شبیہ کو داغدار ہونے سے بچاتا ہے’۔ بعد میں اسے ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ معلوم نہیں ہے۔

پی آئی بی کا لوگو۔ (تصویر بہ شکریہ: حکومت ہند، پبلک ڈومین)

پی آئی بی کا لوگو۔ (تصویر بہ شکریہ: حکومت ہند، پبلک ڈومین)

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ کی ایک پریس ریلیز، جس میں کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ-2019 (سی اے اے) ‘ہراسانی کی وجہ سے اسلام کو داغدار ہونے سے بچاتا ہے’، اب اس کے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) ویب پیج یا ایکس (سابقہ ٹوئٹر)پر دستیاب نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ‘شہریت ترمیمی ایکٹ-2019 کی مثبت تشریح’ کے عنوان سے اور سوال جواب کی شکل میں تیار کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے مسلم شہریوں کی شہریت سی اے اے سے متاثر نہیں ہوگی۔

اسے منگل (12 مارچ) شام 6:43 بجے پی آئی بی کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا تھا ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ریلیز اب کیوں دستیاب نہیں ہے۔

اس کے مواد کو پی آئی بی کے ایکس پیج پر بھی ‘سی اے اے کے متھ کو توڑنا’ کے طور پر بھی پوسٹ کیا گیا تھا، لیکن اب ہٹا دیا گیا ہے۔

سی اے اے کا مقصد مبینہ طور پر ہندوستان کے مسلم اکثریتی پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے2015 سے پہلے ہراسانی کی وجہ سے بھاگ کرہندوستان آئے ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں اور عیسائیوں کو شہریت دینا ہے۔

قانون کے اہتماموں سے مسلمانوں کو باہر کرنے اور اس خوف سے کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے ساتھ اس کے جڑنے پر ہندوستان کے کئی مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کیا جا سکتا ہے، نے ملک بھر کے ہزاروں شہریوں کے خدشات اور احتجاج کو جنم دیا۔

پارلیامنٹ نے 2019 کے آخر میں قانون پاس کیا لیکن حکومت نے اس کے قوانین کو سوموار کو نوٹیفائی کیا۔ ضابطے کے بغیر سی اے اے لاگو نہیں کیا جا سکتا تھا۔

وزارت داخلہ کے ایک سوال میں پوچھا گیا کہ سی اے اے اسلام کی شبیہ کو کیسے متاثر کرے گا۔

اس سوال کا جواب کچھ یوں تھا،’ان تین مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ بری طرح سے داغدار ہوگئی تھی۔ تاہم، اسلام ایک پرامن مذہب ہونے کے ناطے کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر نفرت/تشدد/کسی بھی ظلم و ستم کو فروغ یا تجویز نہیں کرتا ہے۔ مظالم کے لیے ہمدردی اور معاوضے کا اظہار کرنے والا یہ قانون ہراسانی کے نام پر اسلام کی شبیہ کو داغدار ہونے سے بچاتا ہے۔’

ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ‘فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے میں ان کی شہریت کو متاثر کرنے والی کوئی شق نہیں ہے۔’

ریلیز میں لکھا گیا تھا، ‘ہندوستانی مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے میں ان کی شہریت کو متاثر کرنے والی کوئی شق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موجودہ 18 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی لینا دینا ہے، جن کے پاس  اپنے ہندو ہم منصبوں جیسے یکساں حقوق ہیں۔ ‘

اس میں کہا گیا ہے،’اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔’

Positive narrative on Citiz… by Siddharth Varadarajan

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے لیے ہندوستان کا افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش کے ساتھ کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ نہیں ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘یہ شہریت ایکٹ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق نہیں ہے اور اس لیے مسلمانوں اور طلبہ سمیت لوگوں کے ایک حصے کی یہ تشویش کہ سی اے اے مسلم اقلیتوں کے خلاف ہے، غیر ضروری ہے۔’

اس سوال پر کہ شہریت ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت کیوں ہے، ریلیز میں کہا گیا، ‘ان تینوں ممالک کی مظلوم اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے، یہ ایکٹ انہیں ہندوستان کے ہمیشہ سے لبرل کلچر کے مطابق ان کی خوش حالی اورثروت مند مستقبل کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔’ یہ بھی کہا گیا کہ ‘شہریت کے نظام کو بہتر بنانے اور غیر قانونی تارکین کو کنٹرول کرنے کے لیے اس ایکٹ کی ضرورت تھی۔’

ریلیز کے تعارف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی اے اے کا مقصد تینوں ممالک میں ستائی جانے والی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ‘سخاوت اور فیاضی’ کا اظہار ہے، اور یہ ‘ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے معاوضہ’ ہے۔